۔25 جون 2018ء کی صبح شدید حسرت نے حصار میں لے لیا… کہ کاش گزشتہ شب ’انقلابِ استنبول‘ میں گزارتے۔ کاش مسجد سلطان احمد کی دہلیز پر سجدۂ شکر ادا کرتے۔ کاش باسفورس کے مغرب سے مشرق آتے جاتے چہروں میں شامل ہوتے۔ شاہراہِ سلطان احمد پر دور تک مساجد اور مدرسوں کے ساتھ ساتھ چہل قدمی کرتے۔ کاش عثمانی عظمتِ رفتہ کی صحبت میں کچھ وقت گزارتے۔ آیا صوفیا سے نوک جھونک کرتے۔ دہائیوں پرگزرے دردناک لمحات سے ہم آغوش ہوتے، زار و قطار روتے، اشک بار ہوتے۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ یہ ہمارا استحقاق تھا بھی نہیں۔ سو وہ جن کے بزرگ سوئے دار چلے تھے، وہ انقلابی سوئے منزل چلے۔
24 جون کی صبح سازشوں میں گھرا سورج جب انقرہ کے افق پر ابھرا تھا، کروڑوں چہروں پر امید کی کرنیں ابھری تھیں۔ آٹھ بجتے ہی لوگوں نے پولنگ اسٹیشنوں کی جانب قدم بڑھا دیے تھے۔ 81 صوبوں کے 5 کروڑ63 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز نے ایک لاکھ 80 ہزار پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کیا تھا۔ ایک لاکھ 80 ہزار 65بیلٹ باکسز میں رائے کو محفوظ کیا تھا۔ ایک ہی بیلٹ پیپر پر پارلیمنٹ اور صدرکے انتخاب کے لیے مہریں ثبت کی تھیں۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رہنما رجب طیب ایردوان پیپلزالائنس کے تحت صدارت کے امیدوار تھے، جبکہ محرم انجے کا نیشن الائنس مقابلے پر تھا۔
وقت گزرتا گیا، اور حالات کا دھارا بدلتا گیا۔ پاکستان سے جرمنی تک جذبات کا تلاطم برپا رہا۔ مشرق نے ابھرتے سورج کا مشاہدہ کیا۔ مغرب نے انتہائی وحشت سے ڈوبتے سورج کا نظارا کیا۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا انتخابی نشان ’بلب‘ استنبول سے انقرہ اور ازمیر تک روشنی پھیلاتا چلا گیا۔ سازشوں کے رنگ دونوں کناروں تک مٹتے چلے گئے۔ مغرب کے چہرے پر زردی چھاگئی۔ چاند ستارے والے خوشی سے دمکنے لگے۔ چھے سو غیر ملکی صحافی براہِ راست تاریخ ساز انتخابات کا لمحہ لمحہ محفوظ کرتے رہے۔ بے شمار مناظر اور الفاظ ذرائع ابلاغ میں گردش کرتے رہے۔
مغرب ابھی اندھیرے میں ہی تھا جب ترکی میں تاریخ ساز فتح کا امکان روشن ہوا۔ اکثریت نے رجب طیب ایردوان کو پہلا ایگزیکٹو صدر چن لیا تھا۔ ٹرن آؤٹ تقریباً 90 فیصد رہا تھا۔ طیب ایردوان نے 53 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ جبکہ مخالف امیدوار محرم انجے 30.7 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ طیب ایردوان کے سیاسی اتحاد نے ہی پارلیمنٹ میں بھی اکثریت حاصل کی تھی۔
انقرہ سے استنبول تک… اور انطالیہ سے ازمیر تک ریلیاں تھیں۔ بے شمار لوگ پرچم تھامے شاہراہوں پرآگئے تھے۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن کی سڑکوں پر ترک ٹوپیوں والے دیوانہ وار جیت کا اعلان کرتے رہے تھے۔
انقرہ کے خطاب میں طیب ایردوان نے کہا ’’سب سے پہلے اس فتح پر الحمدللہ… دوستوں اور بھائیوں کا شکرگزار ہوں… اُن سب کا شکرگزار ہوں جنہوں نے دنیا بھر میں ہمارے لیے دعائیں کیں۔ میں فلسطینی بھائیوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے ہماری فتح کو اپنی فتح سمجھا۔ میں مصر میں اپنے بھائیوں کا شکرگزار ہوں جو جمہورکی حکمرانی کے لیے مصائب میں گھرے ہیں، جو اس جدوجہد کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ میں بلقان میں اپنے بھائیوں سے اظہارِ تشکر کرتا ہوں۔ بوسنیا، مقدونیا، کوسووا اور یورپ کے دیگر شہروں میں موجود اپنے بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں… میں اپنے شامی بھائیوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے انتہائی کرب ناک حالات میں بھی ہمیں یاد رکھا، ہماری فتح کے لیے دعائیں کیں۔ ترکی نے اپنا فیصلہ سنادیا، ہم ناقابلِ تسخیر ہیں۔ ہمیں جھکایا نہیں جاسکتا۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ شام کو آزاد کروائیں گے اور شامی مہمانوں کی محفوظ واپسی کا انتظام کریں گے۔ سن لیجیے! آج غیر اخلاقی سیاست کو شکست ہوچکی… بے مقصد سیاست دم توڑچکی… آج ’اسٹیٹس کو‘ کو شدید دھچکا لگا ہے… ترکی کے خلاف سازشیں کرنے والے آج شکست سے دوچار ہوچکے۔ ہم جیت گئے، تاہم ہم سے جو کوتاہیاں ہوئیں ہم اُن پر غور کریں گے تاکہ نتائج کو مزید بہتر بناسکیں۔ جس اللہ رب العزت نے مجھے پیدا کیا اُسی نے اس ریاست کے کروڑوں انسانوں کو پیدا کیا۔ ہم قوم پرستی کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم ایک ملک، ایک قوم، ایک پرچم اور ایک ریاست ہیں۔ الحمدللہ کہ ہم اس راستے پر عزوشرف کے ساتھ گامزن ہیں، کل ہم یہاں نہیں ہوں گے، مگر ہم نے اللہ کے دئیے ہوئے کام کو احسن طریقے سے انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ آج کے بعد، جب تک اس جسم میں جان باقی ہے، ہم اس زمین اور پرچم کی سربلندی کے لیے آخری سانس تک کام کرتے رہیں گے۔ آج ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اپنے آباء کے پرچم کو سربلند کیا ہے۔ آج نیا ترکی شاداں و فرحاں ہے۔ آج ہم نے 2023ء کے اہداف حاصل کرلیے۔ آپ سب کو فتح مبارک ہو۔‘‘
ایردوان کے الفاظ سے جیسے مغربی ذرائع ابلاغ پر مُردنی سی چھا گئی۔ ساری چالیں اکارت ہوچکی تھیں۔ سارے اندازے غلط ثابت ہوچکے تھے۔ سارے دعوے دھوکا ہوچکے تھے۔ سارے جائزے جھوٹ نکلے تھے۔
ترکی نے 16 اپریل 2017ء کو جس صدارتی نظام کی منظوری دی تھی، وہ اب عملاً نافذ ہوچکا ہے۔ ایگزیکٹو صدر طیب ایردوان لیجسلیٹو اور ایگزیکٹو برانچزدونوں کے سربراہ ہیں۔ وہ نئے نظام کے تحت قوانین کے اطلاق کا حکم جاری کرسکتے ہیں۔ اب سالانہ بجٹ صدر بنائیں گے، تاہم پارلیمان سے منظوری لازم ہوگی۔ صدارتی نظام کے نفاذ کی ضرورت کیوں پیدا ہوئی؟ اس سوال کا جواب رجب طیب ایردوان نے یہ دیا تھا کہ ’’نظام میں سستی و کاہلی ہے، جس کی وجہ میں ’بیوروکریٹک اشرافیہ‘ کو سمجھتا ہوں، اداروں میں انتظامی رکاوٹیں ہمارے آگے آرہی ہیں، ترقی کی رفتار سست ہے۔ ہم یہ کاہلی ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
غرضیکہ یہ فتح ایک مسلمان انقلاب ہے، یہ اسلامی انقلاب کی راہ پر ہے۔ یہی سنتِ انقلاب ہے۔ کردار سازی سے معاشرہ سازی، اور پھر انقلاب سازی تک قربانیاں ہی قربانیاں، مثالیں ہی مثالیں، اورصبر ہی صبر ہے۔ یہ مثالیں زنداں کی نوری راتوں میں سینچی جاتی ہیں۔ مقفل مساجد کی ویرانیوں میں گریہ وزاری کرتی ہیں۔ شکستہ درزوں سے راست راہیں بناتی ہیں۔ گاؤں گاؤں نور پھیلاتی ہیں، انقرہ و استنبول کی جامعات میں سعید روحوں کی آبیاری کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ دل ودماغ روشن ہوتے ہیں… اور پھر یہ دلیلِ روشن بن جاتے ہیں۔