جدید انسان وہ ہے جو خیر و شر کے پیمانے خود تخلیق کرتا ہے

جدید انسان صرف وہ ہے جو حسی، تجربی، سائنسی ذریعہ علم پر یقین رکھتا ہے، اور غیر حسی، غیر تجربی، غیر طبعی، مابعد الطبیعیاتی، الہامی مذہبی ذرائع سے ملنے والے علم کو جہل، ظلمت، گمراہی تصور کرتا ہے، کیوں کہ ان ذرائع سے ملنے والے علم کی تصدیق تجربہ گاہ میں آلاتِ سائنس سے نہیں ہوسکتی لہٰذا یہ تمام علوم جہالت میں شمار ہوتے ہیں۔ جدید انسان وہ ہے جو ان جہالتوں سے ماوراء ہے اور خیر و شر کے پیمانے خود خلق کرتا ہے۔ کسی الہامی، روایتی، دینی علم سے پیمانے اخذ نہیں کرتا۔ اس لیے جدیدیت تاریخ کا انکار کرتی ہے، سترہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو تاریخ کا تاریک ترین زمانہ (Dark Ages) قرار دیتی ہے۔ جدیدیت ماضی کا انکار کرنے کے باوجود ماضی سے ’’کلاسیک‘‘ کے نام پر وہ تمام تصورات، نظریات، عقائد قبول کرتی ہے جو اس کی ابلیسیت سے ہم آہنگ ہیں، مثلاً وہ یونان سے ارسطو کا نظریۂ ابدیتِ دنیا لے کر آخرت کا انکار کرتی ہے۔ سترہویں صدی سے پہلے کے انسان کو انسان تسلیم نہیں کرتی۔ جدیدیت کے خیال میں اصل انسان تو روشن خیالی کے فلسفے کے بعد ظہور پذیر ہوا۔ جدید انسان ہی حقیقی معنوں میں صاحبِ علم ہستی ہے جو روشنی سے منور ہے، کیوں کہ اس نے جہالت کی تاریخ کا انکار کرکے، مذاہب سے بغاوت کرکے اپنے لیے زندگی کا راستہ اپنی ہی روشنی، اپنی ہی رہبری و رہنمائی میں خود طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ نشاۃ ثانیہ، روشن خیالی، جدیدیت انسان کی اسی خودکفالت، فارغ البالی، خودانحصاری، خودمختاری اور آزادیٔ کامل کا نام ہے۔ جدید انسان کو زندگی کا سفر طے کرنے کے لیے اپنے سوا کسی اور ذریعے سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جدید انسان کا یہ دعویٰ کہ عقلیت آفاقی ہوتی ہے اور عقلیت کی بنیاد پر آفاقی اقدار، آفاقی نظام، آفاقی اخلاقیات وضع کی جاسکتی ہیں، پسِ جدیدیت (پوسٹ ماڈرن ازم) نے اس دعوے کو رد کردیا، اس نے بتایا کہ عقل اپنی تاریخ، تہذیب، ثقافت میں محصور، مقید، مسدود ومحدود ہوتی ہے۔ مغرب میں اب اس رائے پر عمومی اتفاق ہے۔
(سید خالد جامعی)

قرآن مجید کتابِ انقلاب

یہ حیران کن، محسور کن، فاتحِ قلوب اور جہاں کشا کتاب ایک ایسے انسان پر نازل ہوئی جو حروف کی دنیا میں اُمی لقب لے کر آیا تھا۔ لیکن یہ اُمی (میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں) علم کا مدینہ بن گیا، علم کا مخزن ہوگیا، علم کا معدن ثابت ہوا۔ علم وہاں سے پھوٹا، وہاں سے چلا، وہاں سے پھیلا، اور علمِ راسخ اس کی جناب کے سوا کہیں اور جگہ سے ملنا مشکل ہوگیا۔ وہ تمام دنیا کا معلم تاابد مانا گیا۔ اس کتاب نے اس خاموش شہری کو لشکروں کا سالار بنادیا، دنیا کا قائد بنادیا، اور ہدایت اگر کسی در پر مرکوز ہوگئی تو وہ اسی کا در تھا۔ اس لیے کہ اس کے پاس وہ شے تھی جو ھدی للناس ہے۔
(کتابِ انقلاب، اسعد گیلانی)

ایسی امداد پر لعنت

ایک دفعہ جنگل میں ایک ریچھ نے ایک گھوڑے کو برا بھلا کہا۔ اس نے انتقام کے لیے ایک آدمی سے مدد مانگی۔ آدمی نے پوچھا کہ میں تمہاری مدد کس طرح کرسکتا ہوں۔ کہا: زین میری پیٹھ پر ڈالو، لگام میرے منہ میں دو اور نیزہ ہاتھ میں لے کر میری پیٹھ پر سوار ہوجائو۔ آدمی نے ویسا ہی کیا اور جنگل میں پہنچ کر ریچھ کو مار ڈالا۔ اس کے بعد گھوڑا اسے واپس لے گیا اور شکریہ ادا کرنے کے بعد کہنے لگا کہ زین وغیرہ اتار لو اور مجھے اجازت دو۔ آدمی نے جواب دیا: مجھے تمہاری افادیت کا آج علم ہوا ہے، اس لیے تمہاری واپسی خارج از بحث ہے، اس پر گھوڑے نے کہا:
’’ہزار لعنت اس امداد پر جس نے مجھ سے آزادی چھین لی‘‘۔

صاحب، مصاحب اور عوام

گہرؔاعظمی

یہ تعریف ہے صاحب کی
لیتے ہیں ہیرے چُن یہ
ان کی ہر اک بات درست
پختہ دل میں تیقن یہ
جھوٹی، سچی خوشامد پر
خوش ہوں، برسائیں ہُن یہ
ان کی مرضی کے جو خلاف
جائیں اس سے جل بھُن یہ
اپنی چرب زبانی سے
ذہن کو کرتے ہیں سُن یہ
ان میں صرف ہے عقلِ سلیم
اس میں رہتے ہیں ٹُن یہ
جو ہیں مصاحب، صاحب کے
رکھیں اک جیسی دُھن یہ
لَے میں ایک ہی صبح و مَسا
گاتے ہیں اُن کے گُن یہ
صاحب کی ملحوظ خوشی
پاپ کو بھی سمجھیں، پُن یہ
منصوبوں کے جال نئے
جلدی لیتے ہیں بُن یہ
ہو اَوروں کا مال ہڑپ
ہر دم رہتی ہے دُھن یہ
ہر، صاحب کے مخالف کی
سب رکھتے ہیں سُن گُن یہ
اپنا ملک کیا کنگال
مہلک ایسے ہیں گُھن یہ
اور یہ ہے تعریفِ عوام
صمٌ، بُکمٌ، عُمیٌ یہ
ہوتے ہیں صاحب کے غلام
سُن کر باتیں خوش کن یہ
مٹھی گرم رکھی جائے
تو کرتے ہیں تعاون یہ
سب کچھ ان کے لیے دنیا
جانیں نہ ’’یوم تغابُن‘‘ یہ
خود سے دور ملامت کا
کرسکتے ہیں تعیّن یہ
چودہ طبق روشن ہوجائیں
عقل کے لیں جو ناخن یہ