پاکستان کا ہمیشہ یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں انتخابی سیاست میں منشور یا سیاسی جماعتوں سے جڑے پروگرام کو کوئی بڑی پذیرائی نہیں مل سکی۔ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں ان میں سیاسی جماعتوں کے پاس انتخابی منشورکم اور ایک دوسرے پر الزامات سے جڑی سیاست زیادہ بالادست ہوتی ہے۔ انتخابی منشور کی اہمیت صرف الیکشن کمیشن کی ضرورت کے تحت ہوتی ہے، جو سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل جمع کروانا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابی منشور محض انتخابات سے چند دن قبل سامنے لاکر انتظامی ضرورت کو پورا کرتی ہیں تاکہ ان کے انتخاب لڑنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہو۔
آپ سیاسی جماعتوں کے منشور اٹھاکر دیکھیں، ان میں نہ تو زمینی حقائق ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ داخلی یا خارجی صورتِ حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں محض خواہشات پر مبنی نعرے ہوتے ہیں، اور اہداف کو کیسے حاصل کیا جائے گا اس پر کوئی فہم و ادراک یا تفصیلات موجود نہیں ہوتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ انتخابی سیاست کے دوران کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن، ووٹر یا انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار سمیت پارٹی کے اہم افراد سے بھی اُن کی اپنی جماعت کے پیش کردہ انتخابی منشور پر بات کریں تو اس کے بارے میں ان کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔کیونکہ عمومی طور پر سیاسی جماعتوں کے اپنے تیار کردہ انتخابی منشور عوام کی سطح تو کجا خود اپنی جماعتوں کے اندر بھی پذیرائی حاصل نہیں کرپاتے، اور یہ امر ان کی داخلی سیاست کے تضادات کو نمایاں کرتا ہے۔
جمہوریت میں انتخابی منشور کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ اس انتخابی منشور کو انتخابات سے بہت پہلے تیار کرکے پہلے پارٹی کے اندر اور پھر عوام یا دیگر طبقات کی سطح پر بحث یا مکالمے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ انتخابی منشور کی مدد سے سیاسی جماعتیں اہلِ علم، دانش وروں، رائے عامہ بنانے والوں اور ووٹروں یا عوام کو قائل کرتی ہیں کہ ان کی جماعت کا پیش کردہ منشور دیگر جماعتوں سے کیسے مختلف ہے۔ اسی طرح وہ اس انتخابی منشور کی مدد سے عوام کو یہ باور کراتی ہیں کہ ان کی جماعت کے پاس ہی ملک کو بدلنے کا واضح، شفاف اور حقائق پر مبنی پروگرام ہے۔ اسی سوچ اور فکر کی بنیاد پر ووٹر طے کرتا ہے کہ کس جماعت کے پاس اُس کے حالات کو بدلنے کا واضح پروگرام ہے اور کون اس کے ووٹ کا اصل حق دار ہے۔ خاص طور پر ملک میں جو کمزور اور محروم طبقات ہیں، سیاسی جماعتیں اقتدار میں آکر اُن کی زندگیوں میں کیا حقیقی تبدیلی لاسکیں گی۔
انتخابی منشور کی سیاست محض سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور ووٹرز تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ ملک میں رائے عامہ بنانے والے ادارے، افراد اور بالخصوص میڈیا انتخابات یا انتخابی مہم کے دوران اس منشور کو سیاسی بحث ومباحثہ کا حصہ بناکر خود سیاسی جماعتوں اور اُن کی قیادتوں کو جوابدہی کے نظام میں لاتے ہیں۔ جو جماعتیں اقتدار سے باہر آتی ہیں ان کا سابقہ انتخابی منشور پر سیاسی آڈٹ کیا جاتا ہے تاکہ ووٹروں میں یہ شعور اجاگر ہوسکے کہ ان کی سیاسی قیادت نے اقتدار میں کون سے ایسے کام کیے ہیں جو ان کی زندگی میںبہتری لانے میں معاون ثابت ہوئے۔ میڈیا کے محاذ پر اہلِ دانش مختلف سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا پوسٹ مارٹم کرکے سیاسی قیادتوں سے بنیادی نوعیت کے سوالات کرتے ہیں تاکہ ووٹر کو زیادہ بہتر طور پر راہنمائی مل سکے۔ سیاسی جماعتوں میں بھی میڈیا اور تھنک ٹینک کا ایک خوف ہوتا ہے کہ اگر یہ ادارے فعال انداز میں کام کررہے ہوں تو ان کی جوابدہی زیادہ طاقت ور ہوجاتی ہے۔ عمومی طور پر سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں اس عمل کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں انتخابی منشور کی تیاری کا عمل بہت نیم دلانہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر انتخابی منشور کی تیاری کے لیے سیاسی جماعتوں کی سطح پر مختلف لوگوں پر مشتمل جو کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں وہ اوّل تو زیادہ فعال نہیں ہوتیں، دوئم یہ کمیٹیاں بھی اپنی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی عدم دلچسپی کے باعث سابقہ انتخابی منشور کو سامنے رکھ کر یا تو کاپی کرتی ہیں، یا کچھ تبدیلی کرکے اس میں نیا رنگ بھرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادتوں، سینٹرل ایگزیکٹوکمیٹی اور پارٹی میں موجود دیگر طبقات کو انتخابی منشور کی تیاری کے حوالے سے کہیں بھی نہ تو مشاورت کا حصہ بنایا جاتا ہے اور نہ ہی ان کو اس عمل میں اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس ٹھوس تجاویز پر مبنی کوئی ورکنگ پیپر بھی موجود نہیں ہوتا۔
ماضی میں اگر ہم 1970ء،1977ء، 1985ء، 1988ء، 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء، 2008ء اور2013ء کے انتخابات اور ان سے جڑی ہوئی انتخابی مہم کا جائز لیں تو وہ بدقسمتی سے سیاسی نظام، پروگرام، منشور کے بجائے افراد اور اُن کی ذاتیات پر مبنی سیاست کے دائرے تک محدود رہی۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں اور قیادتوں نے الزامات اور محاذ آرائی کی سیاست کو بنیاد بناکر اپنی انتخابی مہم چلائی اور ووٹروں میں ایک جذباتی کیفیت پیدا کرکے اپنے سیاسی مفادات کو تقویت دی۔ ماضی میں ہی بے نظیر اور نوازشریف حمایت اورمخالفت کے درمیان لڑے جانے والے انتخابات کی کہانی سب کے سامنے موجود ہے جس نے منشور کی سیاست کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
اسی طرح اب اگر ہم 2018ء کی انتخابی سیاست پر نظر ڈالیں تو یہ اینٹی بھٹو یا پرو بھٹو سے نکل کر کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک طرف اینٹی عمران خان اور پرو عمران خان سیاست ہے تو دوسری طرف دیگر سیاسی جماعتیں اس تقسیم میں خود بھی تقسیم نظر آتی ہیں۔ اس لیے اب جبکہ انتخابات 2018ء میں بہت زیادہ وقت نہیں بچا، کسی بھی سیاسی جماعت کا مکمل انتخابی منشور تحریری دستاویز کی صورت میں سامنے نہیں آیا ہے اور 2018ء کا الیکشن بھی الزام تراشیوں کی سیاست میں الجھا ہوا نظر آتا ہے۔ عمران خان اور نوازشریف کی مخالفانہ سیاست عروج پر ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی اور ایم کیو ایم بھی لڑائیوں میں الجھی ہوئی ہیں۔ ایسے میں ہماری انتخابی سیاست کیسے انتخابی منشور کے تابع ہوسکتی ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ اقتدار میں شامل جماعتوں کی کارکردگی کا تجزیہ کریں تو ان کے بہت سے کام ایسے ملیں گے جو ان کے منشور کا حصہ نہیں تھے۔ اسی طرح بہت سے کاموں کی نوعیت ایسی ہوگی جو عوامی مفادات سے جڑی ترجیحات سے بہت مختلف نظر آتی ہے۔ اصل میں ہماری سیاسی جماعتوں میں سوچ بچار کرنے والے افراد پر مشتمل کوئی تھنک ٹینک موجود نہیں، اگر یہ بنائے گئے ہیں تو عملی طور پر فعال نہیں، اور نہ ہی سیاسی قیادت کی جانب سے ان کو کوئی پذیرائی ملتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں سیاسی جماعتیں کیسے مؤثر انتخابی منشور بناسکتی ہیں! اور مسئلہ سیاسی جماعتوں کی داخلی قیادت کا ہے جو جوابدہی پر مبنی سیاست کی قائل نہیں۔
ہمارے ووٹروں کا بھی یہ مزاج بن گیا ہے کہ وہ بھی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی جذباتی یا محاذ آرائی کی سیاست کا حصہ بن کر خود اپنا نقصان کرتے ہیں۔ جو لوگ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ سیاسی اور انتخابی نظام سے لاتعلق رہتے ہیں اور ووٹ ڈالنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ انتخابی منشور کی سیاست اُسی معاشرے میں زیادہ طاقت پکڑتی ہے جہاں اوّل سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں، اور دوئم ووٹر بھی سیاسی شعور رکھتا ہو، اور سیاسی جماعتوں کے جوابدہی کے نظام پر یقین رکھتا ہو۔ اس لیے جیسے ہمارا جمہوری نظام ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے ایسے ہی ہم انتخابی منشور کی سیاست کو بالادست کرنے کے عمل میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔
ضروری ہے کہ اس معاشرے میں موجود وہ لوگ، طبقات یا ادارے جو واقعی جمہوری نظام کی مضبوطی چاہتے ہیں انہیں اپنے اپنے حالیہ کردار اور دائرۂ کار کو تبدیل کرکے نئے انداز میں ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ ہمیں آگے بڑھ کر سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں پر دبائو کو بڑھانا ہوگا۔ محاذ آرائی اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست سے نکل کر ہمیں منشور کی سیاسی بحث کو طاقت دینی ہے۔ ہمیں دنیا کی جمہوری سیاست کے تجربات سے سبق سیکھ کر اپنی ماضی اور حال کی غلطیوں کی تلافی کرنی چاہیے۔ کیونکہ پاکستانی معاشرے کو اِس وقت جن داخلی اور خارجی بڑے مسائل یا چیلنجز کا سامنا ہے اُن سے نمٹنے کے لیے زیادہ سنجیدگی، تحمل، بردباری، تدبر اور فہم و فراست کی ضرورت ہے، کیونکہ یہی ہماری قومی ضرورت بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔