۔1940ء کی دہائی میں جب برصغیر میں میٹرک پاس مسلمان بھی خال خال تھے، قانون کی اعلیٰ ڈگری سے آراستہ و پیراستہ ایک کلین شیو شخص تھری پیس سوٹ، نکٹائی اور انگریزی شوز کے ساتھ چند مسلمانوں کے جس گروہ میں شامل ہوا تھا، 27 جون 2009ء کی تپتی دوپہر میں اس گروہ کا جم غفیر گواہی دے رہا تھا کہ اس شخص نے اپنی ساری زندگی سادگی، منکسر المزاجی، دین سے محبت، راست روی، سیاست میں حوصلے اور اصولوں پر ڈٹے رہتے ہوئے گزاری ہے۔ 1941ء میں مسٹر میاں طفیل محمد ایڈووکیٹ کی حیثیت سے جماعت اسلامی میں شامل ہونے والے شخص کے بارے میں قاضی حسین احمد وہاں موجود ہزاروں افراد کی زبان بن کر کہہ رہے تھے: اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ میاں طفیل محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ساری زندگی تیرے دین کی سربلندی اور اصولوں پر ثابت قدمی کے ساتھ گزاری۔ منصورہ کے لان میں شاید کسی جنازے کا یہ سب سے بڑا اجتماع تھا، جس میں شرکت کے لیے بلوچستان، سندھ، سرحد اور آزاد کشمیر کے علاوہ پنجاب کے دور دراز علاقوں سے بھی ایک بڑی تعداد یہاں پہنچی تھی۔ ان میں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ نامور لوگ بھی تھے اور درویش صفت عام سادہ افراد بھی۔ یہ سب لوگ مرنے والے کی تعریف و توصیف میں تو رطب اللسان تھے لیکن ایک طویل سیاسی اور تنظیمی زندگی گزارنے والے اس شخص سے کسی قسم کا گلہ یا شکوہ کسی زبان پر نہیں تھا۔ وہاں ان کے معتقد اور جوشیلے حامی بھی موجود تھے اور ایسے لوگ بھی جنہیں اس طویل سفر میں کئی بار ان سے اختلاف بھی ہوا ہوگا۔ مگر یہ سب لوگ مرنے والے کے اخلاص، ثابت قدمی اور راست روی پر یک زبان تھے۔ وہ شخص جتنی خاموشی کے ساتھ اسلامی تحریک میں شامل ہوا تھا اتنی ہی آہستگی سے اس کا جنازہ اتنے بڑے مجمع کے سامنے سے اٹھ گیا۔ حالانکہ سینکڑوں لوگ آخری دیدار بھی نہ کرسکے تھے۔
میاں طفیل محمد مرحوم کا مسٹر سے رحمۃ اللہ علیہ تک کا سفر پوری تاریخ ہے۔ 96 سالہ زندگی میں 68 سالہ جماعتی تنظیمی اور سیاسی سفر، ایسا سفر ہے جس کے لاکھوں عینی شاہدین ہیں۔ ان میں بہت سے اس شہادت کے ساتھ اللہ کے حضور پہنچ گئے ہیں جس کا اظہار قاضی حسین احمد مرحوم اور سید منور حسن کررہے تھے۔ تاہم ابھی ایسے لوگ زندہ اور موجود ہیں جو اپنی موت تک اس شہادت (گواہی) کے امین رہیں گے۔
میاں طفیل محمد مرحوم کو میں نے پہلے پہل60 کی دہائی میںدیکھا، باغ بیرون موچی دروازہ میں ہونے والے جماعت اسلامی پاکستان کے سالانہ اجتماع میں جہاں ایک روز قبل حکومتی غنڈوں کی فائرنگ سے جماعت اسلامی کا ایک بے لوث کارکن اللہ بخش شہید ہوا تھا۔ پنڈال میں جگہ جگہ بنے ہوئے چھوٹے اسٹیجوں پر کئی افراد مولانا مودودی کی طبع شدہ تقریر پڑھ رہے تھے۔ لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی کے باعث اور اس اشتعال انگیز فضا میں بھی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے یہ اہتمام کیا گیا تھا۔ پہلے اسٹیج پر مولانا مودودی خود اپنی تقریر پڑھ رہے تھے اور باقی چھوٹے اسٹیجوں پر دیگر مکبرین یہ فریضہ انجام دے رہے تھے۔ ان میں ایک اسٹیج پر سیاہ شیروانی پہنے اور جناح کیپ لگائے میاں طفیل محمد مولانا مودودی کی اُردو تقریر اپنے پنجابی لہجے میں پڑھ رہے تھے انتہائی سنجیدگی مگر سپاٹ چہرے کے ساتھ۔ البتہ تحریر کی مناسبت سے ان کی آواز کبھی دھیمی ہوجاتی اور کبھی مناسب حد تک بلند۔
ان دنوں قلعہ گوجر سنگھ لاہور کی مبارک مسجد میں مولانا مودودی ہر اتوار کی صبح درسِ قرآن دیتے تھے جس میں شہر بھر سے جماعت کے کارکنان، حامی اور اکتسابِ فیض کے شوقین مرد و خواتین شریک ہوتے۔ صبح نو بجے کے قریب شروع ہونے والا یہ درس کوئی گیارہ بجے تک چلتا… جماعت کی لاہور میں موجود تقریباً ساری قیادت اس میں شریک ہوتی۔ درس ختم ہوتا تو میاں طفیل محمد بغیر کوئی وقت ضائع کیے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتے۔ مسجد کے باہر چودھری غلام جیلانی کے قہقہے، یوسف خان کی بلند آہنگ گفتگو، سید اسعد گیلانی کی ریڈیو کے کسی کہنہ مشق صدا کار کی طرح کی پاٹ دار آواز کے ساتھ انور گوندل کی آگے بڑھ بڑھ کر لوگوں سے ملاقاتیں جاری ہوتیں، لیکن میاں صاحب کسی کے پاس نہ ٹھیرتے۔ اپنے واقف کاروں سے ازخود اور ناواقفوں سے ان کی خواہش پر سلام دعا لیتے ہوئے اس تیزی سے نکلتے کہ بیشتر لوگ دیکھتے ہی رہ جاتے۔
اُن دنوں صدر ایوب خان کے خلاف تحریک جاری تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد اپوزیشن جماعتوں میں مایوسی اور ناامیدی کی سی صورت حال تھی۔ ایسے میں تحریک جمہوریت پاکستان (پی ڈی ایم) اور جمہوری مجلس عمل (ڈیک) ایوبی آمریت کے خلاف عوام کو منظم کرنے میں مصروف تھیں ۔ اس سلسلے میں ہماری بستی میں بھی پی ڈی ایم کا ایک جلسہ رکھا گیا جس سے خطاب کے لیے چودھری محمد علی اور مولانا مودودی کے ہمراہ میاں طفیل محمد بھی ہماری بستی میں تشریف لائے تھے۔
جنرل ایوب خان کی سبکدوشی اور ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد عام انتخابات کا اعلان ہوا تو جماعت اسلامی پوری قوت سے میدان میں نکلی۔ یہ سیاسی ہنگامہ خیزی کے عروج کا زمانہ تھا۔ طلبہ، وکلا، سیاسی کارکنوں، مزدوروں، کسانوں، خواتین میں سیاسی تنائو اور کھنچائو کی ایک کیفیت تھی۔ مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں جگہوں پر یہ سیاسی تنائو شدید تھا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب اور سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کا سحر اپنا رنگ دکھا رہا تھا۔ میاں طفیل محمد اُس وقت جماعت اسلامی مغربی پاکستان کے امیر اور مرکزی نائب امیر تھے۔ وہ اپنی اس حیثیت اور لاہور میں موجودگی کے باعث مولانا مودودی کے دستِ راست اور سب سے قریبی اور بااعتماد ساتھی کے طور پر ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ صورت حال یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے جلسے الٹائے جا رہے تھے اور مغربی پاکستان کے گلی کوچوں میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف غلیظ نعرے گونج رہے تھے۔ مغربی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کی زبردست کامیابیوں کے باوجود عوامی سطح پر جماعت اسلامی کو شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی یونین کے انتخابات میں حافظ ادریس اور ان کا پینل جہانگیر بدر کے پینل کو شکست دینے کے باوجود جیل پہنچ چکا تھا۔ مولانا غلام غوث ہزاروی کی قیادت میں علماء کا ایک بڑا گروہ پنجے جھاڑ کر مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ سرحد اور بلوچستان میں بھی شدید مزاحمت تھی۔ یہ حالات مولانا مودودی کے ساتھ ساتھ میاں طفیل محمد کی بھی سیاسی بصیرت اور صبر و ضبط کا امتحان تھے اور وہ پور ی جرأت و ہمت اور استقامت کے ساتھ نہ صرف میدان میں ڈٹے رہے بلکہ مایوسی کے باوجود مشکل حالات کے توڑ کے لیے بھرپور جدوجہد بھی کرتے رہے۔ ان ہی دنوں میاں طفیل محمد کا صدر یحییٰ خان سے ملاقات کے بعد دیا جانے والا وہ بیان بہت متنازع بنا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی آئین ساز اسمبلی جو آئین بنائے گی، وہ اسلامی آئین ہوگا۔ ان انتخابات میں میاں طفیل محمد لاہور کے حلقہ نمبر 4 سے بابائے سوشلزم شیخ رشید کے مقابلے میں امیدوار تھے۔ جماعت کے مقامی کارکنوں نے ان کی انتخابی مہم میں جان لڑا دی۔ خود میاں صاحب اپنے جلسوں میں اسلامی نظام کی برکات، سوشلزم کی خرابیوں اور جماعت کے منشور پر سیر حاصل گفتگو کرتے تھے مگر دوسری جانب کوئی علمی بحث اور عملی پروگرام دینے کے بجائے صرف نعرے تھے۔ ان کا سیاسی قد کاٹھ اور جدوجہد بھی اپنے حریف کے مقابلے میں بڑی تھی مگر نعرے اپنا کام کررہے تھے۔ انتخابی نتائج آئے تو یہ اُس وقت کے ملکی حالات سے بھی پریشان کن تھے۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں فوج کشی، سانحہ سقوط مشرقی پاکستان اور بچے کھچے پاکستان میں بھٹو حکومت کے قیام، بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک اور ایک کمزور اپوزیشن کے ساتھ میاں طفیل محمد نے 1972ء میں جماعت اسلامی کی امارت سنبھالی، تو مولانا مودودی جیسی قدآور علمی و سیاسی شخصیت کے بعد یہ ایک مشکل کام تھا، لیکن لگن، مسلسل محنت اور صبر و استقامت کے باعث بہت جلد انہوں نے اس خلا کو پُر کردیا۔ چونکہ مولانا مودودی کی رہنمائی، معاونت اور سرپرستی انہیں حاصل تھی اس لیے اس کام میں انہیں کوئی زیادہ دِقت پیش نہ آئی۔ یہ شخصی آمریت اور فسطائیت کا دور تھا جس میں میاں طفیل محمد پوری جرأت کے ساتھ کھڑے تھے، چنانچہ انہیں بار بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور ایک موقع پر تو ان کے ساتھ ایسا توہین آمیز سلوک کیا گیا کہ خود مولانا مودودی نے بھی جو تحمل، برداشت اور صبر کی علامت سمجھے جاتے تھے، شدید ترین ردعمل کا اظہار کیا۔ بھٹو حکومت کے آمرانہ اقدامات کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا پاکستان قومی اتحاد بنا تو میاں طفیل محمد اس اتحاد کے 9 ستاروں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے پوری جرأت اور اپنے کارکنوں کی قربانیوں کے ذریعے پی این اے کی تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا۔
1970ء سے 1981ء تک میاں طفیل محمد سے میری ملاقات اور رابطہ اُن کے ایک مداح اور عقیدت مند کے طور پر تھا۔ 1981ء کے بعد بطور صحافی اُن سے بیسیوں بار ملنے کا موقع ملا۔ پریس کانفرنسوں اور تقریبات میں ان کی گفتگو سنی۔ پریس ٹاک میں ان سے سوالات کیے۔ ان کی بہت سی آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ گفتگو میں شریک رہا۔ کچھ انٹرویو بھی کیے۔ ہر بار میں نے انہیں دوٹوک انداز میں گفتگو کرنے والا راست گو، اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے والا باحوصلہ، اسلام، پاکستان اور مولانا مودودی پر کسی قسم کا سمجھوتا نہ کرنے والا شخص پایا۔ جنگ فورم میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی برسی کے موقع پر ہونے والی ایک تقریب میں میاں طفیل محمد کے ساتھ میاں محمد حنیف رامے مرحوم بھی شریک تھے۔ انہوں نے اگرچہ اپنی گفتگو میں مولانا مودودی کی علمی اور دینی حیثیت کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کیا لیکن قیام پاکستان کی جدوجہد میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے کردار پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ میاں طفیل محمد کی باری آئی تو انہوں نے شدید الفاظ میں اس نقطہ نظر کو مسترد کیا اور اپنے مؤقف کی حمایت میں دلائل کے انبار لگا دیے۔
جس پریس بریفنگ میں میاں طفیل محمد نے جماعت اسلامی کی آئندہ مدت کی امارت سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا میں نے ان سے سوال کیا کہ جماعت کے ارکان اور عہدیدار شوریٰ کے فیصلوں کے پابند ہوتے ہیں، اگر آپ کی درخواست کو شوریٰ نے قبول نہ کیا تو آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ میاں صاحب نے کہا کہ میں جماعت اسلامی نہیں چھوڑ رہا صرف امارت کی ذمہ داری سے دست کش ہو رہا ہوں، مجھے امید ہے کہ شوریٰ میری معذرت کو قبول کرے گی۔
جماعت اسلامی کی امارت سے دست بردار ہونے کے بعد صحت کی خرابی کے باوجود میاں طفیل محمد آرام سے نہیں بیٹھ گئے بلکہ انہوں نے بہت بھرپور قسم کی صحت مند سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ادارہ معارف اسلامی کی نگرانی، مساجد کمیٹی کی سربراہی کے علاوہ انہوں نے اپنا باقی وقت مطالعہ اور لکھنے میں صرف کیا۔ وہ اخبارات کا مطالعہ بڑی باریک بینی سے کرتے۔ کسی اخبار میں وہ دین، سیاست، جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے بارے میں کوئی وضاحت طلب بات دیکھتے تو فوراً اخبار کو خط لکھتے جس میں تاریخ اور واقعات کی درستی، اغلاط کی تصحیح اور مبہم باتوں کی وضاحت کردیتے۔ بعض اوقات اخبارات میاں صاحب کے ان خطوط کو باقاعدہ مضمون کی شکل میں شائع کردیتے اور بعض اوقات متعلقہ کالم نگار اپنے کالم میں وضاحتی خط کے طور پر شامل کرلیتے تھے۔
امارت سے سبکدوش ہونے کے بعد میاں صاحب عام تقریبات اور اجتماعات میں بطور مقرر شرکت سے گریز کرتے اور اپنا زیادہ وقت تصنیف و تالیف میں صرف کرتے رہے۔ وہ عبادات کی جانب زیادہ توجہ دینے لگے، چنانچہ اپنی زندگی کے آخری رمضان میں اس پیرانہ سالی کے باوجود انہوں نے پوری نماز تراویح باجماعت اور کھڑے ہوکر ادا کی۔ ضعیفی اور کمزور نظر کے باوجود وہ تمام نمازیں مسجد میں آکر ادا کرتے۔ برین ہیمبرج کے جان لیوا حملے سے قبل انہوں نے مغرب اور عشاء تک کی اپنی آخری نمازیں مسجد میں ادا کیں۔
ان کی سادگی بھی ایک مثال تھی۔ ایک خاتون صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ شادی کے بعد ان کے تمام کپڑے ان کی اہلیہ محترمہ سیتی تھیں، صرف شیروانی درزی سے سلوائی جاتی تھی۔
ایک ایسا شخص جس کی سادگی میں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا رنگ ہو، جس کی عبادات میں خشوع و خضوع کا عنصر غالب ہو، جس کی جرأت و استقامت کے دوست دشمن سب قائل ہوں، جو تمام آسائشیں چھوڑ کر ایک مشکل زندگی گزارنے پر برضاو رغبت تیار ہوا ہو، جس نے کشف المحجوب جیسی اعلیٰ پائے کی کتاب کا ترجمہ کیا ہو، جو مرتے دم تک اپنے مشن پر ڈٹا رہا ہو اور جس کی دین سے وابستگی، مقصد سے لگن اور اصولوں پر ڈٹے رہنے کی اس کی نمازِ جنازہ میں شریک ہزاروں افراد شہادت دے رہے ہوں، اُس کا اِس دینا سے اٹھ جانا کم سے کم الفاظ میں بھی قومی و ملّی نقصان ہے۔