وفاقی دارالحکومت اسلام آباد،انتخابی منظرنامہ… ایک تجزیہ

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انتخابی سرگرمیاں اگرچہ شروع نہیں ہوئیں، تاہم ماحول اب بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔ امیدواروں کے نامزدگی فارم اور ان کی جانچ پڑتال کے عمل کے بعد امیدوار سامنے آجائیں گے۔ کون کس کے مقابل ہوگا اور کس کا جوڑ کس کے ساتھ پڑے گا یہ سب کچھ اسی ہفتے واضح ہوجائے گا۔ اسلام آباد نئی حلقہ بندیوں کے بعد اب قومی اسمبلی کے تین حلقوں این اے 52، این اے 53 اور این اے54 میں تقسیم ہوچکا ہے، اور بیشتر حصہ دیہات اور غیر منظم آبادیوں پر مشتمل ہے، جب کہ این اے53 واحد حلقہ ہے جس میں شہری آبادی زیادہ اور دیہی آبادی کم ہے۔ اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں متحدہ مجلس عمل اپنے امیدوار فائنل کرچکی ہے، تاہم حتمی فہرست آخری جانچ پڑتال کے بعد جاری کی جائے گی۔ این اے53 میں بڑے کھلاڑی میدان میں اترے تھے، جن میں شاہد خاقان عباسی، سردار مہتاب عباسی، عمران خان، عائشہ گلالئی، میاں اسلم، طارق فضل چودھری، الیاس سبحان اور دیگر شامل تھے، لیکن شاہد خاقان عباسی، عمران خان، عائشہ گلالئی اور سردار مہتاب عباسی کے نامزدگی فارم مسترد ہوجانے کے بعد صورت حال میں یکسر تبدیلی آگئی ہے۔ جن امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے ہیں اگر وہ اپیل میں گئے اور اپیل منظور ہوگئی تو اس حلقے میں انتخابی گہماگہمی ایک بار پھر سے بڑھ جائے گی۔ اس حلقے کا سیاسی جائزہ اس طرح سے ہے کہ یہاں آبادی 6 لاکھ 70 ہزار ہے۔ اسلام آباد کا یہ حلقہ شہری اور دیہاتی آبادیوں پر مشتمل ہے، لیکن اسلام آباد کا یہ حلقہ اس لحاظ سے بھی بہت الگ نوعیت کا ہے کہ اس حلقے میں پانی کا بحران بڑھ رہا ہے، لا اینڈ آرڈر کے مسائل ہیں، تیزی سے کسی منصوبہ بندی کے بغیر بڑھتی ہوئی آبادی ماحولیات کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے ماحولیات کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ درخت کاٹے جارہے ہیں اور گھر تعمیر ہورہے ہیں، لیکن گھروں کی یہ تعمیر کسی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں، بلکہ زون تھری میں ہونے کے باعث سی ڈی اے کا یہاں کوئی کنٹرول نہیں ہے، لہٰذا یہاں زمینوں پر قبضے بھی ہورہے ہیں اور شہر کے اس حصے میں مائیگریشن کی شرح بھی حیران کن طور پر بڑھ رہی ہے۔ یہ حلقہ کراچی کمپنی جی نائن سیکٹر سے شروع ہوتا ہے اور بلیو ایریا، آب پارہ، ایوانِ صدر کالونی، قائداعظم یونیورسٹی سے ہوتا ہوا بنی گالہ، بہارہ کہو، شادرہ ویلی تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی حلقے جی سکس سیکٹر میں اسلام آباد کے سرکاری ملازمین کے لیے تعمیر کردہ گھر بھی شامل ہیں، ان گھروں کے بارے میں متعدد بار سیاسی جماعتوں نے یہ وعدہ کرکے ووٹ لیے کہ اقتدار میں آجانے کے بعد یہاں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دیے جائیں گے، لیکن یہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوسکا۔ اس حلقے کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ نکاسی آب کا ہے۔ راول ڈیم بھی اسی حلقے میں شامل ہے۔ اس ڈیم میں سیوریج کا گندا پانی بہہ کر شامل ہورہا ہے جس سے ماحول تیزی سے خراب ہورہا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار میاں اسلم یہاں سے بھی امیدوار ہیں، وہ جب 2002ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے تو انہوں نے پی ایس ڈی پی کے تحت یہاں ترقیاتی فنڈز منظور کرائے، اور اب تک ان کے حلقے میں بیس ارب روپے کے ترقیاتی کام ہوچکے ہیں۔
اسلام آباد کے بارے میں ہمیشہ سی ڈی اے کا یہ مؤقف رہا کہ منتخب نمائندے شہر کی ترقی کا معاملہ سی ڈی اے پر چھوڑ دیں، لیکن میاں اسلم نے قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اسلام آباد کے لیے الگ سے ترقیاتی فنڈز منظور کرائے۔ اپنے دور میں انہوں نے تین سو فیڈرل اسکولوں کو ماڈل کالج بنوایا، شہر کے ہر سیکٹر میں پارک بنوائے۔ ان سے قبل شہر میں صرف ایک پارک تھا، اب شہر میں جاپان پارک کے علاوہ ہر سیکٹر میں پارک ہیں، اور اسی طرح دیہی علاقوں میں بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی ممکن بنائی ہے اور سڑکیں بھی تعمیر کرائی ہیں۔
این اے 53 کی طرح اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے حلقہ54 میں بھی گھمسان کا رن پڑے گا۔ یہ انتخابی حلقہ روایتی طور پر دائیں بازو کے ووٹروں پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد اس میں تبدیلی آئی ہے اور اب یہ زیادہ تر دیہی حلقے پر مشتمل رہ گیا ہے۔ اس میں سترہ یونین کونسل رہ گئی ہیں۔ اس حلقے میں ووٹ ڈالنے کا تناسب ہمیشہ ہی بہت زیادہ رہا ہے۔ اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں رقبے کے اعتبار سے یہ چھوٹا حلقہ ہے اور ماضی میں بھی یہاں سے انتخابی نتائج دائیں بازو کے امیدوار کے حق میں رہے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے یہ انتخابی حلقہ1977ء میں پہلی بار اسلام آباد کی حدود کے ساتھ وجود میں آیا۔ اس سے قبل یہ راولپنڈی کے ساتھ جڑا ہوا تھا اور 1970ء میں اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کرنل (ر) حبیب اللہ کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے آج تک یہاں سے پیپلزپارٹی کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔ آخری مرتبہ یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار اسد عمر ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے، یہ نشست جاوید ہاشمی نے چھوڑی تھی۔ اسد عمر یہاں کے مقامی نہیں تھے لیکن انہیں تحریک انصاف کا ووٹ ملا ۔ اس کے بعد سے آج تک اسد عمر نے یہاں رہائش اختیار نہیں کی اور چار سال وہ ایک مقامی ہوٹل میں مقیم رہے، اور اب آخری سال میں آکر حلقے میں دوبارہ متحرک ہوئے ہیں، اور انہیں امید بھی صرف تحریک انصاف کے ووٹرز سے ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں اس حلقے میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار میاں اسلم، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں میں بہت دلچسپ مقابلہ متوقع ہے۔ 1988ء کے عام انتخابات میں اس حلقے میں 13 امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ ان انتخابات میں آئی جے آئی کے امیدوار سرفراز میر نے18398، نواز کھوکھر (آزاد) نے23551، پی ڈی اے کے امیدوار پرویز خان نے39994 اور جے یو آئی (ف) کے امیدوار منظور حسین نے 1275، اور آزاد امیدواروں میں ظفر علی شاہ نے13185 اور میاں اسلم نے 87 ووٹ لیے تھے، اور یوں یہاں سے آئی جے آئی کے مقابلے میں عوامی اتحاد کا امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ 1990ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر 13 امیدوار میدان میں اترے۔ ان میں پاکستان اسلامک فرنٹ کے میجر طارق نے8248، پیپلزپارٹی کے نیر بخاری نے49518، مسلم لیگ(ن) کے نواز کھوکھر نے 59308، جے یو آئی کے بشیر ممتاز نے415، اور پی ڈی اے کے پرویز خان نے43647 ووٹ لیے۔ یوں یہاں سے نواز کھوکھر کامیاب ہوئے۔ 1997ء کے عام انتخابات کا جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے ظفر علی شاہ 67509 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے نیر بخاری کو 29847 ووٹ ملے، جبکہ تحریک انصاف کے عمران خان نے5268 ووٹ حاصل کیے۔ اس کے بعد 2002ء میں عام انتخابات ہوئے، تو اس وقت نئی حلقہ بندیاں ہوئیں اور یہ حلقہ این اے 48 بن گیا۔ ان انتخابات میں یہاں سے 18 امیدوار میدان میں اترے۔ ان میں پیپلپزپارٹی کے ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان کو28775، مسلم لیگ(ن) کے سید ظفر علی شاہ کو3893، تحریک انصاف کے نواب زادہ احمد رضا قصوری کو 5310 اور متحدہ مجلس عمل کے امیدوار میاں اسلم کو 40365 ووٹ ملے۔ اس طرح میاں اسلم قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی کے رکن بن کر انہوں نے شہر کے لیے بہت کام کیا، حتیٰ کہ شہر میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دریائے سندھ سے پانی لاکر شہریوں کو فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جب سے وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے، اس کے بعد سے آج تک مسلسل اپنے پبلک سیکرٹریٹ میں وقت دے رہے ہیں اور انتظامیہ اور سی ڈی اے سمیت تمام متعلقہ اداروں میں شہریوں کی دادرسی کے لیے متحرک رہتے ہیں۔ اس کے بعد 2008ء میں عام انتخابات ہوئے، اور جماعت اسلامی نے اے پی ڈی ایم کے فیصلے کے تحت بائیکاٹ کیا۔ اُس وقت اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کے انجم عقیل خان کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد 2013ء میں عام انتخابات ہوئے تو اس حلقے میں 50 امیدوار میدان میں اترے، اور تحریک انصاف کے جاوید ہاشمی73878 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کے انجم عقیل کو 52205 ووٹ ملے، جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار میاں اسلم نے 25048 ووٹ حاصل کیے۔ جب کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار فیصل سخی بٹ کو9178 ووٹ ملے۔
اسلام آباد کا تیسرا حلقہ این اے 52 اسلام آباد کے نواحی علاقوں اور نئی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں بھی کم و بیش وہی مسائل ہیں جو این اے 53 میں درپیش ہیں، لیکن اس حلقے میں سیاسی لحاظ سے ایک مقامی خاندان نواز کھوکھر کا زیادہ اثر رسوخ ہے۔