سیاسی جماعتیں، انتخابی فیصلے اورنظریاتی سیاست کے دعوے

عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے، نگران وفاقی و صوبائی حکومتوں کے سربراہان، الیکشن کمیشن اور دیگر اہم قومی اداروں کے ذمے داران کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات اور اعلانات سے اب یہ بات تقریباً حتمی نظر آتی ہے کہ انتخابات 25 جولائی 2018ء کو ہی ہوں گے، اور ان کے التوا سے متعلق جو افواہیں اور قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں وہ دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں فاٹا کے انتظام کو جواز بناکر متحدہ قبائل محاذ کی جانب سے دائر کی گئی انتخابات کے التوا کی درخواست بھی الیکشن کمیشن نے مسترد کردی ہے۔ محاذ کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں پورا زور اس بات پر صرف کیا کہ فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات اگر عام انتخابات کے ساتھ نہ کرائے گئے تو پندرہ فیصد عوام نمائندگی سے محروم رہیں گے۔ اسی طرح انہوں نے انتخابات کو دو سے پانچ ماہ تک ملتوی کرنے پر زور دیا۔ مگر فاٹا کے صوبۂ خیبر پختون خوا میں انضمام کے وقت ہی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ملک میں عام انتخابات کے ایک سال بعد ہوں گے کیونکہ وہاں حلقہ بندی کے کام کے لیے وقت درکار ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن نے یہ درخواست مسترد کردی۔ یوں انتخابات کو ملتوی کرانے کی خواہاں قوتیں اپنی آخری قانونی جنگ بھی ہار گئیں، اور اب 25 جولائی کو انتخابات تقریباً یقینی نظر آتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں ملک بھر سے 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 افراد رائے دہی کا حق استعمال کرنے کے اہل ہوں گے۔ چھٹی مردم شماری 2017ء کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 ہے۔ ان میں 51 فیصد ووٹرز ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ووٹرز نے آبادی کے مقابلے میں 50 فیصد کی حد عبور کی ہے۔ 5 کروڑ 92 لاکھ 24 ہزار 263 ووٹرز مرد، اور 4 کروڑ 67 لاکھ 31 ہزار 146 خواتین ہیں۔ پنجاب میں 6 کروڑ 6 لاکھ 72 ہزار 870 میں سے 3 کروڑ 36 لاکھ 79 ہزار 993 مرد، اور 2 کروڑ 69 لاکھ 92 ہزار 877 خواتین، سندھ میں 2 کروڑ 23 لاکھ 91 ہزار 244 میں سے ایک کروڑ 24 لاکھ 36 ہزار 8 سو 44 مرد اور 99 لاکھ 54 ہزار 400 خواتین، خیبر پختون خوا میں ایک کروڑ 53 لاکھ 16 ہزار 299 میں سے 87 لاکھ 5 ہزار 831 مرد اور 66 لاکھ 10 ہزار 468 خواتین، بلوچستان میں 42 لاکھ 99 ہزار 494 میں سے 24 لاکھ 86 ہزار 330 مرد اور 18 لاکھ 13 ہزار 264 خواتین، فاٹا میں 25 لاکھ 10 ہزار 154 میں سے 15 لاکھ 7 ہزار 902 مرد اور 10 لاکھ 2 ہزار 252 خواتین، اور اسلام آباد میں 7 لاکھ 65 ہزار 348 میں سے 4 لاکھ 7 ہزار 463 مرد اور 3 لاکھ 57 ہزار 885 خواتین ووٹرز ہیں۔
الیکشن کمیشن ہی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 874 جنرل نشستوں کے لیے 20099 امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے، جن میں سے 18203 کاغذات کو درست قرار دے کر انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا اہل ٹھیرایا گیا ہے، جب کہ 1896 کاغذات مسترد کردیے گئے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تین جنرل نشستوں کے لیے 129 کاغذاتِ نامزدگی میں 84 منظور جب کہ 45 مسترد ہوئے۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 2550 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 2342 منظور جب کہ 208 مسترد کردیئے گئے۔ پنجاب کی 287 صوبائی نشستوں کے لیے 6741 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 6173 منظور جب کہ 568 مسترد قرار پائے۔ کے پی کے سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 726 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 690 منظور جب کہ 36 مسترد ہوئے۔ کے پی کے کی 124 صوبائی نشستوں کے لیے 2062 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 1919 منظور جب کہ 143 مسترد ہوئے۔ سندھ سے قومی اسمبلی کی سیٹوں کے لیے 1285 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 1142 منظور جب کہ 143 مسترد ہوئے۔ سندھ کی 143 صوبائی نشستوں کے لیے 3626 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 3246 منظور جب کہ 380 مسترد ہوئے۔ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی سیٹوں کے لیے 435 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 380 منظور جب کہ 55 مسترد ہوئے۔ بلوچستان کی 51 صوبائی نشستوں کے لیے 1447 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 1181 منظور جب کہ 266 مسترد ہوئے۔ فاٹا کی قومی اسمبلی کی 12 نشستوں کے لیے 1098 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 1046 منظور جب کہ 52 مسترد ہوئے۔ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی جنرل 272 نشستوں کے لیے ملک بھر میں جمع کرائے گئے 6223 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 5634 منظور جب کہ 539 مسترد ہوئے۔ عام انتخابات میں 602 جنرل صوبائی نشستوں کے لیے ملک بھر میں 13876 کاغذاتِ نامزدگی میں سے 12519 منظور جب کہ 1357 مسترد کردیئے گئے ہیں۔
مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کی نامزدگی یا ٹکٹ دینے کا ابتدائی کام بھی تقریباً مکمل کرلیا ہے اور متحدہ مجلس عمل کے سوا دیگر تمام جماعتوں خصوصاً نواز لیگ اور تحریک انصاف کو اس ضمن میں بہت سے حلقوں میں مختلف امیدواروں اور ان کے کارکنوں کی جانب سے شدید نوعیت کی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے، خصوصاً عمران خان نے جس دھرنا کلچر کو متعارف کرایا تھا، اب خود وہ اس کا سامنا کررہے ہیں اور بنی گالا میں ان کی رہائش گاہ کے باہر ٹکٹوں کی تقسیم پر ناراض لوگ اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔ نواز لیگ میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم کے فیصلوں پر زبردست ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ راولپنڈی میں چودھری نثار کا معاملہ اگرچہ قدرے مختلف ہے اور اُن کے پارٹی قیادت سے اختلافات کم و بیش ایک سال سے سب کے سامنے تھے، تاہم لاہور جو ایک عرصے سے نواز لیگ کا قلعہ شمار کیا جاتا رہا ہے اور خود شریف خاندان کا تعلق بھی یہیں سے ہے، میاں شہباز شریف کی صوبائی حکومت کے ترجمان اور صوبائی وزیر مذہبی امور زعیم حسین قادری جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ نسل در نسل سے مسلم لیگی ہیں، انہوں نے صحیح اور غلط کی تمیز کیے بغیر ہر قسم کے حالات میں شریف خاندان کا دفاع کیا، پرویزمشرف کے دور میں جب کہ شریف خاندان معاہدہ کرکے جدہ میں جا آباد ہوا تھا، زعیم حسین قادری اُن چند لوگوں میں تھے جو ہر قسم کے مسائل اور مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے شریف خاندان سے وفاداری نبھاتے رہے، مگر ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل میں نظرانداز کیے جانے اور اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو برداشت نہیں کر سکے اور پھٹ پڑے ہیں۔ وہ جو کل تک شریف خاندان کے ہر غلط کام کے لیے جواز اور دلائل جلسوں اور ذرائع ابلاغ کے مباحثوں میں پیش کرنے میں پیش پیش ہوتے تھے، اب انہوں نے کھلم کھلا چیلنج دے دیا ہے کہ لاہور حمزہ شہباز اور اس کے باپ کی جاگیر نہیں، وہ آزاد حیثیت میں انتخاب لڑیں گے اور حمزہ شہباز کو اس کی حیثیت بتائیں گے… پنجاب کے ایک اور سابق صوبائی وزیر چودھری عبدالغفور جو اب تک شریف برادران کے خاندانی خدمت گزار تصور کیے جاتے تھے اور ان کا تعلق بھی رائے ونڈ ہی کے علاقے سے ہے… وہ بھی ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر ناراض ہوکر شریف خاندان سے اپنی 28 سالہ رفاقت ختم کرکے پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اسی طرح کی پاکستان خصوصاً پنجاب میں اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں، مگر لاہور کے ان دو متوالوں کی علیحدگی نے لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
جہاں تک مختلف سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کا تعلق ہے تو یہ امر دلچسپ ہے کہ ہر جماعت ’’نظریاتی‘‘ ہونے کی دعویدار ہے مگر باقی اقدامات اور اعلانات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر ان جماعتوں کی انتخابی پالیسیوں خصوصاً امیدواروں کی نامزدگی یا ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل ہی کا جائزہ لے لیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ متحدہ مجلس عمل، کہ جس نے اپنے منشور کا اعلان بھی سب سے پہلے کردیا ہے اور اس میں بھی تمام پالیسیوں کی اساس میں نظریات کی جھلک واضح نظر آتی ہے، اس کے علاوہ مجلس عمل نے دوٹوک الفاظ میں نظام مصطفی کے نفاذ کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دے کر اپنی نظریاتی سمت واضح کردی ہے جب کہ دیگر جماعتوں کی سیاست میں نظریاتی سیاست کی کوئی جھلک دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اس کے برعکس اُن کا مقصد انتخابی کامیابی اور ہر قیمت پر کامیابی قرار پایا ہے۔ تینوں بڑی جماعتوں نواز لیگ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما تقاریر میں غریب اور عام آدمی کے دکھ درد میں ہلکان دکھائی دیتے ہیں اور سرمایہ داروں، جاگیرداروں، سرداروں اور وڈیروں کو ان مسائل کا سبب قرار دیتے ہیں، مگر ان جماعتوں کے نامزد کردہ انتخابی امیدواروں کی فہرستوں پر سرسری نظر دوڑانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں وہی کردار سرمایہ دار، وڈیرے اور جاگیردار بھرے پڑے ہیں۔ اس طرح یہ تمام جماعتیں اپنے دعووں کی حد تک ہر طرح کے تعصبات خصوصاً ذات، برادری اور فرقہ وارانہ اور لسانی و علاقائی تعصبات کی مذمت کرتی سنائی دیتی ہیں مگر جب عملاً قوم کو ان تعصبات سے نجات دلانے کا موقع آیا تو یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان تمام جماعتوں نے اپنے امیدواروں کی نامزدگی کے فیصلے کے وقت سب سے زیادہ اہمیت علاقے میں موجود برادریوں سے امیدواروں کے تعلق اور اثر رسوخ کو دی ہے، خصوصاً پنجاب جہاں مختلف اضلاع اور علاقوں میں مختلف برادریوں کی اکثریت آباد ہے اور لوگ رائے دیتے وقت امیدوار کی شخصیت اور کردار سے زیادہ اُس کے اپنی برادری سے تعلق کو پیش نظر رکھتے ہیں، ان علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے فیصلوں میں ان کے نام نہاد نظریات سے ذات برادری کے تعصبات غالب نظر آتے ہیں۔ اس سے ذرا آگے بڑھیں تو فیصل آباد اور جھنگ جیسے بعض اضلاع میں جہاں فرقہ وارانہ وابستگی اور مختلف پیروں کی گدیوں سے تعلق رائے دہی کے عوامی فیصلے پر اثرانداز ہوتا ہے وہاں ان سیاسی جماعتوں نے پوری ڈھٹائی سے انہی وابستگیوں کو اپنے فیصلوں کی اساس بنایا ہے۔ اس کے باوجود اگر ان جماعتوں کے قائدین نظریاتی اور انقلابی ہونے اور تبدیلی کے دعوے کریں تو ظاہر ہے کسی کی زبان پکڑی نہیں جا سکتی، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ان ’’بڑی‘‘ جماعتوں نے اپنے انتخابی امیدواروں کی نامزدگی کے فیصلوں میں نظریاتی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے۔ تاہم ذرائع ابلاغ کے ذریعے تیزی سے فروغ پذیر سیاسی شعور کے باعث یہ توقع بے جا نہیں کہ یہ دو عملی اب زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گی اور انہی انتخابات کے دوران قول و فعل کے تضاد کے شکار سیاست دانوں کو اپنی انتخابی مہم کے دوران شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔