سید مودودی ؒ کے جانشین،میاں طفیل محمد ؒ

(یوم وفات 25، جون 2009ء)
اس دنیا میں جو آیا، اسے جانا ہے۔ خوش قسمت ہے وہ شخص جو یہاں مسافروں کی طرح زندگی گزارے اور اپنے اصلی گھر جائے تو وہاں اسے آباد پائے۔ یہ دنیائے فانی ہر مسافر کا دامن کھینچتی ہے مگر سمجھدار مسافر اسے جھٹک کر اپنا دامن بچالے جاتا ہے۔ ’’ کل من علیھا فان ویبقٰی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام ‘‘۔ 25 جون 2009ء کو نماز مغرب سے ذرا قبل اللہ کا ایک ایسا بندہ اللہ کے دربار میں حاضر ہوا، جس کی پوری زندگی ظاہر و باطن، سفر وحضر، خوشی و غم، غصہ و رضا، غرض ہر معاملے میں یک رنگ تھی۔ نماز کے دوران دربارِ خداوندی میں اس کی حاضری کی کیفیت مکمل وارفتگی کا ایمان افروز نمونہ ہوتی تھی۔ اس خوش نصیب انسان کی ہر نماز حدیثِ پاک کے مطابق یہ تصور اجاگر کرتی تھی کہ گویا وہ بندۂ خدا الوداعی نماز ادا کررہا ہے۔ اس شخص نے واقعی اپنی پوری زندگی ایک ایسے ذمہ دار مسافر کی حیثیت سے گزاری، جسے صعوبتوں کے باوجود اپنی منزل کا پورا شعور بھی ہوتا ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے ہر لمحے فکرمندی بھی۔ یہ تھے جناب میاں طفیل محمد ؒ جو زندگی کی96 بہاریں مکمل کرکے 25 جون 2009ء کو شیخ زاید ہسپتال میں دائمی اور میٹھی نیند سوگئے اور اگلے روز منصورہ میں بعد نماز جمعہ ہزاروں سوگواروں کی نماز جنازہ کے بعد کریم بلاک علامہ اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوگئے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون

میاں صاحب مرحوم جماعت اسلامی کے سابق امیر اور اپنی وفات کے وقت تک ادارہ معارف اسلامی لاہور کے چیئرمین، رابطہ عالم اسلامی کے رکن اور رابطہ کے تحت قائم عالمی مساجد کونسل کے ممبر تھے۔ میاں صاحب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒکے معتمد ترین ساتھی تھے اور جماعت کی تنظیم میں طویل عرصے تک ان کے ساتھ قیم کی حیثیت سے فرائض ادا کرتے رہے۔ مولانا مودودی ؒ کی جانشینی کا شرف بھی انھیں حاصل ہوا اور انھوں نے مشکل اور پُرآشوب حالات میں جماعت اسلامی کی قیادت کا حق ادا کیا۔ مولانا اور میاں صاحب کے درمیان مثالی اخوت و محبت کا تعلق قائم تھا۔ دونوں عظیم انسان تھے، خیر کے علَم بردار، طاغوت کے لیے ننگی تلوار!
میاں طفیل محمد صاحب مشرقی پنجاب کی ریاست کپورتھلہ کے ایک گاؤں رائے پور آرائیاں میں نومبر 1913ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق متوسط درجے کے ایک کاشت کار گھرانے سے تھا، جس کے افراد اپنی شرافت و دیانت، تعاون ِباہمی، اتفاق اور محبت کی وجہ سے پورے علاقے میں معزز و محترم مقام کے حامل تھے۔ ان کے خاندان کے بزرگان گاؤں میں نمبردار اور ذیلدار تھے، میاں صاحب کے تایا چودھری رحمت علی کپورتھلہ اسمبلی کے ممبر بھی چنے گئے تھے۔ میاں صاحب اپنی خودنوشت سوانح ’’مشاہدات‘‘ میں بیان فرماتے ہیں کہ بچپن کے زمانے میں وہ گلی کوچوں میں کھیلنے اور شور و ہنگامہ کرنے والے بچوں سے بہت کم ملا کرتے تھے۔ اس کے برعکس نصابی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کے بعد بیشتر وقت بزرگوں اور بااثر لوگوں کی مجالس میں گزارا کرتے تھے، جس سے ان کی طبیعت میں سنجیدگی اور تفکر و تدبر پیدا ہوا۔
میاں صاحب کو اپنے خاندان کے بزرگوں کے علاوہ بچپن اور لڑکپن میں جن لوگوں سے نیاز حاصل رہا، اُن میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا محمد بخش مسلم، مولانا عبدالحنان، مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی، مولانا جلال الدین گورداسپوری اور مولانا پیر فضل محمد خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ آخرالذکر بزرگ مولانا مودودی ؒ کے ابتدائی ساتھی سید عبدالعزیز شرقی مرحوم کے والدِ گرامی تھے۔ میاں صاحب کی طبیعت میں سنجیدگی اور محنت کی عادت کے ساتھ اللہ نے انہیں بے پناہ ذہانت بھی بخشی تھی۔ ہر امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج لاہور میں آئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے کے وقت امیدوار سے ایک سوال یہ پوچھا جاتا تھا کہ آپ کا کوئی خونیں رشتے دار اس کالج میں طالب علم رہ چکا ہے؟ میاں صاحب نے اس پر برجستہ جواب دیا کہ میں اگر تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے معیار پر پورا اُترتا ہوں تو مجھے داخلہ دیا جائے، قرابت داری (kinship) کا معاملہ بھی آئندہ چل پڑ ے گا، جب ہمارے خاندان کے کسی شخص کو آپ داخلہ ہی نہیں دیں گے تو قرابت داری کا خانہ کیسے پُر ہوسکتا ہے!
میاں صاحب سائنس کے طالب علم تھے۔ کالج سے بی ایس سی کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ میاں صاحب کے اپنے بقول کپورتھلہ میں ہندو اور سکھ معیشت پر قابض تھے، بالخصوص ہندو بنیے نے اپنے سودی کاروبار میں مسلمانوں کو بری طرح جکڑ رکھا تھا۔ اس حوالے سے جب معاملات عدالتوں میں جاتے تو وہاں مجسٹریٹ، جج اور وکلا سبھی غیر مسلم ہوتے تھے۔ خود میاں صاحب کے خاندان کو بھی سود خوروں کے اس جال سے واسطہ پڑا، چنانچہ خاندان کے لوگوں نے طے کیا کہ ان کا یہ ہونہار سپوت سائنس کے بجائے قانون کی تعلیم حاصل کرے۔ اسی فیصلے کے تحت میاں صاحب نے سائنس کے مضامین پسندیدہ ہونے کے باوجود بادل ِنخواستہ سائنس میں ماسٹر کرنے کے بجائے لا کالج لاہور سے ایل ایل بی کا امتحان دیا اور اس میں بھی شاندار کامیابی حاصل کی۔ میاں صاحب کے والد ِگرامی میاں برکت علی اسکول ٹیچر تھے اور کمال یہ ہے کہ علی الصبح اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیتوں میں ہل چلاتے اور اسکول کا وقت شروع ہونے سے قبل تیاری کرکے اسکول پہنچ جاتے۔ میاں صاحب کے والد کو ہم نے بھی دیکھا۔ وہ بہت نیک اور سادہ طبیعت کے بزرگ تھے۔ میاں صاحب امیر جماعت ہونے کے زمانے میں بھی اپنے والد کے سامنے یوں مؤدب کھڑے ہوتے جیسے کوئی چھوٹا بچہ اپنے بزرگوں کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔
میاں صاحب کے دو بھائی اور ایک بہن بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ اب وہ تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ میاں صاحب کے وکیل بن جانے پر پورے خاندان بلکہ ریاست کپورتھلہ کی ساری مسلم آبادی کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ اب یہ ہونہار نوجوان وکالت و عدالت میں نام بھی پیدا کرے گا اور اپنا معیارِ زندگی بھی بلند کرے گا۔ میاں صاحب نے وکالت شروع کردی، جس کی کامیابی کے بہت روشن امکانات تھے۔ اسی عرصے میں میاں صاحب کی شادی بھی ہوئی۔ میاں صاحب کی اہلیہ محترمہ بھی ایک بہت عظیم خاتون تھیں۔ ہم نے ان کے حالات اپنی کتاب ’’مسافران ِراہ وفا‘‘ میں تفصیلاً لکھ دیے ہیں۔ اسی دور میں میاں صاحب کے کانوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی دعوت ِحق نے رس گھولا۔ وہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے مضامین کے ذریعے اقامتِ دین کی اس دعوت سے روشناس ہوئے اور پھر زندگی کا دھارا بالکل تبدیل ہوگیا۔ تمنائیں، آرزوئیں، معیارِ زندگی کے خواب اور حسین مستقبل کا تانا بانا سب منہ دیکھتے رہ گئے۔ مسافر اپنا دامن چھڑا کر ایک اور ہی منزل کی تلاش میں نئی راہوں پر چل نکلا۔ میاں صاحب کو جس مضمون نے زیادہ متاثرکیا اس کا عنوان تھا ’’راہ رو پشت بہ منزل ‘‘ (ترجمان القرآن۔ جنوری 1940ء) اس مضمون نے اس راہ رو کو منزل کا پتا بتادیا اور وہ واقعی منزل سے ہم کنار بھی ہوا۔
جماعت اسلامی میں شمولیت کیسے اور کیوںکر ہوئی؟ یہ ساری تفصیلات میاں صاحب نے اپنی کتاب ’’مشاہدات‘‘ میں بیان کی ہیں، اور اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، جن سے میاں صاحب کا بچپن سے عقیدت مندی کا تعلق تھا، انھیں مولانا مودودی ؒ تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ بن گئے۔ اس دور میں میاں صاحب بیک وقت عطاء اللہ شاہ بخاریؒکی پُرجوش خطابات سے بھی متاثر تھے اور مولانا مودودی ؒ کی دل نشین تحریروں کے بھی گرویدہ تھے۔ اب ان کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ ان میں سے کس راہ پر چلیں؟ اس کے جواب میں میاں صاحب کو امیر شریعت نے یوں نصیحت فرمائی ’’وکیل صاحب خدا لگتی پوچھتے ہو تو کرنے کا اصل کام وہی ہے جو سید کا وہ لاہور ی لعل (مولانا مودودی ؒ) کہتا ہے… اسی سید کے پاس جاؤ اور اس کے ساتھ مل کر کام کرو‘‘ (بحوالہ مشاہدات، از میاں طفیل محمد۔ مطبوعہ ادارہ معارف اسلامی، ص 56)۔ اسی سے میاں صاحب کو یکسوئی حاصل ہوئی اور وہ جماعت کے تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے۔ تاسیسی اجلاس میں شرکت اور وہاں جماعت کی رکنیت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کا واقعہ میاں صاحب کی کئی تحریروں بالخصوص مشاہدات میں موجود ہے۔ وہاں جو سوال جواب ہوئے اور میاں صاحب جس ذہنی و قلبی کیفیت سے گزرے، اس کی پوری تفصیل بھی ان کی تحریروں میں موجود ہے۔ اس کے بعد کے مراحل میاں صاحب کی سوانح اور جماعت کی تاریخ کا اہم ترین باب ہے۔
اس مختصر مضمون میں میاں صاحب کی دلچسپ اور صبر آزما جدوجہد کی تفصیلات بیان کرنے کا موقع نہیں، مگر میاں صاحب کی سیرت کے چند گوشے نذرِ قارئین کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میاں صاحب کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے۔ اپنی پہلی گرفتاری کی تفصیلات انہوں نے مشاہدات میں بیان کی ہیں، جو 4 اکتوبر 1948ء کو عمل میں آئی۔ یہ گرفتاری بھی اگرچہ بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی تھی لیکن میاں صاحب تھانے سے لے کر حوالات تک اور حوالات سے لے کر قصور، ملتان اور لاہور جیل تک کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جیل کے عملے کا سلوک بالعموم ہمارے ساتھ شریفانہ رہا۔ ہم بھی ان کے ساتھ شرافت سے پیش آتے اور انھوں نے بھی شرافت و احترام کا برتاؤ ہی رکھا۔ اس گرفتاری سے میاں صاحب مئی1950 ء میں رہا ہوئے۔ اس کے بعد بھی کئی مرتبہ ان کا جیل آنا جانا رہا، حتیٰ کہ ان پر بغاوت کے کیس بھی بنائے گئے۔ جب میاں صاحب کو بنگلہ دیش نامنظور تحریک کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت نے انتقام کا نشانہ بنایا تو وہ انتہائی تکلیف دہ گرفتاری تھی۔ میاں صاحب کو گرفتار کرنے کے بعد بھٹو صاحب اور کھرکے ایما پر بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا مزا چکھانے کے لیے جیل میں بدترین توہین اور اذیت سے گزارا گیا۔ راقم کی رائے میں ہمارے مرکزی اور صوبائی قائدین میں سے کسی کے ساتھ بدترین ادوار میں بھی کبھی اس طرح کا سلوک نہیںکیا گیا ہوگا، جس طرح میاں صاحب کے ساتھ جیل میں روا رکھا گیا۔ اس قید سے رہائی کے بعد میاں صاحب نے تفصیلات بیان فرمائیں مگر اخبارات میں بھی پہلے یہ خبریں چھپ گئی تھیں۔ اخبارات میں یہ خبریں چھپنے پر کئی کارکنان رات بھر روتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد مرحوم جو جماعت کے رکن اور مقامی امیر تھے اور جن کے بارے میں ہمارا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ وہ بہت کم کبھی روئے ہوں گے، اس واقعہ پر جذبات سے مغلوب ہوکر رو دیے تھے۔
میاں صاحب نے اس واقعہ کا تحریری تذکرہ مختصر طور پر اپنی کتاب مشاہدات میں صفحہ519 پر کیا ہے، جس میں انھوں نے اپنے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے لکھا ہے کہ میرے ساتھ غیر شریفانہ سلوک ہوا تھا [البتہ] بھٹو صاحب نے گورنر ہائوس لاہور میں آنسوئوں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ مجھ سے معذرت کی اور گورنر پنجاب مسٹر غلام مصطفی کھر کو گالی دے کر کہا کہ یہ سب اس کی بدمعاشی کا کیا دھرا ہے، آپ مجھے معاف کردیں۔ اس کے جواب میں میاں صاحب نے بھٹو صاحب سے کہا کہ ہم یہ سب کچھ اللہ اور اس کے دین کے لیے برداشت کررہے ہیں، اُسی سے اجر چاہتے ہیں، اس لیے آپ لوگوں سے ہمیںکوئی گلہ اور شکایت نہیں ہے۔ یہ تو میاں صاحب کی مختصر تحریر ہے، لیکن جیل سے آنے کے بعد ایک مجلس میں میاں صاحب نے واقعہ کو قدرے تفصیل سے بیان کیا اور فرمایا کہ جب جیل کے اندر بدقماش لوگوں نے اپنی بدمعاشی و بدتمیزی کا مظاہرہ کرلیا اور چلے گئے تو میں نے اپنی کال کوٹھڑی میں رکھے ہوئے مٹی کے مٹکے سے پانی لیا، وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ نماز کے بعد جب میں نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو میرے دل کی عجیب کیفیت تھی، میں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے پرودگار اگر تُو ان لوگوں کو اپنی گرفت میں لینا چاہے تو بلاشبہ تُو اس پر قادر ہے، مگر میرے مولا مجھے اس سے کیا حاصل ہوگا! میری تو یہی آرزو ہے کہ تُو ان کو معاف کرکے ہدایت فرمادے۔ یہ بات لکھ دینا تو آسان ہے مگر اس کا عملی مظاہرہ وہی شخص کرسکتا ہے جو واقعتا اپنے آپ کو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل پیروکار بنا چکا ہو۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر طائف اور اس کی تفصیلات اس واقعہ کو سن کر ذہن میں تازہ ہوجاتی ہیں۔
محترم میاں طفیل محمد صاحب سے ذاتی تعارف دورِ طالب علمی ہی سے تھا۔ ان سے یہ تعلق ہمیشہ میری تحریکی زندگی کا بہترین سرمایہ ثابت ہوا۔ میاں صاحب کا دورِامارت شروع ہوچکا تھا کہ میں مولانا مودودی ؒ کی ہدایت پر جنوری 1974ء میں کینیا چلاگیا۔ میاں صاحب سے خط کتابت رہتی تھی، جبکہ ایک مرتبہ محترم میاں صاحب اور خلیل حامدی مرحوم کینیا میں تشریف بھی لائے۔ خلیل حامدی صاحب نے بتایا کہ جب ہمارا سوڈان کے سفر کا پروگرام بنا تو میاں صاحب نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ کینیا میں موجود تحریکی اداروں اور ان میں سرگرم کارکنان کے حقیقی حالات معلوم کرنے کے لیے اسی سفر کے ساتھ کینیا کا سفر بھی منظم کرلیا جائے۔ اس سفر کے دوران میں میاں صاحب نے تمام بڑے شہروں کا سفر کیا اور فاؤنڈیشن کے زیراہتمام چلنے والے اداروں کو بہت گہری نظر سے دیکھا۔ ہر جگہ انھوں نے نہایت جامع ہدایات بھی دیں۔ فاؤنڈیشن کے علاوہ دیگر اسلامی تنظیمات کے ذمہ داران سے ملاقاتیں کیں اور کینیا میں موجود تمام علمی و روحانی شخصیات سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔ میاں صاحب کے اس دورے کی بہت سی یادگار باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کینیا کے ایک عظیم عالم دین اور متقی شخص شیخ عزالدینؒ، میاں صاحب سے ملاقات کے بعد بہت خوش ہوئے اور عرصے تک اس ملاقات کا بڑی وارفتگی سے تذکرہ کیا کرتے تھے۔ شیخ عزالدین مرحوم اسیولو شہر میں، ہماری ایک بڑی جامع مسجد کے اعزازی خطیب تھے اور انھیں مقامی مسلمان آبادی میں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے عالم عرب و عجم کی بڑی بڑی شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل ہے مگر جو نورِایمان میں نے پاکستان سے آئے ہوئے شیخ طفیل کی شخصیت میں دیکھا، وہ بے مثال ہے۔ ایک پارسا شخص کی یہ بے لوث گواہی میاں صاحب مرحوم کی للہیت کا ثبوت ہے۔
کینیا کے ایک اور بزرگ شخص شیخ عثمان ارارو جو اسلامک فاؤنڈیشن کے رکن بھی تھے اور کینیا پارلیمان کے ممبر بھی رہے، میاں صاحب کی ملاقات سے اس قدر متاثر تھے کہ بعد میں ایک مرتبہ پاکستان تشریف لائے۔ وہ بنیادی طور پر تبلیغی جماعت کے اجتماع میں آئے تھے مگر پورا ایک ہفتہ منصورہ میں انھوں نے قیام کیا۔ وہ کینیا میں بھی بارہا اس کا تذکرہ کرتے تھے اور اپنے قیام ِ منصورہ کے دوران بھی انھوں نے کئی مرتبہ یہ کہا کہ شیخ طفیل کو جب بھی دیکھیں، اللہ کی یاد دل میں تازہ ہوجاتی ہے۔ یہی اہل اللہ کی نشانی ہے کہ انھیں دیکھ کر ذکرِ اللہ سے دل آباد ہوجائیں۔
میاں صاحب اتنے عظیم آدمی تھے کہ جہاں اپنے مخالفین کو معاف کردینے کا جذبہ اُن کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، وہیں انکسار، تواضع اور جذبۂ تشکر بھی انتہا درجے کا تھا۔ اپنے سے کسی بہت چھوٹے ساتھی کی گفتگو سن رہے ہوتے تو بھی اس قدر انہماک اور توجہ سے سنتے جیسے کوئی شاگرد اپنے استاد کی باتیں سن رہا ہو، خواہ گفتگو کرنے والا ان کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے طفلِ مکتب کی حیثیت رکھتا ہو۔ میاں صاحب ادارہ معارف اسلامی کے چیئرمین تھے۔ جب مجھے اس ادارے میں بطور ڈائریکٹر ذمہ داریاں سونپی گئیں تو میاں صاحب کی شخصیت کے کئی انتہائی اعلیٰ اوصاف سامنے آئے۔ آخری برسوں میں میاں صاحب کی بینائی مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی۔ اس کے باوجود زیرتکمیل منصوبوں کے بارے میں ہر ملاقات پر معلومات حاصل کرتے، نئی چھپنے والی کتابوں کے مندرجات اور دیگر امور کے بارے میں استفسار کرتے اور ہر ملاقات پر ڈھیروں دعائیں دیتے۔ ہم میاں صاحب کو روزانہ اخبار سنانے کے لیے کسی ایک کارکن کو اُن کے گھر بھیجا کرتے تھے۔ میاں صاحب اس معمولی خدمت پر بھی انتہائی شکر گزاری کا اظہار فرماتے۔ آخری دنوں میں اخبار کے بجائے وہ قرآن کی تلاوت اور ترجمہ سننے کی فرمائش کرتے تھے۔ چنانچہ اسی کا اہتمام کیا گیا۔ آخری روز انہوں نے قاری صاحب سے ایک پارے کے قریب تلاوت اور اس کا ترجمہ سماعت فرمایا۔ اس روز مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی منصورہ مسجد میں باجماعت ادا کیں۔ قاضی حسین احمد صاحب سے گلے ملے اور دیر تک ان سے بات کرتے رہے۔ اسی رات کو ان کو اسٹروک ہوا اور پھر باقی ایام شیخ زاید ہسپتال میں کومے ہی میں رہے۔
میاں صاحب کے بیٹے حسن فاروق نے بیان کیا کہ جب بھی وہ انھیں نماز کے لیے مسجد لے جاتے تو واپسی پر گھر پہنچتے ہی وہ کہتے ’’حسن بیٹے آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ایک فرض ادا کرنے میں میری معاونت کی‘‘۔میں کہتا کہ ابا جان آپ یہ کیا فرمارہے ہیں، یہ ہمارا فرض ہی نہیں ہمارے لیے ایک بڑا اعزاز اور سعادت ہے۔ اس کے باوجود کہتے ’’نہیں، میں آپ کا ممنون ہوں‘‘۔ میاں صاحب نے مشاہدات میں اپنی زندگی کے جو حالات و تجربات اور تحریکی زندگی کے دلچسب اور مشکل موڑ بیان کیے ہیں، ان میں انتہائی بے ساختگی اور بے تکلفی کا احساس ہوتا ہے۔ میاں صاحب کے ساتھیوں نے ان کے ساتھ جیل میں وقت گزارا اور قریب سے دیکھا۔ ان کے بہت سے ساتھی زندگی بھر ان کے ساتھ سرد و گرم حالات میں جانب ِ منزل رواں دواں رہے۔ قاضی حسین احمد، چودھری رحمت الٰہی، چودھری محمد اسلم سلیمی، پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر غفور احمد، سید منور حسن نے میاں صاحب کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ہر ایک ان کے بارے میں گواہی دیتا ہے کہ وہ سراپا اخلاص اور مومن حنیف تھے۔ میاں صاحب کی آخری بیماری کے دوران چودھری رحمت الٰہی صاحب اپنے علاج کے لیے امریکہ میں اپنی بیٹیوں کے پاس مقیم تھے۔ جس روز چودھری صاحب واپس پاکستان پہنچے، اُس روز میاں صاحب کا انتقال ہوا۔ چودھری صاحب نے انتہائی گلوگیر لہجے میں بلکہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے فرمایا کہ میاں صاحب نے ساری زندگی ہر معاملے میں مجھے بڑے بھائی کی شفقت و محبت سے نوازا، اور میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ میرا ہی انتظار کررہے تھے کہ میں ان کے جنازے سے محروم نہ رہ جاؤں۔
راقم الحروف کو بھی میاں صاحب کو سفرو حضر میں دیکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ میاں صاحب عابد ِشب زندہ دار اور جرأت مند مردِمیدان تھے۔ رہبان اللیل وارفرسان النہار کی اصطلاح پوری طرح ان پر صادق آتی ہے۔میاں صاحب نے اپنے پیچھے چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں چھوڑی ہیں، جبکہ میاں صاحب کے نواسے، نواسیوں اور آگے ان کی اولاد سو سے بھی متجاوز ہے۔میاں صاحب ایک کامیاب زندگی گزار کر آسودہ راحت ہوئے ہیں۔انھوں نے اپنی زندگی کے حالات ’’تذکرہ سید مودودی ؒ ‘‘اور ’’ مشاہدات ‘‘میں نہایت ایمان افروز انداز میں محفوظ کردیے ہیں۔ جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد پر بھی انھوں نے بہت اچھی کتاب مرتب کی ہے۔ ’’جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد‘‘ اور ’’دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات‘‘ میں ایک کہنہ مشق قلم کار کی حیثیت سے میاں صاحب نے اپنا سکہ منوایا ہے، جبکہ سید علی ہجویریؒ کے ملفوظات ’’کشف المحجوب‘‘کا رواں اردو ترجمہ بھی ان کی قابلیت پر گواہ ہے۔ میاں صاحب کی زندگی کے مختلف پہلو اور گوشے اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان پر قلم اُٹھایا جائے۔ کئی اخبارات و رسائل نے میاں صاحب کی وفات پر ان کی حیات و خدمات کے بارے میں نمبر شائع کیے۔ بہت سے قلمکار لکھ رہے ہیں۔ ان شاء اللہ میاں صاحب کی زندگی کے مختلف گوشوں کو دیگر مضامین میں اُجاگر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
حق تعالیٰ اپنے اس درویش صفت، پاک نظر و پاک باز بندے کو اعلیٰ علییّن میں اپنے مقربین میں شامل فرمائے۔