مجلہ : استعارہ
سہ ماہی ادبی کتابی سلسلہ (شمارہ نمبر1)
اکتوبر 2017ء تا دسمبر 2017ء
مجلسِ ادارت : ڈاکٹر امجد طفیل 0333-1321047
ریاظ احمد 0333-4349801
نائب مدیر : عقیل اختر 0301-4148606
مدیر منتظم : صفدر حسین
صفحات : 288 قیمت 400 روپے فی شمارہ
سالانہ 1600 روپے
رابطہ : استعارہ، رانا چیمبرز چوک پرانی انار کلی لیک روڈ لاہور
ای میل : istaara.amjad18@gmail.com
استعارہ کے نام سے سہ ماہی ادبی کتابی سلسلہ شائع ہونا شروع ہوا ہے۔ اب تک اس کے دو شمارے منصۂ شہود پر آئے ہیں۔ پہلے شمارے کے اداریے میں مدیران تحریر فرماتے ہیں:
’’موجودہ عہد میں نئے ادبی رسالے کا اجراء کارِ محبت کے سوا کچھ نہیں۔ اور جب بہت سے دوستوں اور بزرگ لکھنے والوں کی محبت اور قلمی تعاون بھی میسر ہو تو اِسے کر گزرنا چاہیے۔ سو ’’استعارہ‘‘ سہ ماہی ادبی سلسلے کا پہلا شمارہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ استعارہ کے نام سے اس سے پیشتر صلاح الدین پرویز بھارت سے ایک رسالہ شائع کیا کرتے تھے جو اُن کی وفات کے بعد اشاعت پذیر نہیں ہوا۔
’’استعارہ‘‘ کے حوالے سے گزارش یہ ہے کہ اس رسالے میں شائع ہونے والی تحریروں کے بارے میں صرف اُن کے ادبی اور تخلیقی معیار کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور فکری اور نظریاتی پہلو کو لکھنے والے کی آزادی خیال کرتے ہوئے کسی قسم کی حدود کے نفاذ سے گریز کیا گیا ہے۔ یہ رسالہ تمام مکاتیبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ہمیں اپنی تحریریں ارسال کریں۔ ہم معیاری تحریروں کو اپنے رسالے میں شائع کرکے دلی خوشی محسوس کریں گے۔
استعارہ میں نئے فکری اور نظریاتی مباحث کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ صرف اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ اس رسالے میں شائع ہونے والی تحریروں میں ذاتیات کو موضوع نہ بنایا جائے۔ بالخصوص کسی سے ذاتی عناد یا بغض کی حامل تحریروں کی اشاعت سے ہم پیشگی معذرت چاہتے ہیں۔
اپنی تہذیبی اور ادبی روایت کی پیروی میں ہم رسالے کا آغاز اللہ تعالیٰ کے پاک نام اور اُس کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف سے کررہے ہیں۔ ہم ’’استعارہ‘‘ میں ہر بار کسی ایک اہم لکھنے والے کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا کریں گے۔ اِس بار اُردو کے نامور استاد، نقاد، محقق اور شاعر جناب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا انٹرویو نذرِ قارئین ہے۔ اس میں بہت دلچسپ نقاط پر گفتگو موجود ہے۔ بعض اختلافی باتیں بھی زیر بحث آئی ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ مکالمہ ہمارے پڑھنے والوں کو پسند آئے گا۔
’’استعارہ‘‘ میں دو سلسلے قائم کیے جارہے ہیں۔ پہلے سلسلے کا عنوان ’’نیا قلم‘‘ اور دوسرے سلسلے کا نام ’’تازہ کار و پختہ کار‘‘ ہے۔ پہلے سلسلے میں نوجوان شاعرہ عبیرہ احمد کی نظمیں اور غزلیں شائع کی جارہی ہیں۔ یہ شاعرہ نئے امکانات کے ساتھ اُردو ادب کے منظر پر طلوع ہورہی ہیں۔ دوسرے سلسلے میں علی اصغر عباس کی تخلیقات شامل ہیں۔ علی اصغر عباس بطور شاعر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اِس شمارے میں شامل اُن کی تخلیقات اُن کے مخصوص مزاج اور تخلیقی اپج کی عکاس ہیں۔
افسانہ اُردو ادب میں نہایت اہم صنف ہے اور گزشتہ ایک صدی سے زیادہ سے یہ معاصر زندگی کے امکانات اور فرد کی باطنی صورتِ حال کو بہت خوبی سے پیش کررہا ہے۔ اس شمارے میں پاکستان و بھارت کے نہایت اہم لکھنے والوں جیسے رشید امجد، محمد مظہر الزماں خان اور محمد صغیر کے ساتھ ساتھ بعض نئے لکھنے والوںکے اچھے افسانے شامل ہیں۔ انہیں پڑھیں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
تخلیقی نثر میں ناول، خودنوشت اور خاکہ کے زیر عنوان محمد عامر رانا، ڈاکٹر مجاہد مرزا اور عرفان جاوید کی تحریریں شائع کی جارہی ہیں۔ یہ تینوں پختہ لکھنے والے ہیں اور اُردو ادب کے قارئین اِن کے کام سے آگاہ ہیں۔
تراجم میں محمود احمد قاضی کی ایک امریکی کہانی کا ترجمہ ’’موٹا‘‘ کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ محمود قاضی ہمارے عہد کے بہت اچھے افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ آئندہ شمارے میں اُن کا ایک افسانہ بھی شاملِ اشاعت ہوگا۔ ڈاکٹر فرقان علی کی پہلی تحریر ہم شائع کررہے ہیں۔ یہ عظیم روسی فکشن نگار دوستوفسکی کے ایک خط کا ترجمہ ہے۔
شاعری میں غزل کے باب میں محمود شام، احسان اکبر، اشرف جاوید، عباس تابش، شفیق احمد خان اور عابد حسین عابد جیسے کہنہ مشق لکھنے والوں کے پہلو بہ پہلو نوجوان لکھنے والوں میں نبیل احمد نبیل، وقاص عزیز، منیر فیاض اور عقیل اختر کی غزلیں پڑھنے کے قابل ہیں۔ جب کہ نظم کے باب میں زاہد مسعود، انور فطرت، شفیق احمد خان، سعید احمد، فہیم شناس کاظمی اور اظہر حسین کی نظمیں قارئین سے ضرور داد وصول کریں گی۔
مضامین کا آغاز ہمارے عہد کے بڑے نقاد اور ادیب شمیم حنفی کے مضمون ’’اقبال کو سمجھنے کے لیے‘‘ سے کیا جارہا ہے۔ ہمارے عہد میں بعض نام نہاد دانشور اور ادیب اقبال سے بے اعتنائی کا رویہ اپنا رہے ہیں بلکہ تکلیف آمیز لہجے میں بات کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اُن سے کسی قسم کا مکالمہ اس لیے ممکن نہیں کہ جس ذہنی فضا کے وہ اسیر ہیں وہاں مکالمے کی گنجائش کم دکھائی دیتی ہے۔ شمیم حنفی صاحب کا یہ مضمون اس امید پر شائع کیا جارہا ہے کہ شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں ان کی بات۔
ڈاکٹر سعادت سعید نے معروف ترقی پسند نقاد محمد علی صدیقی کے حوالے سے فکر افروز مضمون قلم بند کیا ہے۔ غلام حسین ساجد کا ’’کافی‘‘ پر مضمون نہ صرف اُردو میں اس صنف کا تفصیلی تعارف ہے بلکہ نئے مباحث کے در وا کرتا ہے۔ سلمیٰ اعوان نے اپنے مخصوص انداز میں ’’شام‘‘ میں بپا قیامت کا احوال تحریر کیا ہے، جبکہ ڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے سراج منیر (ہمارے سراج بھائی) کی یادیں تازہ کرکے اُن صحبتوں کو پھر سے آباد کردیا ہے جو ذہن کے نہاں خانوں میں گم ہوتی جارہی ہیں۔ ڈاکٹر پروین کلوکا اُردو افسانے کی ابتدا کے بارے میں مضمون آپ کو پسند آئے گا۔ فائزہ افتخار نئی لکھنے والی ہیں مگر اُردو کے نہایت اہم نظم نگار اور نقاد جیلانی کامران پر اُن کا مضمون لکھنے والی کی پختگی کو عیاں کررہا ہے۔
عبداللہ حسین اُردو ادب کے بڑے فکشن نگار تھے۔ حلقہ اربابِ ذوق لاہور میں اُن کے ساتھ خصوصی پروگرام کا اہتمام کیا گیا تھا اور انہوں نے حلقہ کے سیکرٹری کو اپنی ایک غیر مطبوعہ تحریر کی کاپی عنایت کی تھی۔ اس پروگرام سے ایک دن پہلے عبداللہ حسین کا انتقال ہوگیا۔ ان کی یاد میں حلقہ کا پروگرام تو ہوا مگر عبداللہ حسین یہ مضمون حلقہ میں نہ سنا سکے۔ یہ انہوں نے الحمرا آرٹس کونسل میں 2014ء میں ہونے والی کانفرنس بعنوان ’’بیتے دن یاد آتے ہیں‘‘ کے لیے تحریر کیا تھا اور کانفرنس میں پڑھا بھی تھا۔ یہاں اس کی اشاعت ہمارے لیے قابلِ فخر ہے۔ اس کے ساتھ ہم عبداللہ حسین کے بارے میں محمد عاصم بٹ، محمد عباس اور عقیل اختر کی تحریریں شامل کررہے ہیں۔
اس شمارے میں انٹرویو ڈاکٹر خواجہ زکریا کا ہے۔ انٹرویو کے اکثر سوالات نامناسب ہیں۔ جس قسم کی شخصیت ہو اُس کے مقام کے مطابق سوال ہونے چاہئیں۔ علمی سوالات میں سے ایک سوال ہے: ڈاکٹر صاحب آپ کی شخصیت کا ایک اور پہلو ہے کہ آپ کا جماعت اسلامی سے تعلق ہے؟ کیا جماعت اسلامی سے تعلق ہونا کوئی عیب ہے؟ سوال خواجہ صاحب کے شایانِ شان نہیں اور خواجہ صاحب کا جواب بھی ان کے شایانِ شان نہیں تھا۔ خوامخواہ امرائو جان ادا کو اس سلسلے میں گھسیٹنے کی کیا ضرورت تھی! اس قسم کے سوالات کرنے سے پہلے اپنے معاشرے کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔
استعارہ کے دو شمارے اب تک بازار میں آئے ہیں، امید ہے کہ ایک لمبا سفر منتظر ہے۔ زادِ راہ کے لیے کچھ باتیں ہم بھی پیش کردیتے ہیں:
جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اُس میں بہت سے غلط خیالات بھی گردش میں رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک جس کا بہت زور شور سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے وہ آزادیٔ اظہار ہے۔ اس کی آڑ میں ہر اعلیٰ قدر پر حملہ کیا جاتا ہے، تمام مقدسات کو بے توقیر کیا جاتا ہے اور دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کو ہر بات کہنے کی آزادی ہے۔ جب کہ دنیا میں مادر پدر آزادی کی کبھی اجازت نہیں دی گئی، نہ آج ہے۔ اصل میں ایک مسلم معاشرے میں حق بات کہنے کا حق ہوتا ہے اور یہی مسلم فرد کا فرض بھی ہے۔ سلطانِ جابر کے سامنے حق بات کہنے کو جہاد سمجھا جاتا ہے، باطل بات کہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ایک مسلمان ادیب کا فرض ہے کہ وہ اپنے عقائد کو مدنظر رکھ کر اپنا ادب تخلیق کرے۔ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک ادبی اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ بات کہ ادب کو اسلام اور غیر اسلام کی تفریق سے بلند ہونا چاہیے، ایک لحاظ سے درست ہے۔ اس لیے کہ ادب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، لیکن ادیب کا مذہب ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسلام اور غیر اسلام اور اشتراکیت و غیر اشتراکیت کی بحث کوئی مصنوعی چیز نہیں ہے۔ ادیب جو کچھ بھی تخلیق کرتا ہے وہ اس کی فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ ادیب ایک انسان ہوتا ہے اور انسان کے اندر مختلف میلانات ہوسکتے ہیں۔ اگر ادیب کے اندر گمراہی کے میلانات ہیں، وہ بُری نیتوں اور بُرے عزائم کے ساتھ لکھ رہا ہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا پیش کردہ ادب لوگوں کے اندر سفلی جذبات کو متحرک کرے گا۔ اس کے برعکس ایک دوسرا آدمی کسی اچھے مقصد کے پیش نظر اپنی ادیبانہ صلاحیتوں سے کام لے کر لوگوں میں پاکیزہ جذبات کو اُبھارنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے ادب کے غلط یا صحیح ہونے کی بحث نہیں‘‘۔
مولانا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’ایک ایسا ادیب جو اسلام کے پیش کردہ حقائق کو درست سمجھتا ہو… معاشرت، معاش، تمدن اور سیاست وغیرہ کے اسلامی اصولوں پر ایمان رکھتا ہو وہ جب کبھی اپنی ادبی صلاحیتوں کو استعمال کرے گا تو بلا کسی ارادے اور کوشش کے وہ جو کچھ تخلیق کرے گا وہ اسلامی ادب ہوگا۔ اب جو شخص یہ کہتا ہے کہ ادیب کو اسلام اور غیر اسلام سے بحث نہیں ہونی چاہیے وہ دراصل دوسرے لفظوں میں یہ کہتا ہے کہ ادیب کو صرف پیشہ ور ہونا چاہیے، یعنی ادیب جس چیز کی بازار میں مانگ دیکھے اسے پیش کردے۔ لیکن ہماری رائے میں ایک ادیب کو پیشہ ور ہونے کے بجائے اپنے آپ سے مخلص ہونا چاہیے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو لامحالہ ملحدانہ ادب کے بجائے اسلامی ادب کو جنم دے گا۔‘‘
(حلقہ ادبِ اسلامی کراچی کے اجلاس منعقدہ 15 مئی 1958ء کو کی گئی تقریر، بحوالہ ہفت روزہ آئین، دسمبر 1991ء)
برصغیر کے معاشرے میں اہلِ علم، علماء اور واعظین اپنے آپ کو زبان و بیان اور ادب سے منسلک رکھتے تھے۔ شاہ عبدالعزیز کے وعظ کی مجلس میں اُس دور کے بڑے بڑے ادیب، شاعر، فاضل ان کی زبان کی فصاحت و بلاغت سے مستفید ہونے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ ادب میں نام نہاد ترقی پسندی اور اشتراکیت نوازی نے ایک بڑے طبقے کو ادب سے متنفر کردیا۔ آج کل ادب کی جو حالت ہے اس تباہی میں نام نہاد ترقی پسندی کا بڑا حصہ ہے۔ 1965ء میں راقم ملتان میں تھا، راقم کے تایا زاد بھائی نماز جمعہ پڑھنے علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب کی مسجد جاتے تھے صرف اُن کی فصیح و بلیغ خطابت سے مسرور ہونے کے لیے۔ راقم بھی ان کے ساتھ ہوتا۔ ایک مرتبہ علامہ کاظمی صاحب نے دورانِ خطابت یہ شعر پڑھا:
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
پچیس تیس سال بعد یہ عقدہ کھلا کہ یہ شعر ایک ہندو شاعر لالا موجی رام موجیؔ کا ہے۔ خوش قسمتی سے ایک کتاب تبصرے کے لیے آئی ہوئی ہے، اس میں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ایک خط درج ہے جو مرزا غالب کے ذکر میں ہے۔ فرماتے ہیں:
’’میں صرف غالب کے کلام ہی کا مداح نہیں ہوں بلکہ ان سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے۔ میرے نانا مرزا قربان علی بیگ سالکؔ مرحوم ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور ان کا مکان بھی دہلی میں میری ننھیال کے مکان سے متصل تھا۔ اس طرح میں نے آنکھیں ہی ایک ایسے خاندان میں کھولی ہیں جو اُن کے کلام ہی سے نہیں اُن کی ذات سے بھی بہت قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ مجھے بچپن سے اُن کے کلام کے ساتھ عشق رہا ہے اور میں اُن کو ہندو پاکستان ہی کے نہیں دنیا کے شعراء کی صفِ اوّل کا شاعر سمجھتا ہوں۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے اندر ایسا بے نظیر سخن ور پیدا ہوا، اور یہ اس کی بدقسمتی کہ وہ ایک پس ماندہ قوم کے بھی انتہائی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوا، جس کی وجہ سے دُنیا نے شعر و ادب کی تاریخ میں آج تک اس کو وہ مقام بھی نہ دیا جو اس سے بہت فروتر درجے کے شعراء کو صرف اس لیے مل گیا کہ وہ ایک جان دار قوم میں پیدا ہوئے تھے‘‘۔
جہانگیر کا ملک الشعراء طالب آملی استعارے کی تعریف میں کہتا ہے
بدیہہ شاہد صدق است بے مطائبہ طالب
کہ صاحبِ سخن از استعارہ چارہ نہ دارد
سخن کہ نیست درو استعارہ نیست ملاحت
نمک نہ دارد شعرے کہ استعارہ نہ دارد
طالب آملی سیدھی سچی بات کو بے لطف اور بے مزہ بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ صاحبِ سخن کا کام استعارے کے بغیر نہیں چل سکتا کیونکہ جس شعر میں استعارہ نہیں اس میں نمکینی نہیں۔
ہماری دُعا ہے کہ جس طرح استعارہ شعر میں حسن پیدا کردیتا ہے اسی طرح مجلہ استعارہ بھی شعر و ادب میں جلال و جمال پیدا کرے۔ اعلیٰ مقام کا حامل ہو۔ تنقید، تحقیق اور تخلیق میں اپنا مقام پیدا کرے۔
مجلہ سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوا ہے۔ رنگیں سرورق سے مزین ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا شکریہ بھی واجب ہے جن کی بندہ نوازی سے مجلے کی زیارت نصیب ہوئی۔