۔ 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکا کے بعد پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سونپ دیا، جن کی پارٹی نے مغربی پاکستان میں انتخابات میں سب سے زیادہ 81 نشستیں حاصل کی تھیں اور سقوطِ ڈھاکا کے بعد اب مغربی پاکستان ہی بچا کھچا کُل پاکستان تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور دنیا کی تاریخ میں ایک سویلین نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار حاصل کیا۔ بھٹو نے مکمل اختیار حاصل کرتے ہی سب سے پہلے جنرل (ر) آغا محمد یحییٰ خان کو کھاریاں کے قریب بنّی (Banni) کے مقام پر نظربند کردیا جہاں کسی کو بھی یحییٰ خان سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔ یحییٰ خان کی پنشن روک دی گئی۔ یحییٰ خان کے بیٹے علی یحییٰ کی ملازمت بھی بھٹو کے حکم پر ختم کردی گئی۔ اپنے بیانِ حلفی میں یحییٰ خان کا کہنا تھا کہ ان کی نظربندی بدنیتی پر مبنی تھی۔ بھٹو نے ان کو صرف اس لیے نظربند کیا تھا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سقوطِ ڈھاکا اور قومی اسمبلی میں بھٹو کے شرکت نہ کرنے کے عزائم، فوجی جرنیلوں کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ اور ان کی سازشوں کے بارے میں اصل حقائق عوام کے سامنے آجائیں۔ یحییٰ خان نے اس بیانِ حلفی میں یہ بھی کہا کہ ان کے خلاف ایک مہم چلائی گئی جس کے ذریعے ان کی کردار کشی کی گئی۔ یحییٰ خان کے حقیقی بھائی آغا محمد علی کو بھی جو اسپشل پولیس کے انسپکٹر جنرل تھے، مختلف جھوٹے مقدمات میں پھنساکر بہت تنگ اور پریشان کیا گیا۔ بھٹو کی ہدایت پر ٹیلی وژن، ریڈیو اور اخبارات میں انہیں انتہائی بدکار اور عیبی مشہور کیا گیا۔
قارئین کی یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ بھٹو نے 1977ء تک اپنے دورِ حکومت میں یحییٰ خان کو رہا نہیں کیا بلکہ مسلسل حراست میں رکھا۔ جب ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کے خلاف حزبِ اختلاف کی مہم کے عروج پر اور کئی شہروں میں جزوی مارشل لا لگنے کے بعد بھٹو حکومت کے خلاف کارروائی کرکے 1977ء میں انہیں اقتدار سے محروم کردیا، اس کے بعد 1978ء میں یحییٰ خان کی نظربندی ختم کرکے ان کا بیانِ حلفی لیا گیا تھا۔ یحییٰ خان کے بیانِ حلفی کے اہم اقتباسات کے کچھ حصے ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں جن میں چشم کشا واقعات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔
ضمیمہ نمبر10۔ یحییٰ خان کا بیانِ حلفی
1۔ جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے درخواست گزار کو اقتدار سونپا تو مسٹر ذوالفقار علی بھٹو درخواست گزار کے پاس آئے اور تجویز پیش کی کہ میں‘ ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی بازو بن جاؤں اور بدستور پاکستان کی مسلح افواج کا سربراہ رہوں۔ مسٹر بھٹو نے کہا کہ اس طریقے سے ہم دونوں اس ملک پر پچیس سال تک حکومت کرسکیں گے۔ درخواست گزار نے اس تجویز کو حقارت سے ٹھکرادیا۔
3۔ اور یہ کہ درخواست گزار شکار کے لیے لاڑکانہ جایا کرتا تھا۔ جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کیا تو مسٹر اسکندرمرزا نے، مسٹر بھٹو کو وزیر کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کرنے کی سفارش کی تھی۔ اُس وقت کے وزیر خزانہ جناب مظفر علی قزلباش نے ایک مرتبہ درخواست گزار کو بتایا تھا کہ اعلیٰ منصب پر فائز ایک غیر ملکی شخصیت نے کہا تھا کہ مسٹر بھٹو حد سے زیادہ منصب و جاہ پسند شخص ہیں جس سے ان کی نفسیات کا پتا چلتا ہے، اور اگر انھیں دویا تین برسوں کے اندر اقتدار حاصل نہیں ہوا تو وہ پاگل ہوجائیں گے۔
4۔ اور یہ کہ چین کے وزیراعظم مسٹر چو این لائی نے درخواست گزار کو ایک پیغام بھیجا کہ مسٹر بھٹو نے ان سے (چینی وزیراعظم سے) رابطہ قائم کرکے کہا کہ وہ ان (مسٹر بھٹو) کو چین آنے کی دعوت دیں اور اگر درخواست گزار (یحییٰ خان) اجازت دیں تو چین مسٹر بھٹو کو مدعو کرے گا۔ درخواست گزار نے اس پر مسٹر بھٹو کو بلاکر کہا کہ اگر وہ چین جانا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے تھا کہ مجھ سے کہتے لیکن انھوں نے اس کے لیے جو طریقہ اختیار کیا اس سے پاکستان کے سیاسی حالات کے بارے میں باہر کے لوگوں کو غلط تاثر ملا۔
5۔ مسٹر بھٹو جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم کے ہمراہ چین گئے اور واپسی پر انہوں نے عوام کو اس بارے میں بہت غلط تاثر دیا جس سے ہمارے دشمن مشتعل ہوسکتے تھے۔
8۔ اور یہ بات درخواست گزار کے علم میں تھی کہ مسٹر بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے ارکان کا کراچی میں ایک خفیہ اجلاس بلایا جس میں انھوں نے ان ارکان سے یہ حلف لیا کہ وہ قومی اسمبلی کے ڈھاکا میں ہونے والے اجلاس میں شریک نہ ہوں۔ انھوں نے کھلے عام یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جو بھی ڈھاکا جائے گا اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور اسے واپسی کا ٹکٹ لے کر نہیں جانا چاہیے۔ تاہم پھر بھی درخواست گزار نے مسٹر بھٹو کو بلاکر تنبیہ کی تھی کہ وہ اس قسم کی باتیں نہ کیا کریں۔
9۔ اور یہ کہ مسٹر بھٹو کی اس دھمکی کی وجہ سے کہ جو ڈھاکا جائے گا اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، قومی یکجہتی کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا، اور ان کے رویّے سے مشرقی پاکستان میں صورت حال خراب ہوگئی اور یہ قانونی حکم کے ڈھانچے کی خلاف ورزی تھی۔ بھٹو کی یہ دھمکی بھی مشرقی پاکستان میں بغاوت کا ایک سبب بن گئی۔ یہ مسٹر مجیب کے چھے نکات سے کم خطرناک بات نہیں تھی ا ور اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ملک کے دونوں بازو علیحدہ ہوجائیں۔ بھٹو اقتدار کے حصول کی خاطر اپنی خواہشات کا اس قدر غلام تھا کہ اس نے ایک ملک میں دو وزرائے اعظم مقرر کرنے کی خطرناک تجویز پیش کی جس کی درخواست گزار نے سختی سے مذمت کی۔ کراچی میں مسٹر بھٹو کی ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ والی تقریر کے جواب میں مجیب نے 12 مارچ 1971ء کو ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان کے اتحاد اور استحکام کا اعادہ کیا۔
10۔ مسٹر بھٹو نے تجویز پیش کی تھی کہ اکتوبر 1970ء میں ہونے والے انتخابات کو ملتوی کردیا جائے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’جنرل صاحب میں مجیب کو جانتا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے چھے نکات حتمی نہیں اور ان پر بات ہوسکتی ہے، لیکن وہ جھوٹا ہے اور کبھی ان پر سودے بازی نہیں کرے گا‘‘۔ تاہم اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس عبدالستار کی واضح ہدایت پر اکتوبر کے انتخابات ملتوی کردیے گئے۔ مجیب‘ درخواست گزار پر اسمبلی کا اجلاس جلد از جلد طلب کرنے پر زور دے رہا تھا کیونکہ یوم شہدا آنے والا تھا اور اس موقع پر طلبہ شدید ہنگامہ کھڑا کرسکتے ہیں۔ مسٹر بھٹو اسمبلی کے اجلاس کا التوا چاہتے تھے اور اس سے پہلے مجیب سے بات چیت کرنا چاہتے تھے، جس کا جواب مجیب نے یہ دیا کہ چونکہ یوم شہدا بہت قریب ہے اس لیے اسمبلی کا اجلاس فوراً منعقد کیا جائے۔ مسٹر بھٹو نے درخواست گزار سے اس سے پہلے انتخابات کے التوا کی تجویز پیش کی تھی جبکہ مجیب اس معاملے پر کوئی مذاکرات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
11۔ اور یہ کہ گورنر مسٹر احسن نے بھی درخواست گزار کو بتایا تھا کہ صورتِ حال بہت سنگین ہوگئی تھی کیونکہ بنگالی بہت طیش میں تھے، اور اگر اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنا ہے تو اس کا اجلاس بلانے کی نئی تاریخ کا اعلان بھی اس کے ساتھ ہونا چاہیے۔ درخواست گزار نے بھی اس صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے گورنر کو ملاقات کے لیے بلایا تھا۔ اس ملاقات میں گورنر احسن نے بتایا تھا کہ بنگالی اسمبلی کے اجلاس کے کسی التوا پر راضی نہیں ہوں گے۔ اگر اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا ہے تو وہ اسمبلی میں نہیں جائیں گے اور اس طرح لوگوں کی اکثریت اسمبلی سے باہر رہے گی۔ درخواست گزار نے اس ملاقات میں شریک افراد سے درخواست کی کہ وہ مجیب کو اس صورت حال سے مطلع کریں۔
12۔ جیسے ہی اسمبلی کے اجلاس کے التوا کا اعلان ہوا، احتجاج انتہائی پُرتشدد ہوگئے۔ بنگالیوں نے فوج کو خوراک اور راشن فراہم کرنا بند کردیا۔ بنگالیوں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ فائرنگ کے کچھ واقعات بھی رونما ہوئے، ہمارے کچھ سپاہی بھی مارے گئے اور فوجی کارروائیاں محدود ہوکر رہ گئیں۔
16۔ اور یہ کہ درخواست گزار نے مغربی پاکستان کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی لیکن مسٹر بھٹو اس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ انھوں نے یہ کہا کہ میں ان گندے انڈوں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا اور صرف درخواست گزار کے ساتھ تنہائی میں ملاقات کروں گا۔
23۔ جنرل گل حسن فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف اور جنگ کے دنوں میں انتظامی امور کے ذمے دار تھے۔ انھوں نے اور ایئر مارشل رحیم نے جو فضائیہ کے سربراہ تھے، بھٹو کے ساتھ مل کر سازباز کی۔ درخواست گزار صدر تھا اور عملی طور پر افواج کا براہِ راست کمانڈر نہیں تھا جبکہ یہ دونوں تھے۔
24۔ اور یہ کہ جنگ کا خاطر خواہ نتیجہ مسٹر بھٹو کی سازش کی وجہ سے برآمد نہ ہوسکا۔ درخواست گزار نے ایئر مارشل رحیم سے پوچھا تھا کہ وہ پانچ یا چھے ماہ سے جنگ کے بارے میں منصوبہ بندی کررہے تھے لیکن انھوں نے ابھی تک مغربی پاکستان سے کوئی بڑا حملہ نہیں کیا کیونکہ برّی فوج فضائی تحفظ کے بغیر جنگ نہیں لڑسکتی۔ اس کے جواب میں ایئر مارشل رحیم نے کہا تھا کہ ان کے پاس ہوائی جہاز نہیں ہیں اور دوسر ے وہ ایندھن کی کمی سے بھی دوچار ہیں۔ بعد میں درخواست گزار کے علم میں یہ بات آئی کہ مسٹر بھٹو نے ایئر مارشل رحیم سے کہا تھا کہ مغربی محاذ پر جنگ ہار جائیں۔
34۔ اور یہ کہ مسٹر بھٹو نے جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان کو فوجی ملازمت سے برطرف کردیا تھا کیونکہ یہ دونوں بھٹوکے ساتھ سازش میں شریک تھے اور بھٹو کو زک پہنچا سکتے تھے۔ جنرل گل حسن چاہتے تھے کہ ہنگاموں سے نمٹنے کے لیے بھٹو فوج کو استعمال نہ کریں، لیکن بھٹو نے فوج کو طلب کیا جس کی گل حسن نے مخالفت کی۔ اس پر مسٹر بھٹو نے لاہور سے کھر کو طلب کیا اور جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان کو کھر کے ساتھ لاہور روانہ کردیا جہاں سے انھیں سفیر بناکر بیرون ملک روانہ کردیا گیا۔
40۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد میرے پاس اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں رہ گیا تھا کہ مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کردوں۔ چنانچہ میں نے اقتدار مسٹر بھٹو کو منتقل کردیا اور انھوں نے دس یا بارہ دن کے بعد درخواست گزار کو گرفتار کرکے بنّی (Banni) کے مقام پر قید کردیا۔ درخواست گزار نے کسی اور جماعت کو اقتدار اس لیے منتقل نہیں کیا کیونکہ کوئی اور جماعت اکثریتی جماعت نہیں تھی۔ سقوطِ ڈھاکا کی ذمہ داری مجیب اور بھٹو دونوں پر عائد ہوتی ہے، مگر مجیب سے زیادہ بھٹو اس سانحے کے ذمہ دار ہیں۔
47۔ اور درخواست گزار یہ کہنا چاہتا ہے کہ ایک مرتبہ درخواست گزار جب حمودالرحمن کمیشن کے سامنے پیش ہوا تھا وہ زیر حراست تھا۔ اس کے اہل و عیال کو ہراساں کیا جا رہا تھا اور بیان کے وقت یحییٰ بختیار موجود رہتا تھا تاکہ ہر بات کی اطلاع مسٹر بھٹو کو دیتا رہے۔ درخواست گزار نے اپنے حلف نامے میں وہ بیان بھی شامل کیا ہے جو اس نے حمود الرحمن کمیشن کے سامنے دیا تھا۔
48۔ اور یہ کہ ائیر مارشل رحیم نے پوچھنے پر یہ انکشاف کیا تھا کہ پاک فضائیہ کو آلات کی قلت کا سامنا تھا اور اس وجہ سے پاک فضائیہ 1971ء کی جنگ کے دوران برّی فوج کو مناسب اور مؤثر مدد فراہم کرنے کی استعداد سے قاصر تھی۔ بعد میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ وہ مسٹر بھٹو کے ساتھ سازش میں شریک تھے۔ درحقیقت پاکستان کی مسلح افواج مسٹر بھٹو کی سازشوں کی وجہ سے فوجی نقطہ نظر سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی تھی کیونکہ ان سازشوں کی وجہ سے مغربی پاکستان کے جنگی محاذ پر مسلح افواج کمزور اور مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔
51۔ اور یہ کہ ایک طرف تو بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو فوراً رہا کردیا جو ہمارے 90 ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں ترپ کے پتے کی اہمیت رکھتا تھا، اور دوسری طرف بھٹو کا یہ کہنا تھا کہ مجیب کو پھانسی دے دی جائے اور اس کی پھانسی کی تاریخ، اس کو پھانسی دیے جانے سے بہت پہلے کی بتائی جائے۔
20۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے وحشت انگیز احتجاجی کارrوائیاں جاری رکھیں، جبکہ مغربی پاکستان میں اکثریتی جماعت نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے سلسلے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا اور بالآخر 28 فروری 1971ء کو اس نے یعنی پا کستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔اس کے ساتھ ہی مغربی پاکستان کی دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں نے بھی 3 مارچ 1971ء کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بارے میں اپنے تذبذب کا اظہار کیا۔ اس صورت حال میں جبکہ تقریباً آدھے نمائندے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کررہے تھے، میرے پاس اور کوئی متبادل راستہ نہ تھا کہ بہت تھوڑے سے عرصے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا جائے تاکہ سیاسی رہنماؤں کے درمیان کسی تاریخ کے بارے میں اتفاقِ رائے ہوجائے اور اس وقت تک مجھے بھی معلوم ہوجائے گا کہ ان حالات میں کوئی اور فیصلہ کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
28۔ 25مارچ کی رات کو فوج اپنی بیرکوں سے نکلی اور امن و امان کی بحالی کے لیے کارروائیاں شروع کیں۔ میں نے خصوصی ہدایات جاری کی تھیں کہ ضرورتاً طاقت کا کم سے کم استعمال کیا جائے اور شیخ مجیب سمیت تمام باغی عوامی لیگی رہنماؤں کو گرفتار کرلیا جائے۔ میں نے خاص طور پر ان سے کہا تھا کہ شیخ مجیب اور دوسرے رہنماؤں کو جسمانی طور پر کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ شیخ مجیب اور ڈاکٹر کمال حسین کے سوا تمام دیگر رہنما فرار ہوکر بعد میں ہندوستان کے شہر کلکتہ میں پائے گئے۔ ڈھاکا میں کالجوں کے ہوسٹلوں اور یونیورسٹی سے مشین گنوں سے فائرنگ کی گئی، حتیٰ کہ لڑکیوں کے ہوسٹلوں سے بھی فوج پر فائرنگ کی گئی۔ حالانکہ اُن دنوں سارے کالج اور یونیورسٹی بند تھے اور کوئی باقاعدہ طلبہ کالجوں اور یونیورسٹی کی عمارتوں میں موجود نہیں تھے، لیکن ان عمارتوں میں مسلح باغیوں کے گروہ در گروہ بھاری اسلحہ مشین گنوں، گولہ بارود، خودکار ہتھیاروں سے لیس وہاں موجود تھے جو فوج پر فائرنگ کی بوچھاڑ کررہے تھے۔ بعد میں ان عمارتوں سے جو تعلیم کے گہوارے تھے ہتھیاروں، گولہ بارود، کارتوس اور ہر قسم کے اسلحہ کے انبار برآمد ہوئے۔
26مارچ 1971ء کی صبح کو پولیس، مشرقی پاکستان رائفلز اور مشرقی بنگال رائفلز کے تمام دستوں نے بغاوت کردی اور تمام اسلحہ اور گولہ بارود اپنے قبضے میں لے لیا، اور سب سے پہلے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اپنے افسروں اور کمانڈروں اور ان کے اہل و عیال کو غیر مسلح اور نہتی حالت میں رات کو سوتے ہوئے اچانک حملہ کرکے بے دردی سے ذبح کردیا۔ ہماری فوج کو اتنے بڑے پیمانے پر مسلح بغاوت کا سامنا تھا۔ یہ کوئی عام امن و امان کا مسئلہ نہیں تھا۔ ہمیں بہت بڑے پیمانے پر ملک گیر مسلح فوجی بغاوت کا مقابلہ کرنا پڑرہا تھا۔ فوج نے ڈھاکا میں باغیوں پر قابو پانے اور تخریب کاروں کے فرار ہونے کے بعد ان کا پیچھا کرتے ہوئے اندرون ملک کا رخ کیا تو اسے مزید اور سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اندرون ملک مکتی باہنی کے بھیس میں ہندوستانی مداخلت کار اسلحہ اور گولہ بارود سمیت باغیوں کے ساتھ پاک فوج کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دے رہے تھے۔
29۔ ہمیں یہ محسوس ہونے لگا کہ ہندوستانی حملے کے خلاف برابر کی فوجی قوت مسئلے کا حل نہیں۔ فائرنگ کی بہت زیادہ قوت بھی درکار نہیں تھی۔ اس صورت حال کے پیش نظر ہمیں افرادی قوت کی ضرورت تھی۔ ہم نے مغربی پاکستان سے فوجی کمک روانہ کرنی شروع کردی۔ ہوائی جہازوں کے ذریعے فوج اور سامان کی کمک منگوانا، فوجی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کرنا ایک تاریخی کارنامہ تھا۔ دنیا اس طریقے پر حیران و ششدر تھی کہ صرف چند ہفتوں میں ہم نے مزید دو ڈویژن فوج سیلون کے راستے لمبے اور مشکل گھیر والے فضائی ذریعے سے مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان پہنچائی۔ اس کارنامے کو سرانجام دینے میں ہمارے منصوبہ سازوں اور تمام اداروں اور ایجنسیوں کی جن میں پی آئی اے، کے ایس سی، ریلوے اور تمام دوسری سول ایجنسیاں شامل ہیں، جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔