خیبر پختون خوا میں انتخابی گہما گہمی

رمضان المبارک کے اختتام اور کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے مرحلے کے خاتمے کے ساتھ ہی خیبر پختون خوا میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے انتخابی گہماگہمی کا آغاز ہوگیا ہے۔ خیبر پختون خوا کی منفرد سیاسی اہمیت، یہاں ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ سیاسی تنوع، عام شہریوں میں پائے جانے والے سیاسی جوش و خروش اور سیاسی بلوغت کے تناظر میں یہاں کا ہر انتخابی معرکہ ملک کے دیگر حصوں کی نسبت ہمیشہ زیادہ توجہ کا حامل رہا ہے۔ 1997ء، 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے انتخابات اس بات کے گواہ ہیں کہ خیبر پختون خوا کے عوام نے ان چاروں انتخابات میں نئے چہروں اور متبادل جماعتوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے میں نہ تو کسی مصلحت سے کام لیا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے انھوں نے کسی بھی قسم کا دبائو قبول کیا ہے، جو اس بات کی غمازی ہے کہ خیبر پختون خوا کے ووٹرز سیاسی بلوغت اور اپنے فیصلوں میں آزادی کے لحاظ سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے شہروں کے ووٹرز سے بھی زیادہ بالغ نظر اور زیرک واقع ہوئے ہیں۔ شاید یہ خیبر پختون خوا کی اسی اہمیت کا کمال ہے کہ یہ واحد صوبہ ہے جہاں سے ملک کی چوٹی کی جماعتوں کے سربراہان آئندہ انتخابات میں قسمت آزمائی کررہے ہیں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو پہلی دفعہ انتخابی سیاست کی پُرخار وادی میں قدم رنجہ فرما رہے ہیں، سندھ کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 8 ملاکنڈ ایجنسی سے قسمت آزمائی کررہے ہیں، جہاں سے ان کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہوچکے ہیں، اور اس نشست پر اُن کا مقابلہ اے این پی، مسلم لیگ (ن) اور متحدہ مجلس عمل کے سخت حریفوں سے ہوگا۔ ملاکنڈ ایجنسی کسی زمانے میں منی لاڑکانہ کہلاتی تھی، یہاں سے ماضی میں پیپلزپارٹی کے موجودہ صوبائی صدر محمد ہمایوں خان کے والد حنیف خان مرحوم کے علاوہ لعل محمد خان کامیاب ہوتے رہے ہیں، جبکہ مسلم لیگ (ن) اور متحدہ
مجلس عمل (جماعت اسلامی) کے امیدواران بھی یہاں سے کامیابی سمیٹتے رہے ہیں، جن میں 1997ء میں الحاج محمد خان اور 2002ء میں مولانا عنایت الرحمن مرحوم اور بختیار معانی شامل ہیں۔ بلاول بھٹو کے ملاکنڈ ایجنسی کے دورافتادہ نیم قبائلی علاقے سے الیکشن میں حصہ لینے کے متعلق پاکستان پیپلزپارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کا سبب پیپلزپارٹی کے موجودہ صوبائی صدر ہمایوں خان اور یہاں سے ماضی میں رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر رہنے والے لعل محمد خان کے درمیان پائے جانے والے شدید اختلافات ہیں جن کے خاتمے اور ان دونوں دھڑوں کے اتحاد کی خاطر بلاول بھٹوکو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن کے بارے میں پیپلزپارٹی کے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اس طرح پارٹی اختلافات پر قابو پالیا جائے گا جس سے پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک تقسیم ہونے سے بچ جائے گا اور یہاں سے پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی نشست نکالنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
خیبر پختون خوا سے دیگر جماعتوں کے جو سربراہان آئندہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اُن میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان حلقہ این اے 35 بنوں سے متحدہ مجلس عمل کے سابق وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر اکرم خان درانی سے ٹکرانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار بلاول بھٹو زرداری کی طر ح اس بات پر بھی حیرانی کا اظہار کررہے ہیں کہ عمران خان کو بنوں سے الیکشن لڑنے کا مشورہ نہ جانے کس دوست نما دشمن نے دیا ہے! اس حوالے سے سوشل میڈیا پر یہ دلچسپ تبصرے بھی کیے جارہے ہیں کہ یہ مشورہ دینے والا عمران خان کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے اور 25 جولائی کو جب یہاں سے عمران خان کے خلاف اُن کی توقع کے برعکس فیصلہ آئے گا تو وہ یہ کہتے ہوئے پائے جائیں گے کہ انہیں یہاں سے الیکشن لڑنے کے لیے دھکاکس نے دیا تھا؟ اس حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ اکرم خان درانی نے پچھلے دس برسوں کے دوران بنوں میں بالعموم اور این اے 35کے موجودہ حلقے میں بالخصوص جتنے ترقیاتی اور رفاہی کام کیے ہیں اور جس بڑے پیمانے پر لوگوں کو روزگار دلانے کے علاوہ اُن کے دکھ درد میں شرکت کے ذریعے جو مؤثر رابطہ رکھا ہے اس کو دیکھتے ہوئے عمران خان کے لیے اُن کو شکست دینا آسان نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے یہ بات بھی زیرگردش ہے کہ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں پشاور سے جیتنے کے باوجود اس نشست کو چھوڑنے کے سوا پی ٹی آئی کے پانچ سالہ عرصۂ اقتدار میں پشاور شہر پر مبنی اس تاریخی حلقے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ حالانکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کوکامیابی دلانے کا تقاضا تویہ تھاکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اس حلقے پر بالخصوص اور پشاور کے باقی حلقوں پر بالعموم زیادہ توجہ دیتی، لیکن عملاً ایساکچھ بھی نہیں کیا گیا، جس پر کہا جارہا ہے کہ خیبر پختون خوا کے باشعور اور جذباتی ووٹرز پی ٹی آئی اور بالخصوص عمران خان کی اس بے رخی کا بدلہ کم ازکم اُن سے بنوں میں بدترین شکست کی صورت میں ضرور لیں گے۔
مسلم لیگ (ن) ملک کی تیسری بڑی جماعت ہے جس کے سربراہ میاں شہبازشریف بھی خیبر پختون خوا کے حلقہ این اے3 ضلع سوات سے میدان میں اتر چکے ہیں۔ اُن کو اس دلدل میں اتارنے والے اُن کے من پسند صوبائی صدر امیر مقام ہیں جو دراصل اُن کی آڑ میں اپنی کشتی پار لگانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں، لیکن شاید میاں محمد شہبازشریف کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ امیرمقام کی کشتی پار ہو یا نہ ہو، کم ازکم اُن کی اپنی کشتی کے پار لگنے کے امکانات انتہائی معدوم ہیں۔ یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ عمومی طور پر سوات کبھی بھی مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ نہیں رہا ہے جس کا واضح ثبوت 2002ء میں یہاں سے متحدہ مجلس، 2008ء میں اے این پی، اور 2013ء میں پی ٹی آئی کا کلین سوئپ تھا۔ یہ بات بجا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران امیرمقام نے سوات پر خصوصی طور پر فوکس کررکھاہے اور وہ یہاں ووٹرز کو یہ باور کراتے رہے ہیں کہ یہاں سے اپنی کامیابی کی صورت میں وہ مستقبل کے وزیراعلیٰ یا پھر وفاقی وزیر ہوں گے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ کس طرح ووٹرز کو اس حکمتِ عملی کے تحت اپنے حق میں قائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کی کامیابی اور ناکامی سے قطع نظر بلاول اور عمران خان کی طرح چونکہ شہبازشریف کا تعلق بھی اس حلقے سے نہیں ہے جہاں سے وہ خیبر پختون خوا میں الیکشن لڑ رہے ہیں، اس لیے خیبر پختون خوا کے باشعور ووٹرز کے لیے اس تلخ حقیقت کو ہضم کرنا آسان نہیں ہوگا کہ باہر سے درآمد شدہ امیدواران کی ان حلقوں سے کامیابی کی صورت میں ماضی کے تجربات کی روشنی میں ان امیدواران کے نہ صرف ان حلقوں سے دستبرداری کے قوی امکانات ہیں، بلکہ اگر وہ کامیابی کے بعد ان نشستوں کو برقرار رکھتے ہیں تب بھی ان حلقوں کے ووٹرز کے لیے کم از کم اگلے پانچ سال تک ان چوٹی کے راہنمائوں جن کا تعلق صوبہ سندھ اور پنجاب سے ہے، اپنے مسائل کے لیے رابطہ اور ان تک رسائی تقریباً ناممکن ہوگی، ایسے میں کوئی بے وقوف اور سیاسی شعور سے کلیتاً عاری ووٹر ہی کسی ایسے درآمد شدہ امیدوار کو ووٹ دے گا۔ واضح رہے کہ ایسے ہی درآمد شدہ امیدواران میں ایک نامی گرامی کمانڈو امیدوار جنرل (ر) پرویزمشرف نے بھی آئندہ الیکشن میں قسمت آزمائی کے لیے خیبر پختون خوا کے حلقہ این اے ون چترال کا انتخاب کیا تھا لیکن یہ کلی اپنے داغ دار ماضی اور سیاہ کرتوتوں کے باعث بِن کھلے ہی مر جھا گئی ہے، کیونکہ یہاں سے ان کے کاغذاتِ نامزدگی ان کی تاحیات نااہلی کی سزا کے فیصلے کے باعث مسترد کردئیے گئے ہیں۔ دوسری جانب خیبر پختون خوا سے چار ایسی جماعتوں کے سربراہان بھی میدان میں ہیں جو اگر ایک طرف اسی صوبے کے سپوت ہیں تو دوسری جانب ان میں اگر دو کا تعلق پختون قوم پرست جماعتوں سے ہے تو باقی دونوں دو بڑی اور قابلِ ذکر ملک گیر مذہبی جماعتوں کے سربراہان ہیں، جبکہ ان چاروں کا ایک اور مشترکہ اور مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ نہ صرف اپنے اپنے آبائی حلقوں سے میدان میں ہیں بلکہ ان چاروں کے جیتنے کے امکانات بھی بلاول بھٹو زرداری، عمران خان اور شہبازشریف کی نسبت زیادہ ہیں۔ ان میں متحدہ مجلس عمل کے صدر اور جمعیت (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت، ایم ایم اے کے مرکزی نائب امیر اور جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق این اے 7دیر لوئر، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان اور قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو چارسدہ کے قومی اسمبلی کے دو الگ الگ حلقوں این اے 24 اور این اے 23 سے قسمت آزمائی کررہے ہیں۔
اس تمام صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کم ازکم خیبر پختون خوا کی حد تک آئندہ انتخابات میں وطنِ عزیز کی تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے یہاں سے قسمت آزمائی کے شوق کے تناظر میں اہلِ خیبر پختون خوا کو بالخصوص اور باقی صوبوں کے ووٹرز کو بالعموم یہاں ایک زبردست سیاسی دنگل دیکھنے کو ملے گا، جس کا یقینا سب کو آنے والے دنوں میں شدت سے انتظار رہے گا۔