کتاب : روزگارِ فقیر
جلد اوّل و دوم
مصنف : فقیر سید وحید الدین
صفحات : 487 مع یادگار و نادر تصاویر و اشعار
قیمت : ایک ہزار روپے
پبلشرز : ماہنامہ آتش فشاں، علامہ اقبال ٹائون، لاہور
ٹیلی فون : 0333-4332920
علامہ محمد اقبال بحیثیت شاعر، بہت سے دانش وروں اور اہلِ علم اور ماہرِ اقبالیات کے موضوعِ سخن رہے ہیں۔ یہ کتاب ان سب کتابوں سے یوں مختلف ہے کہ اس میں علامہ اقبال کی شخصیت کو مصنف نے اپنی ذاتی یادداشتوں اور ملاقاتوں کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی ہے۔ ان کے والد فقیر سید نجم الدین مرحوم، حضرت علامہ کے خاص احباب میں سے تھے۔ ان کی اسلامی تاریخ پر بڑی وسیع نظر تھی اور علامہ اقبال جب ان کا کسی سے تعارف کراتے تو خاص طور پر اسلامی تاریخ پر ان کے مطالعے اور اس سے ان کے گہرے شغف کا ضرور ذکر کرتے تھے۔
مصنف کا مختصر تعارف
فقیر سید وحید الدین 1903ء میں برطانوی راج میں لاہور (موجودہ پاکستان) میں مشہور فقیر خانوادے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فقیر سید نجم الدین علامہ اقبال کے احباب میں شامل تھے۔ یوں فقیر سید وحید الدین کو بھی اپنی زندگی کا بیشتر حصہ علامہ اقبال کی صحبت میں بسر کرنے کا موقع ملا۔
1950ء میں فقیر سید وحید الدین نے علامہ اقبال کے حالات پر ان سے ملاقاتوں اور اپنی ذاتی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب بعنوان ’’روزگارِ فقیر‘‘ شائع کی جو بے حد مقبول ہوئی۔ 1964ء میں اس کتاب کا دوسرا حصہ شائع ہوا۔ 1965ء میں انہوں نے علامہ اقبال کی نادر تصاویر کا البم شائع کیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں محسنِ اعظم و محسنین اور شخصی خاکوں کا ایک مجموعہ انجمن شامل ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ’’روزگار فقیر‘‘ ماہنامہ آتش فشاں، لاہور نے شائع کی ہے جو 1950ء میں شائع ہونے والے حصہ اوّل اور 1964ء میں شائع ہونے والے حصہ دوم اور علامہ اقبال کی نادر تصاویر پر مشتمل ہے۔ فقیر سید وحید الدین 16 جولائی 1968ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
فقیر سید وحیدالدین نے جب علامہ اقبال کی شخصیت پر اپنی کتاب مکمل کرلی تو وہ مسودہ لے کر فیض صاحب کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ وہ اس پر ایک نظر ڈال لیں اور اس کا کوئی اچھا سا موزوں نام بھی تجویز کردیں۔ فیض احمد فیض اُن دنوں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔ فیض نے مسودہ اُن سے لے لیا اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔
وحیدالدین کے ایک دوست اقبال احمد صدیقی بھی اس موقع پر اُن کے ساتھ تھے، جنہوں نے اس کتاب کے مسودے میں اُن کی بھرپور مدد کی تھی، ان کا کہنا ہے کہ ’’جب ہم واپس ہوئے تو فیض ہمیں رخصت کرنے کے لیے نیچے آئے۔ جب ہم تینوں درمیانی سیڑھیوں تک پہنچے تو فیض نے مسکراتے ہوئے کہا ’’لیجیے آپ کی کتاب کا نام تو ذہن میں آ گیا۔ اس کا نام ’’روزگارِ فقیر‘‘ ہونا چاہیے۔‘‘
سید وحیدالدین بتاتے ہیں کہ وہ یہ نام سنتے ہی خوشی سے وارفتہ ہوگئے۔ انھوں نے فیض کو گلے لگا کر کہا کہ تم نے یہ نام تجویز کرکے مجھے زندگی کی ایک ایسی نعمت عطا کی ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔
فقیر سید وحید الدین کی علامہ کی شخصیت پر یہ کتاب اسی نام سے جو فیض نے تجویز کیا تھا، چھپی اور اس کتاب کا پیش لفظ بھی فیض صاحب نے لکھا ہے۔ 20 جولائی 1950ء کو حصہ اول کے پیش لفظ میں فیض احمد فیض لکھتے ہیں:
’’علامہ اقبال مرحوم ہمارے دور کی سب سے اہم اور سب سے عظیم المرتبت ادبی شخصیت تھے۔ لیکن یہ کہنا بھی غالباً غلط نہ ہوگا کہ ہرچند مرحوم کے متعلق تنقیدی ادب کا ایک ذخیرہ جمع ہوچکا ہے، ان تصنیفات میں شاعرِ مشرق کی ذات شاذ ہی دکھائی دیتی ہے۔ بیشتر لکھنے والوں نے اپنا زورِ قلم اقبال کے فلسفیانہ عقائد اور تعلیمات کی تفسیر و تشریح پر صرف کیا اور اقبال کے شعر میں بھی اقبال کی ذات کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
’’روزگارِ فقیر‘‘ حیاتِ اقبال کا جامع تذکرہ نہیں ہے، نہ اس میں شاعرِ مشرق کی شخصیت یا اس شخصیت کے کسی پہلو کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کی نوعیت ایک سیاح کی ڈائری کی سی ہے جو کبھی کسی دلکش وادی میں سے گزرا ہو، اور کئی برس بعد فرصت کے اوقات میں اس حسین سفر کی بسری ہوئی یادوں کی شیرازہ بندی کرنا چاہے۔ کسی دل فریب صبح کی ایک جھلک، کسی دلکش شام کا ایک منظر، ہوا میں اڑتا ہوا ایک خزاں رسیدہ پتّا یا جنگل میں سر جوڑے ہوئے ہزاروں تناور درخت، گھاس پر جگمگاتا ہوا شبنم کا اکلوتا موتی یا شفق میں ڈوبی ہوئی کوئی وسیع اور ذخار جھیل، چھوٹی اور بڑی باتیں، فطرت کے حقیر اور عظیم مناظر، واضح مبہم، نیم مبہم یادیں جو بھی سیاح کے ذہن میں محفوظ ہے، اس نے بلا کم و کاست لکھ دیا ہے۔ ان نگارشات کا تسلسل اس کی اپنی یاد کا تسلسل ہے۔ یاد ہی کی دھوپ چھاؤں میں مصنف کے ممدوح کے نقوش کبھی روشن، کبھی دھندلے دکھائی دیتے ہیں۔
مصنف نے اقبال مرحوم کو پہلی دفعہ بچپن میں دیکھا تھا۔ ہرچند برسوں بعد تک مرحوم سے ان کی ملاقات رہی۔ لیکن اپنی کتاب میں انہوں نے شروع سے آخر تک بچپن ہی کے مخصوص تحیر، ادب اور نیازمندی کا انداز قائم رکھا ہے۔ یہی خلوص اور انکسار ’’روزگارِ فقیر‘‘ کو اپنی نوع کی دوسری کتابوں سے ممیز کرتا ہے۔ ’’روزگارِ فقیر‘‘ میں مصنف نے زبان اور طرزِ بیان میں بھی اسی انداز کی رعایت ملحوظ رکھی ہے اور سادگی کو تصنع، اور بے ساختہ روزمرہ کو مغلق لفظی آرائش و زیبائش پر ترجیح دی ہے۔ ان کی یادداشت کا گنجینہ زیادہ بھرپور نہیں ہے اور انہوں نے اپنی یادوں کو وقت اور فراموش گاری کی دست برد سے بچانے کی بہت پہلے کوئی تدبیر نہیں کی۔ یہ گلہ ایک طرح اِس کتاب کی دلچسپی اور افادیت کا اعتراف بھی ہے۔ اس لیے کہ کوتاہیِ داستان کی شکایت، حکایت کے لذیذ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس لذت کے علاوہ جب تذکرے اور سیرت کے ماہرین معلومات کا ریزہ ریزہ جمع کرکے حیاتِ اقبال کا لفظی قالب تیار کرنے بیٹھیں گے تو اس تصنیف کو بہت مفید پائیں گے۔ اس تصنیف میں اقبال کی زندگی کے گھریلو روزمرہ مناظر، ان کی نجی صحبتیں اور رنجشیں، راحتیں اور کلفتیں، ان کے دل کا گداز اور دماغ کی شگفتگی، اقبال کے آنسو اور اقبال کے قہقہے سبھی شامل ہیں۔ یہ بکھرے بکھرے اور غیر مکمل سہی لیکن ان کی تکمیل اور ترتیب کچھ ایسا مشکل کام نہیں تھا۔
کرنل وحیدالدین صاحب کے بیشتر ایام سرکاری ملازمت میں گزرے ہیں۔ لیکن یہ تصنیف گواہ ہے کہ اپنے آبائی ورثے سے وہ بھی محروم نہیں۔ ’’دانائے راز‘‘ کے عقیدت مندوں میں یہ کتاب یقینا مقبول ہوگی۔‘‘
آتش فشاں کے روزگارِ فقیر کی ایک اہم انفرادیت اور خوبی یہ ہے کہ اس میں علامہ اقبال کے وہ فارسی اور اردو اشعار بھی شامل کیے گئے ہیں جو اس سے پہلے ان کے کسی مجموعہ کلام میں شائع نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ اس میں ایسی نایاب تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں جو اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوئی تھیں۔ ماہنامہ آتش فشاں نے اچھے گیٹ اَپ کے ساتھ یہ کتاب شائع کی ہے۔