آپ کو بمشکل یقین آئے گا کہ 1812ء تک (صرف 206 سال پہلے) برطانیہ میں کسی شہری کو مسلمان ہونے کی اجازت نہ تھی۔ اسلام قبول کرنا غیر قانونی تھا۔ یہ تھا صلیبی جنگوں (اور مسیحی حملہ آوروں کی شکست) کا شاخسانہ۔ مگر اس قانونی پابندی کے باوجود برطانیہ میں دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی آمد اور غیرملکی مسلمانوں کے برطانیہ میں قیام کا سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ انہوں نے اپنی عبادت گاہیں بھی بنائیں، جن کے لیے برطانوی مؤرخین Zawiyahs کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ برطانیہ میں پہلی مسجد لندن کی جنوب مغربی کائونٹی Surrey میں 1899ء میں ووکنگ کے مقام پر تعمیر کی گئی، اور اس کا سہرا ایک انگریزDoctor Leitnerکے سر باندھا جاتا ہے۔ مسجد کی تعمیر کے لیے یہ فرشتہ صفت شخص ہاتھ میں کشکول پکڑ کر ہندوستان بھر میں دربدر پھرا۔ وسطی ہندوستان کی ایک ریاست بھوپال کی ملکہ (اور فرماں روا) شاہ جہاں بیگم کا اللہ بھلا کرے کہ اُس نے سارے اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش کرکے موصوف کو ہندوستان میں مزید دھکے کھانے سے بچا لیا۔ اُن کے جانشین نواب آف بھوپال (سر حمیداللہ خان) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے برسہا برس اقبال کی مالی سرپرستی کی اور کئی بار اُن کو بھوپال بلا کر شرفِ میزبانی حاصل کیا۔ اقبال کے تیسرے مجموعۂ کلام (ضربِ کلیم) کی پہلی نظم فرماں روائے بھوپال کو مخاطب کرکے لکھی گئی اور اُن کی خدمت میں پیش کی گئی۔ فارسی میں تین اشعار کی نظم اور کمال کی تعریفی نظم۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ حال ہی میں برطانیہ میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ایک عجیب و غریب چیز برآمد ہوئی۔ یہ تھا ایک سکہ، جو آٹھویں صدی میں برطانیہ کے ایک بڑے حصے پر حکومت کرنے والے بادشاہ Offa کے دور کا تھا اور اُس پر عربی زبان میں مسلمانوں کا پہلا کلمہ کندہ تھا۔ Doctor Leitnerکو مطلوبہ رقم تو مل گئی مگر مسجد کا ڈیزائن کیسے بنایا جائے؟ انہوں نے برٹش لائبریری میں کئی ماہ گزارے، خود تحقیق کی اور آپ یہ پڑھ کر خوش ہوں گے کہ انہوں نے اسلامی طرزِ تعمیر سے سو فیصدی مطابقت رکھتی ہوئی (گنبد و مینار اور محراب و منبر سے آراستہ) مسجد اپنی زندگی میں بنتی اور مکمل ہوتی دیکھ لی۔ جب اُنہوں نے 1899ء میں وفات پائی تو اُس وقت مسجد میں نہ کوئی نمازی تھا اور نہ کوئی امام۔ یہ تاریخی مرحلہ 1913ء میں طے پایا۔ پہلے امام کا نام خواجہ کمال الدین تھا۔ 1917ء میں قرآن مجید کا پہلا انگریزی ترجمہ برطانیہ میں چھپ کر فروخت ہوا تو انگریزوں کا اسلام سے پہلا باقاعدہ تعارف ہوا۔
(نسیم احمد باجوہ، جنگ20جون2018ء)
پاکستان… قوم کے لیے آخری موقع
پاکستانی روپیہ اپنی تاریخ کے سب سے نچلے مقام پر آکھڑا ہوا ہے، 125 روپے کا ایک ڈالر۔ پاکستان کی سرمایہ کاری مارکیٹ سے کیپٹل گین ٹیکس (CGT) میں 52 فیصد کمی آچکی ہے۔ گزشتہ سال 12.76 ارب جمع ہوئے تھے جبکہ اِس سال 6.2 ارب ڈالر ہوئے ہیں۔ گردشی قرضے 472 ارب روپوں تک جا پہنچے ہیں۔ معاشی و اقتصادی حالت اور عسکری اور بین الاقوامی پریشانی کا عالم یہ ہے کہ یہ ملک یا تو اندرونی اور بیرونی خطرات کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہے، یا پھر اس کے سر پر بھوک اور قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اللہ ایسی حالت کو قرآن پاک میں یوں بیان کرتا ہے ’’اللہ ایک ایسی بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پُرامن اور مطمئن تھی، اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے فراوانی سے پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کردی، تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کو یہ مزا چکھایا کہ انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا جو وہ اوڑھے رہتے ہیں‘‘ (النحل 112)۔ یہ لباس ہم آج پہنے ہوئے ہیں۔ ہم نے اس مملکتِ خداداد پاکستان کو جو اللہ کی نعمت تھی، لوٹا کھسوٹا، تباہ و برباد کیا، اس کے نظریے کا تمسخر اڑایا، اور پھر یہ گمان کرتے رہے کہ ہم اللہ کے عذاب کے کوڑے سے بچ سکیں گے۔ شاید نہیں، اب کی بار شاید نہیں۔ ہم حالتِ عذاب میں آچکے ہیں اور یہ فیصلہ کن مہینے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہاں الیکشن ہونے والے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ عالمی سطح پر ہماری معیشت کا فیصلہ ہونا ہے، اس لیے نہیں کہ امریکہ اور عالمی طاقتیں بھارت کے ساتھ مل کر ہمارا کیا حشر کرنے والی ہیں۔ ہرگز نہیں… بلکہ اس لیے کہ یہ شاید آخری موقع ہے جو اس قوم کو دیا جا رہا ہے۔ اللہ کا ایک اصول ہے، اگر حالتِ عذاب میں انسان اللہ سے رجوع کرے تو وہ عذاب عذاب نہیں رہتا، آزمائش بن جاتا ہے اور اللہ اس پر پورا اترنے میں مدد کرتا ہے۔ لیکن اللہ سے منہ موڑ لیں تو پھر عذاب مستحکم ہوجاتا ہے۔ اگر ہم نے اس موقع کو کھو دیا تو اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ یہاں موجود ہماری نسل کو بدل کر کسی دوسری نسل کو یہاں آباد کردے، کیوں کہ پاکستان کو تو رہنا ہے کہ وہ اس کرۂ ارض پر اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، ہم شاید رہیں یا نہ رہیں۔
(اوریا مقبول جان،25,92نیوز،جون،2018)
طیب اردوان کی فتح اور ترکی
صدر رجب طیب ایردوان کی جماعت آق پارٹی (مع اتحادی) جیت گئی۔ یورپ بھر میں میڈیا کو یقین تھا کہ آق پارٹی صدارتی انتخاب میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ کی لازمی حد تک نہیں جا سکے گی اور الیکشن کا دوسرا رائونڈ ہوگا اور اس میں شاید ایردوان جیت جائیں، اور جہاں تک پارلیمنٹ کے الیکشن کا تعلق ہے تو وہ تو آق پارٹی کے جیتنے کا سوال ہی نہیں ہے، وہ لازماً اکثریت کھو دے گی، اور یوں ایردوان کے بطور صدر اختیارات محدود کردے گی۔ لیکن اے بسا ہر دو آرزو بری طرح خاک شدہ۔ ایردوان نے 53 فیصد ووٹ لیے اور ان کے قریب ترین حریف ری پبلک پارٹی کے امیدوار محرم انجے 30 فیصد تک ہی رہ گئے۔ ایک رات قبل محرم انجے نے دارالحکومت استنبول میں ایک بڑا جلسہ کیا جس میں دس لاکھ افراد شریک ہوئے۔ یورپی برادری اس جلسے کو ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ سمجھ رہی تھی حالانکہ ایردوان اس سے بڑے کئی جلسے کرچکے ہیں۔ انتخابی نتائج آنے سے ایک گھنٹہ پہلے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں پیش گوئی کی کہ آق پارٹی پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت برقرار نہیں رکھ سکے گی، لیکن وہ چھ سو میں سے لگ بھگ ساڑھے تین سو سیٹیں لے اڑی۔ یہ الیکشن نظام کے لیے ریفرنڈم بھی تھا۔ اب عملاً ترکی میں صدارتی نظام نافذ ہوگیا ہے۔ وزیراعظم کے اختیارات محض نمائشی ہوجائیں گے۔ ترکی جیسے ملکوں میں جہاں کسی ایک قوم کی غالب اکثریت ہو، صدارتی نظام قابلِ عمل ہے۔ ترکی میں ترکوں کی بھاری اکثریت ہے جس طرح کہ برطانیہ میں انگریزوں کی، ایران میں فارسیوں کی، امریکہ میں انگریزوں کی، چین میں ہان کی، بنگلہ دیش میں بنگالیوں کی بھاری اکثریت ہے۔ لیکن جن ملکوں میں کسی ایک قوم کی بھاری اکثریت نہ ہو جیسے کہ پاکستان (پنجابی48فیصد)، بھارت (ہندی45 سے 48فیصد)، نائجیریا (ہائوسا30فیصد) ان میں صدارتی نظام تباہ کن ہوتا ہے۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ کمال ازم کے حامی محض 30فیصد رہ گئے۔ باقی ماندہ ووٹ کرد اور دوسری چھوٹی اسلامی اور جمہوری جماعتوں کو ملے۔ ترکی اب مشرق وسطیٰ میں آسانی سے اپنی اُس پالیسی کو بڑھا سکے گا جو آق پارٹی نے بنائی ہے۔ ماضیِ قریب میں حکومت کو فوج کا مطلوبہ تعاون میسر نہیں تھا، اب فوج حکومت کی تابعدار ہے اور مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں میں ترکی کا کردار مزید بڑھے گا۔ خاص طور سے شام، عراق اور فلسطین کے حوالے سے۔ اس کے علاوہ اندرون ملک صدر ایردوان اسلامائزیشن کے پروگرام کو قدرے آسانی اور سبک رفتاری سے آگے بڑھا سکیں گے۔
( عبداللہ طارق اسمعیل،92نیوز،26،جون،2018)