معروف کشمیری صحافی شجاعت بخاری کو سری نگر میں رمضان المبارک کی آخری ساعتوں میں روزے کی حالت میں اپنے دفتر کے باہر قتل کردیا گیا، مگر فیض کا یہ مصرع ’’نہیں کہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ‘‘ ماضی کے بہت سے واقعات کی طرح اس قتل کا عنوان قرارپایا۔ بے وجہ اور بے تقصیر قتل ظلم اور قبیح فعل ہوتا ہے، اور جب حملہ آور نامعلوم اور مستور رہے تو قتل کی سنگینی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ گم نامی اور لاعلمی زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک اور قتل کی بنیاد اور ایک اور بے تقصیر کی موت کا سامان بن جاتی ہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ شورش زدہ معاشروں میں ’’نامعلوم‘‘کا کردار انسان کے دامن سے لپٹ اور چپک کر رہ جاتا ہے۔ مقصدیت سے بھری ہوئی اور واضح سمت میں تنی ہوئی ایک بندوق کے گرد بھی کئی نامعلوم اور رنگ برنگی بندوقیں رقص کناں رہتی ہیں۔ کب قتل ہوا، کس نے قتل کیا؟ لوگ یہ سوال تو پوچھتے ہیں، مگر نامعلوم کے کلچر میں ’’کیوں قتل ہوا؟‘‘کا سوال پوچھا ہی نہیں جاتا، اور پوچھا جائے تو جواب میں اسی سوال کی بازگشت سنائی دیتی ہے، گویا کہ حقیقی جواب کبھی نہیں مل پاتا۔ اس پیچیدہ فضا میں بس کچھ خاکے بناکر، کچھ زائچے تراش کر، اور کچھ نتائج اخذ کرکے ڈور کا سرا تلاش کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ شجاعت بخاری قتل ہوا تو یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کس نے قتل کیا؟ اس کا جواب شاید ہی کبھی مل سکے گا۔
شجاعت وادیٔ کشمیر کا ایک بہادر اور معاملہ فہم اخبارنویس تھا جو غیر محسوس طریقے سے کسی بڑے رول کے لیے تیار ہورہا تھا، مگر قدرت اسے سب سے بڑا رول دینا چاہتی تھی، اور وہ تھا شہادت کا رول اور تمغا۔ جموں کے انسان دوست ہندو آنجہانی وید بھسین کے انگریزی اخبار ’کشمیر ٹائمز‘ اور بعد ازاں ’دی ہندو‘ کے ساتھ وابستگی نے شجاعت کے لیے صحافت کے ابتدائی سفر میں ہی ایک بہترین ٹریننگ کیمپ کا کام دیا۔ وید بھسین کمال کے انسان دوست اور انسانی آزادیوں کے علَم بردار تھے، جو ذہنی طور پر بائیں بازو کے انسان تھے۔ وہ کشمیریوں کی تحریکِ حریت کا مقدمہ اس پُرزور انداز سے لڑتے کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتا۔ بھارت کا انگریزی روزنامہ’دی ہندو‘ اپنے نام کے برعکس جنوبی بھارت کا ایک معتدل اور متوازن اخبار تھا جو بھارت کے خبط ِعظمت کا حصہ نہیں تھا۔ ان دو متوازن اداروں نے شجاعت بخاری کو اپنی بات سلیقے اور مؤثر انداز سے کہنے کے فن سے مالامال کیا۔ اپنی محنتِ شاقہ سے شجاعت بخاری تین زبانوں پر مشتمل ایک بڑے اخباری گروپ کے مالک بن گئے۔ انگریزی روزنامہ ’رائزنگ کشمیر‘ اس گروپ میں ان کی پہچان بن گیا۔ ان کی تحریریں تاریخ کا حوالہ بننے لگیں، ان کی تقریریں رائے سازی میں اہم کردار ادا کرنے لگیں۔ انہیں کشمیر کے سب سے باخبر اور معتبر اخبارنویس کے طور پر دنیا کے کونے کونے میں بلایا جانے لگا۔ وہ کشمیر کے صحافتی مطلع سے بڑھ کر عالمی کینوس پر رنگ بکھیرتے اور رنگوں کی طرح بکھرتے چلے گئے۔ ان کا ایک وسیع حلقہ ٔ دوستاں قائم ہوتا چلا گیا۔ شجاعت کی صلاحیتیں جس قدر بلندیوں میں محوِ پرواز ہوتیں وہ اسی قدر زمین کی طرف جھکتا گیا جسے ڈائون ٹو ارتھ کہا جاتا ہے۔
ہر تشدد زدہ معاشرے کی طرح کشمیر میں روزِ اوّل سے صحافت کو تنی ہوئی رسّی کا سفر درپیش رہا ہے۔ بہت سے اخبارنویس اپنے قلم سمیت خونیں وادیوں میں گم ہوتے رہے۔ شجاعت بخاری کے قلم سے شکایات پیدا ہوتی رہیں۔ وہ کشمیر پر امن، مفاہمت اور مذاکرات کی محفلوں کی جان بن گئے، اور یہی روگ ان کی جان لے بیٹھا۔
ایک شخص کتنا ہی اعتدال پسند کیوں نہ ہو، نرم خو اور حلیم الطبع کیوں نہ ہو، وہ ہر طبقۂ فکر کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ شجاعت کو 2006ء میں اغوا کرکے قتل کرنے کی کوشش ہوئی، مگر گولی چیمبر میں پھنس گئی اور قتل کا منصوبہ ناکام ہوا۔ گزشتہ برس دبئی میں ہونے والی ایک کانفرنس کے بعد انہیں غدار کہا گیا۔ یوں لگا کہ کشمیر ماچس کی کسی ڈبیا، کسی چاکلیٹ کا نام ہے جسے شجاعت بخاری بھارت کے حوالے کردے گا؟ ایک اخبار نویس کی کیا اوقات کہ وہ کسی سیمینار میں جاکر کسی بڑے گروہ کے مفادات کو نقصان پہنچائے! غداری کوئی بڑا قدآور سیاست دان کرسکتا ہے جو اپنے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد کو لے کر فکری سرینڈر کرے، یا کسی مسلح گروہ کا سربراہ جو اپنی سپاہ کو کسی مقام پر خودسپردگی پر آمادہ کرے۔ ایک صحافی کے پاس غداری کے لیے ہوتا ہی کیا ہے، اور ایسے میں جب اُس کے لفظ چھپ کر ایک زمانے کی نگاہوں میں آتے ہوں؟ عمومی تاثر یہی تھا کہ شجاعت بخاری کو عسکری تنظیموں سے خطرہ ہے، مگر بھارت میں اُن کی سرگرمیوں کو پاکستان اسپانسرڈ سمجھنے والے بھی کم نہ تھے۔ شجاعت بخاری سے میرا تعارف 2004ء میں اُس وقت ہوا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل زوروں پر تھا اور سائوتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن (سافما) کے پلیٹ فارم سے صحافیوں کی مشترکہ محفلیں سجنے لگی تھیں۔ شجاعت بخاری بھارتی صحافی ونود شرما کی قیادت میں آنے والے صحافیوں کے ساتھ پاکستان آئے۔ سری نگر واپس جاکر انہوں نے مجھے ایک ای میل بھیجی کہ بھارت کا ایک تھنک ٹینک جرمن این جی او کے تعاون سے سری نگر میں ایک کانفرنس منعقد کرنا چاہتا تھا، آپ ایک وفد تشکیل دے کر اس میں شریک ہوں۔ شجاعت بخاری کو جب اور جس محفل میں سنا، وہ کشمیر کی مظلومیت کا مقدمہ کسی بہترین وکیل کی طرح دلائل اور براہین سے لڑتے پائے گئے۔ لاہور میں سافما کے زیراہتمام منعقد ہونے والی پاک بھارت صحافیوںکی ایک کانفرنس میں جنرل پرویزمشرف مہمانِ خصوصی تھے، یہاں شجاعت بخاری نے کشمیر کی زمینی صورتِ حال کی اس قدر حقیقت پسندی اور خوبصورتی سے عکاسی کی کہ محفل پر سکوت طاری ہوگیا۔ اپنی زبان اور قلم سے وہ کشمیر کے حالات اور ستم رسیدہ عوام کی نوحہ گری ہی کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے تین برس قبل آخری محفل میں وہ منقسم خاندانوں اور عام کشمیریوں کے دکھوں کی بات کرکے خود بھی پھوٹ پھوٹ کر روئے اور اہلِ محفل کو بھی رلادیا۔ ایک قلم کار کے پاس کسی کے پاس گروی رکھنے کے لیے قلم اور زبان ہوتی ہے، جس کسی نے بھی شجاعت کی تحریریں پڑھی یا تقریریں سنی ہوں وہ گواہی دے گا کہ شجاعت کا قلم اور زبان کسی کے پاس رہن نہیں تھے، وہ انہیں اپنے لوگوں اور وطن کی امانت بنائے ہوئے تھے۔ بھارت کے ٹی وی چینل ہوں یا امن کانفرنسیں… وہ ہر مقام پر کشمیر کا مقدمہ خوبصورت انداز میں لڑتے، اور شاید یہی جرأتِ اظہار شجاعت کی جان لینے کا باعث بنی۔
شجاعت بخاری کے قاتل کے نقش کفِ پا ملنا مشکل ہے مگر اسے اُن کے آخری آخری ٹویٹس میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں منظرعام پر آنے والی اقوام متحدہ کی ایک تہلکہ خیز رپورٹ میں کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس کمیشن کا مطلب ہے خوفناک جنگی جرائم کو سامنے لانا۔ اور اس کمیشن سے جنگی جرائم کی بے شمار کہانیاں اور بوسنیائی عوام کے قاتل سربین لیڈر’’ملاسوچ‘‘ جیسے جنگی جرائم میں ملوث کئی عسکری اور غیر عسکری کردار اُبھریں گے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں شجاعت کے کردار کی بات بھی ہورہی ہے۔ بھارت کی طرف سے کلی طور پر مسترد ہونے والی اس رپورٹ کے حوالے سے شجاعت بخاری کے ٹویٹس نے بھی بہت سی پیشانیوں پر بل ڈالے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شجاعت بخاری کی سرگرمیوں کو پاکستان کے ایما پر کہنے والے بھی موجود تھے اور انہیں وہاں اپنا دفاع کرنا پڑ رہا تھا۔ شجاعت بخاری کے قاتل نے کشمیر کی ایک توانا آواز کو خاموش کردیا۔ وہ آواز جسے ابھی پوری قوت سے دنیا میں گونجنا تھا۔ مگر اس قتل کا سراغ لگانے کا بہترین راستہ وہی ہے جس کی نشاندہی متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے کی ہے، یعنی قتل کی تحقیقات کسی غیر جانب دار بین الاقوامی ادارے سے کرائی جائے۔ لشکر طیبہ جس کے بارے میں شکوک پیدا کیے جارہے ہیں، اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کرچکی ہے۔ حریت کانفرنس کی قیادت سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق بھی کھلے لفظوں میں اس قتل کی مذمت کرچکے ہیں۔ اب گیند بھارت کے کورٹ میں ہے، کیونکہ بین الاقوامی ادارے سے تحقیقات کرانے کا کام صرف بھارت کرسکتا ہے۔ بھارتیوں کا دامن اورضمیر صاف ہے تو پھر اس عمل میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔