واصف علی واصف
ہم لوگ قبیلے، ذاتیں، فرقے اور صوبائی اور مذہبی عصبیتیں ترک کرکے ایک قوم بنے ہیں۔ اگر پھر عصبیتیں لوٹ آئیں تو قوم ختم ہوجائے گی۔ ہم جب پاکستانی ہیں تو یہ ذات کیا اور وہ ذات کیا! سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی کیا معنی! ہماری قومی شناخت پاکستان کے دم سے ہے۔ ہم پاکستانی ہیں۔ ہمیں پاکستانی ہی رہنا چاہیے۔ یہ قوم کا حق ہے کہ ہم انفرادی تشخص کے بجائے اجتماعی تشخص کے حصول کے لیے کوشاں ہوں۔
ہم پر ملک کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے۔ ہم وطن پرست رہیں۔ ہم مفادِ وطن عزیز رکھیں۔ ہم وطن کی آبرو پر آنچ نہ آنے دیں۔ ہم ملکی وحدت اور سلامتی کا خیال رکھیں۔ ہم سب ملک کے محافظ ہیں۔ ہم ہی ملک کا سرمایہ ہیں۔ ملک نے ہمیں ایک قوم بنایا۔ ایک وحدت بنایا۔ اس ملک کے حصول کے لیے بڑا خون قربان کیا گیا۔ بڑے کٹھن مراحل سے قافلہ گزرا ہے۔ بڑے مشکل زمانے آئے ہیں اس قوم پر۔ بڑے طوفانوں سے گزرا ہے ہمارا ملک۔ ہمارے چھوٹے سے سفر میں ایک بڑا سا حادثہ بھی رونما ہوچکا ہے۔ ابھی ہم اپنے ملک کے حقوق کا مکمل خیال نہیں رکھتے۔ چھن جانے کے بعد بہشت کی قدر ہوتی ہے۔ کہیں خدانخواستہ یہ ملک، ہمیں نامنظور نہ کردے۔ ابھی وقت ہے، ملک کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے۔ ہمیں گھر کی بات گھر تک رکھنا چاہیے۔ ہم اس ملک کے امین ہیں۔ یہ ملک ہمارا محافظ ہے۔ ملک سلامت ہے تو ہم سلامت ہیں۔ یہ نہیں تو ہم کہاں…؟
ملکی زندگی میں ہر شخص کو شامل کیا جائے۔ ہر شخص کی زندگی میں ملک کو شامل کیا جائے… حقوق ادا ہوجائیں گے۔ ہمارے ذاتی اختلافات ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ ہماری ذاتی اَنا ملک کے مفاد میں نہیں۔
ملک حکومتوں کی ذمے داری ہوتے ہیں۔ لیکن عوام کے بغیر ملک صرف جغرافیہ ہی تو ہے… صرف مٹی۔ حکومت اور عوام مل کر وطن کی تعمیر کریں تو ترقی ہوگی۔
عوام کا حق ہے کہ انہیں پُرسکون زندگی ملے۔ ان کی نیندیں پُرسکون ہوں۔ دن پُرسکون، راتیں پُرسکون، سرحدیں محفوظ، جان ومال محفوظ، مستقبل و حال محفوظ، غرضیکہ زندگی اپنی تمام رعنائیوں سمیت سلامت رہے، اور اگر خدانخواستہ ملک پر کوئی افتاد پڑے تو ہر زندگی ملک پر نثار ہونے کے لیے بے قرار ہو۔
انسان پر اس کی اپنی ذات کے بڑے حقوق واجب الادا ہیں۔ اپنے ظاہر کے حقوق، اپنے باطن کے حقوق۔ ظاہر کے حقوق یہ ہیں کہ ہم اپنے آپ کو ایک باعزت شہری بننے کے لیے تیار رکھیں۔ اپنے دور کی رائج تعلیم کا حصول فرض ہے۔ ہمارا ہم پر حق ہے کہ ہم اپنے آپ کو گرد و پیش سے باخبر رکھیں۔ اپنے ماحول سے آگاہ رہیں۔ ہم اپنے مشاہدات و تجربات سے دوسروں کو آگاہ کریں۔ چراغ سے چراغ روشن ہو اور یوں اوہام پرستی سے نجات ملے۔ اپنی شناخت قائم کرنا ہمارا فرض ہے۔ اپنا تشخص قائم کرنا ضروری ہے۔ اپنا لباس، اپنی زبان، اپنا لہجہ، اپنی جلوت و خلوت کا خاص خیال رکھنا ہمارا ہم پر حق ہے۔
ہمارے باطن کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ہم احساس کی دنیا زندہ رکھیں۔ ہم اپنے دل کو محسوس کرنے والا بنائیں۔ سوچنے والا ذہن اور محسوس کرنے والا دل نصیب والوں کو عطا ہوتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو اپنے مذہب سے علمی اور عملی طور پر آشنا رکھیں تو حقوق ادا ہوں گے۔ مذہب صرف تعلیم نہیں، مذہب صرف عمل نہیں، مشین کی طرح۔ ہمیں اپنے مذہب کے ساتھ ایک شعوری لگن ہونی چاہیے۔ دین اور دنیا کی فلاح کا حصول ہمارا مدعا ہونا چاہیے۔ ہماری مساجد ہمارے لیے فلاحی مراکز بن جائیں تو ایک خوبصورت انقلاب آجائے۔
حقوق و فرائض کا خیال رکھنے والا معاشرہ ہمیشہ فلاحی ہوتا ہے۔ اسلام سے بہتر کون سا دین ہوسکتا ہے اور اس کے اصولوں سے زیادہ بہتر کوئی اصول نہیں ہوسکتا۔ اسلامی فلاحی معاشرہ دنیا کے تمام معاشروں سے بہتر ہے۔ اسے قائم کیا جائے۔ اسلامی فلاحی معاشرہ حکم اور چہرے سے قائم نہیں ہوسکتا۔ یہ محبت اور شوق سے قائم ہوگا۔ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں، معاشرہ بن جائے گا۔ جب تک انسان اپنی روح کو بیدار نہیں کرتا، وہ کوئی فلاحی کام نہیں کرسکتا۔
(’’حرف حرف حقیقت‘‘)
پروفیسررشید احمد انگوی
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
’’ضرب کلیم‘‘ میں ’’خواجگی‘‘ کے عنوان سے صرف تین شعروں پر مشتل نظم کا یہ آخری شعر ہے۔ نظم کا مطالعہ ہمیں آج کے مذہبی اور سیاسی ماحول تک لے آتا ہے کہ کوئی مذہبی گدی ہو یا سیاسی، دونوں کو اپنے تابع دار مل جاتے ہیں جو اپنے طرز عمل پر کسی قسم کے غور و فکر کی نہ صلاحیت و عادت رکھتے ہیں، نہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، بلکہ پِیر و میر کی یہ غلامی گویا ان کی فطرتِ ثانیہ بن کر علامہ کی اصطلاح ’’خوئے غلامی‘‘ کی مصداق بن جاتی ہے۔ مذہبی گدی نشینی اور ان کے ساتھ عقیدت و محبت کی روایات تو پرانی ہیں اور بادشاہت کی غلامی بھی پرانے قصے ہیں، مگر پاکستان میں حالیہ عشروں میں سیاست میں جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے خادم و مخدوم بھی کوئی علیحدہ حقیقت نہیں رکھتے۔ ایک ایک قبر کے نام پر کتنی ہی اسمبلی ممبریاں قائم ہیں۔ سیاست دان قبروں کے مجاور کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتے مگر ووٹوں سے تھیلے اور بوریاں بھروانے کے ماہر بنے ہوئے ہیں، اور اب تو مختلف ادوار کے کسی فوجی جرنیل کے پیدا کردہ خاندان ہی قابو میں نہیں آتے اور معزز سیاسی خانوادے بن چکے ہیں۔ گورنر جیلانی نے اپنی ’’مٹھی چاپی‘‘ (خدمت) کراکر جس گھرانے کی سیاست کا سنگِ بنیاد رکھا تھا وہ بھی اپنے آپ کو بابائے یا چاچائے جمہوریت سے کم نہیں سمجھتا، اور سندھ کے سیاسی قبرستان کو اس کے ’’غلام‘‘ اپنا سیاسی کعبہ قرار دیتے ہیں۔ اس پر سوائے اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب کوئی انسان ہوتے ہوئے کسی کی غلامی کے نشے میں مبتلا ہو جائے تو اُس کے آقائوں کا کام آسان ہوجاتا ہے اور غلام نسلیں اپنے آقائوں کے نام جپ کر، نعرے اور رقص میں مگن رہ کر دیگ نوشی پر خوش رہتی ہیں۔