پہلی دفعہ نواب غوث بخش رئیسانی کو اُس وقت دیکھا جب ساراوان ہائوس میں انہوں نے بلوچستان متحدہ محاذ کا ایک تاریخی کنونشن منعقد کیا۔ اس کنونشن میں جی ایم سید، آغا غلام نبی پٹھان، حاجی مراد خان جمالی اور سردار دوران خان زرکزئی بھی شریک تھے۔ نواب غوث بخش رئیسانی نے تاریخی خطاب کیا، یہ خطاب تحریری صورت میں تھا اور آج تک میرے پاس اس کی کاپی موجود ہے۔ اس میں اُن کے اہم نکات بلوچستان کے حوالے سے تھے۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے بلوچستان کے سیاسی حالات اور حقوق کا حوالہ دیا۔ اس کنونشن سے میرا خطاب بھی تھا۔ میں اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ بلوچستان کا ناظم تھا۔ نواب نے انتخابات میں حصہ لیا اور بعد میں وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ بھٹو نے انہیں بلوچستان کا گورنربنایا۔ اس لحاظ سے وہ بلوچستان کے پہلے سیاسی گورنر تھے۔ ان کا دورِ گورنری کم مدت کا تھا۔ ان کے بعد غوث بخش بزنجو گورنر بنے۔ یہ بھی بھٹو اور نیپ کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں تھا۔ یہ حُسنِ اتفاق تھا کہ دونوں گورنروں کا نام غوث بخش تھا۔ بس ایک رئیسانی تھا اور دوسرا بزنجو۔ جب نواب رئیسانی نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تو بلوچستان متحدہ محاذ سرد خانے میں چلا گیا، نواب رئیسانی قبائلی چپقلش کے زد میں آگئے اور انہیں قتل کردیا گیا۔ یہ ایک المیہ تھا جس کے اثرات بہت دور تک گئے۔ بلوچستان میں قبائلی تصادم کے اثرات بڑے بھیانک نکلتے ہیں، اور بلوچستان اب تک اس قبائلی انتقام سے نہیں نکل پایا ہے۔ اس کے اثرات سیاست پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
ریاست قلات کا خانی نظام کمزور ہوا، یا اسے کمزور کیا گیا تو قبائلی نظام کی مرکزیت ختم ہوگئی۔ میر احمد یار خان کی شخصیت بلوچستان کی قبائلی زندگی میں ایک قوت کے طور پر موجود تھی، ان کا بڑا احترام تھا اور ان کے فیصلوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ نیپ کے سوشلسٹ عناصر نے خان کے نظام پرکاری ضرب اُس وقت لگائی جب خان کے صاحب زادوں کے مقابل نیپ کھڑی ہوگئی اور خان کے چھوٹے بھائی شہزادہ عبدالکریم کو خان کے صاحب زادے کے مقابل کھڑا کیا گیا اور اسے شکست دی گئی۔ یہ دراصل خان میر احمد یار خان کی شکست نہ تھی بلکہ خان کے قبائلی نظام کی شکست تھی، اور اب خان کا نظام عملی طور پر معدوم ہوگیا ہے اور موجودہ خان سلیمان خان نے جلاوطنی اختیار کرکے اس کو بالکل بے اثر بنادیا ہے۔ انہیں بلوچستان واپس آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا، وہ جتنی دیر برطانیہ میں رہیں گے کمزور ہوجائیں گے۔ بہتر ہے کہ وہ اپنی آبائی سرزمین پر لوٹ آئیں۔ اب قبائلی نظام سیاست کے دائرے میں داخل ہوگیا ہے، نواب اور سردار سیاسی نظام کے زیراثر آگئے ہیں اور انہوں نے سیاسی بالادستی کو قبول بھی کرلیا ہے۔ جمہوریت آہستہ آہستہ قبائلی نظام پر بالادستی کی کشمکش سے گزر رہی ہے اور قبائلی نظام کمزور ہورہا ہے۔ آگے چل کر نواب اور سردار صاحبان روایتی نمائندے کے طور پر رہ جائیں گے اور سیاست اور جمہوریت بالآخر ان پر حاوی ہوجائے گی۔
بات ساراوان ہائوس میں عید کے لمحات سے شروع کی تھی اور ماضی کے چند اوراق بھی پلٹ دیئے تاکہ ماضی سے بھی کچھ کچھ آگاہی ہوجائے۔ ہم نے بلوچستان متحدہ محاذ کا ذکر کیا تھا۔ اس کو نواب غوث بخش رئیسانی کے چھوٹے صاحب زادے نے زندہ کیا تھا۔ اب سراج رئیسانی نے اپنے والد کی نشانی کا کریاکرم کردیا ہے۔ معلوم نہیں غوث بخش رئیسانی کی نشانی کو کوئی دوبارہ زندہ کرے گا یا نہیں۔ اور اب وہ اپنے بڑے بھائی نواب محمد اسلم رئیسانی کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ اب دونوں کا مقابلہ مستونگ کے میدان میں ہوگا۔ اس موقع پر ایک دلچسپ تاریخی واقعہ کا حوالہ بڑا اہم ہے۔ جنرل ایوب خان کے چھوٹے بھائی قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف تھے، ان کا نام بہادر خان تھا۔ ایوب خان ان کی تقاریر اور نکتہ چینی سے بہت پریشان تھے۔ دونوں کی والدہ محترمہ زندہ تھیں۔ ایوب خان نے والدہ سے چھوٹے بھائی کی شکایت کی تو والدہ نے ان دونوں کو بلایا اور اپنے چھوٹے بیٹے بہادرخان کی گوشمالی کی اور انہیں ڈانٹا کہ بڑے بھائی کی مخالفت کرتے ہوں، کیوں؟ بہادرخان نے ادب سے والدہ کی سرزنش سنی اور ان کے احترام میں خاموشی کا وعدہ کرلیا، اور اس سیاست سے دست بردار ہوگئے۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔
بات دوبارہ ساراوان ہائوس سے شروع کرتے ہیں جہاں عید کے دوسرے دن جانا ہوا۔ پہلے عبدالغفور بلوچ سابق امیر کوئٹہ سے ملا۔ ان کا گھر ساراوان ہائوس کے مشرق میں واقع ہے۔ جب ان کے گھر پہنچا تو ایک نگاہ ساراوان ہائوس پر ڈالی جہاں ایک نواب براجمان تھا، اور دوسری طرف جماعت اسلامی کے ایک مخلص انسان کا چھوٹا سا گھر تھا۔ محبت سے اپنے نظریاتی کارکن کے گھر پر نگاہ ڈالی، کچھ دیرسوچتا رہا اور چل دیا۔ ساراوان ہائوس کے گیٹ سے داخل ہوا تو گارڈ سے پوچھا کہ نواب صاحب موجود ہیں؟ اُس نے کہا: ہاں موجود ہیں۔ میں نے پوچھا کہ نواب زادہ لشکری کہاں ہیں؟ اس نے بتایاکہ دونوں ایک جگہ پر تشریف فرما ہیں۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ دونوں آج کیسے یکجا موجود ہیں! اندر داخل ہوا تو نواب محمد اسلم خان رئیسانی اور نواب زادہ لشکری رئیسانی دونوں ایک ساتھ موجود تھے۔ دونوں سے ہاتھ ملائے۔ کچھ دیر بعد سبزچائے کا دور چلا۔ آنے والے مہمانوں کو سبز چائے پلائی جارہی تھی۔
مجھے بلوچستان کے تین بڑے نوابوں سے ملاقات کا موقع ملا ہے، ان میں نواب خیر بخش خان مری (مرحوم)، نواب محمد اکبر خان بگٹی اور نواب اسلم رئیسانی شامل ہیں۔ نواب خیر بخش مری سے ملاقات ہوتی تو وہ بھی سبز چائے پلاتے تھے۔ اُن کا دسترخوان محدود تھا۔ نواب بگٹی کا دسترخوان تاریخی تھا۔ مہمان نوازی نواب بگٹی پر ختم تھی۔ نواب بگٹی شہید سے میرا سیاسی یارانہ تھا جو بائیس سال پر محیط تھا۔ انہیں بہت قریب سے دیکھا۔ آخری لمحات کے تصادم نے انہیں تاریخ میں زندہ کردیا۔ نواب محمد اسلم رئیسانی کی محفل میں عام لوگ آ جا رہے تھے، یہ کوئی سیاسی محفل نہیں تھی۔ ہم سب کی نواب زادہ لشکری رئیسانی سے سیاسی نوک جھونک چلتی رہی۔ وہ طنزیہ گفتگو میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اب کی بار محسوس ہوا کہ اُن کا مطالعہ رک گیا ہے، اب وہ جس پارٹی میں ہیں اُس کا تعلق علمی دنیا سے نہیں ہے۔ وہاں کتاب کا دخل اب نہیں رہا۔ سیاست قومیت کے تنگ دائرے میں آگئی ہے، لیکن اب تو وہ سیاست ہی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ اب سیاست کا مطمح نظر پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کرنا رہ گیا ہے۔بلوچستان میں قوم پرست سیاست سوویت یونین کے سورج سے روشنی حاصل کرتی تھی۔ جہاد نے سوشلزم کا روسی چراغ ہی گل کردیا، اور اب اس کی سیاست ماضی کا مزار بن گئی ہے۔ اس کا نتیجہ خضدار کی نشستوں پر جمعیت علمائے اسلام اور بی این پی کے اتحاد کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دونوں اپنے اپنے مقام پر نہیں ہیں، مفادات نے نظریات کی جگہ لے لی ہے۔ اب نہ دایاں بازو دایاں بازو رہا ہے اور نہ بایاں بازو بایاں بازو رہا ہے۔ نواب اسلم خان رئیسانی کی محفل میں سیاست پر بہت کم گفتگو ہوئی، اُن سے کہاکہ آپ سے انٹرویو لینا ہے تو انہوں نے کہاکہ نواب زادہ سے پوچھیں، یہ میرا شیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں انٹرویو دوںگا، انتخابات کے بعد۔ لیکن وہ کچھ کچھ بولتے رہے۔ احتیاط کا دامن انہوں نے تھام رکھا تھا، اس لیے کھل کر گفتگو نہیں کررہے تھے۔ میرا بھی اصول ہے کہ جس سے انٹرویو کے لیے کہا اور اُس نے انٹرویو نہیں دیا تو پھر زندگی میں اس سے انٹرویو نہیں لیا۔ اس طرح عبدالمالک بلوچ سے وزیراعلیٰ ہائوس میں کہاکہ انٹرویو لینا ہے، انہوں نے کہاکہ ابھی نہیں۔ ان کا مطلب تھا کہ وزیراعلیٰ کے منصب سے سبک دوشی کے بعد دوںگا۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر انٹرویو نہیں لوںگا۔ اسی طرح ظفراللہ جمالی سرینا ہوٹل میں ایک تقریب میں شریک تھے، اُن سے انٹرویو کا کہا تو انہوں نے کہاکہ اب نہیں بعد میں۔ اُن سے بھی دوبارہ انٹرویو کا نہیں سوچا۔ اب نواب اسلم خان رئیسانی نے انکار کیا تو ان سے بھی بعد میں انٹرویو نہیں لوں گا۔ دونوں بھائی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔