اقتدار پرست سیاست داں اور ’’ کرپشن کا کینسر‘‘

انتخابات کے التوا کے خدشات اور افواہوں کے باوجود انتخابی عمل جاری ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ پارلیمان کی رکنیت کی اہلیت کے بارے میں دستور کی دفعات 62 اور 63 کے مطابق امیدواروں کی اسکروٹنی کا عمل بھی جاری ہے۔ یہ سوال بھی موجود ہے کہ دفعہ 63,62 پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل ہوگا کہ نہیں؟ قومی سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ ریاست کے تمام ستون اپنی کارکردگی کی وجہ سے متنازع ہوچکے ہیں۔ انتخابات کی شفافیت پر بھی سوالات موجود ہیں۔ اس تناظر میں یہ سوال موجود ہے کہ کیا انتخابات کے ذریعے قوم کو اچھی قیادت مل سکتی ہے؟
اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ پاکستان ’’طرزِ حکمرانی‘‘ کے بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ یعنی پاکستان کا نظام حکومت مخلوقِ خدا کو عدل و انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اس اتفاق کی پشت پر پاکستان کی تاریخ کا سیاسی سفر ہے۔ یہ سفر 1947ء سے شروع ہوا، دس برس بعد ملک میں پہلا مارشل لا اکتوبر 1958ء میں نافذ کردیا گیا، اس کے بعد 1969ء،1977ء اور 1999ء میں مزید تین مارشل لا نافذ کیے گئے۔ فوجی حکمرانی کو مارشل لا نافذ کرنے والے جرنیلوں نے بھی ’’جائز‘‘ حکومت نہیں سمجھا، اس لیے مختلف قسم کے سیاسی تجربات کیے گئے جن میں ایوب خان کے پہلے مارشل لا کے تحت کیے جانے والے ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے تجربے اور آخری مارشل لا نافذ کرنے والے فوجی آمر جنرل (ر) پرویزمشرف کی ’’کنٹرولڈ جمہوریت‘ُ بھی شامل ہے۔ ان تجربات کی ناکامی نے قومی سطح پر طے شدہ اس اصول کی پاسداری پر مجبور کردیا کہ سیاست دانوں ہی کو حکومت کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ لیکن آج سیاسی حکومت اور کرپشن متوازی اصطلاح اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان کی قومی زندگی ’’کرپشن کے کینسر‘‘ کے مرض میں مبتلا ہے ۔ چار مارشل لاؤں کے تجربات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ فوجی حکمرانی قومی زندگی کے امراض کا علاج ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ سیاسی حکمرانوں میں بہت سی خرابیاں ہوں گی اور تھیں، لیکن کم از کم تاریخِ پاکستان کے ابتدائی دس برسوں کے حکمرانوں کے اوپر بدعنوانی، رشوت ستانی اور قومی خزانے میں خیانت کے الزامات عائد نہیں کیے گئے تھے۔ بدعنوانی، رشوت اور کرپشن کے کینسر کا آج جو شہرہ ہے وہ فوجی حکمرانی اور مارشل لا کی دین ہے۔ آمریت نے بزدل، ضمیر فروش اور مفاد پرست عناصر کی حوصلہ افزائی کی اور اصول پسند سیاست دانوں کے راستے میں رکاوٹ ڈالی۔اس عمل کو جنرل (ر) پرویزمشرف نے اپنے دورِ حکمرانی میں عروج پر پہنچادیا جب قومی احتساب کا ادارہ بدعنوان سیاست دانوں کی ڈرائی کلیننگ فیکٹری بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’احتساب‘‘ کے بارے میں ریاستی اداروں کو غیرمعمولی اختیارات دے دیے جانے کے باوجود آج تک بدعنوانی کی شرح میں کمی واقع ہونے کی کوئی صورت بنتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ جب ہم اپنے ملک میں جرائم اور کرپشن کی بھرمار دیکھتے ہیں، اس کے ساتھ فوج، پولیس اور تفتیشی اداروں کے ناقابلِ احتساب اختیارات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کا وہ قول یاد آجاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’پہلا پتھر وہ مارے جو خود پاک دامن ہو۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خود جرائم اور بدعنوانی کی گندگی میں لتھڑے ہوئے ہوں وہ معاشرے اور نظام حکومت کو پاک و صاف نہیں کرسکتے۔ آج ہمارا معاشرہ ’’کرپشن کے کینسر‘‘ کا مریض ہے۔ اس مرض کا علاج سطحی طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ ’’بری طرزِ حکمرانی اور کرپشن‘‘ کے اسباب کا سطحی تجزیہ ہمیں غلط علاج کی طرف لے جائے گا۔ بری طرزِ حکمرانی کا سب سے بڑا سبب برطانوی سامراجیت سے ورثے میں ملنے والا نظام ریاست ہے۔ پاکستان دو قومی نظریے یعنی اسلامی تہذیب کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا تھا۔ پاکستان کسی گروہ یا طبقے نے جنگوں کے ذریعے فتح کرکے حاصل نہیں کیا ہے۔ پاکستان برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو اللہ رب العزت کی طرف سے دیا جانے والا تحفہ ہے۔ اس لیے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے نعرہ لگایا تھاکہ ’’پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لاالہٰ الااللہ‘‘ اس خواب کے ساتھ کہ غلامی کی تاریک رات ختم ہوگی اور آزادی کا نیا سویرا طلوع ہوگا اور اللہ کا دین نافذ ہوگا۔ لیکن چونکہ ریاست و حکومت کے تمام ستون اور ادارے دورِ غلامی کے تربیت یافتہ تھے اس لیے انگریزی دور کا ورثہ جاری رہا جس کی ذمے داری بیورو کریسی پر عائد ہوتی ہے۔ سیاسی قیادت کی اکثریت بھی جاگیرداروں اورسرمایہ داروں پر مشتمل تھی جن کے مفادات استعماری و سامراجی نظام سے وابستہ تھے۔ سامراجی اور استعماری نظام کو عامۃ المسلمین میں آزادی کے جذبات اپنے مفاد پرستانہ نظام کے لیے خطرہ محسوس ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکمراں طبقے نے آئین سازی کے راستے میں رکاوٹ ڈالی، اور جب آئین بن گیا تو اسے کاغذ کے چیتھڑے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی۔ اس طرز حکمرانی نے ایسا فساد پیدا کردیا کہ آج نئی نسل اپنے ملک اور قوم کے مستقبل سے مایوس ہوچکی ہے۔ مایوسی سب سے بڑی بیماری ہے۔ قومی امراض کے اصل علاج کی طرف رجوع مفاد پرست اور غیر ملکی غلامی کے عادی حکمرانوں اور ان کے اداروں کو قبول نہیں ہے۔ رہی سہی کسر دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جاری نام نہاد امریکی جنگ کے کرائے کے سپاہی بننے کے فیصلے نے پوری کردی ہے۔ پاکستان دشمنی کو پاکستان کے مفاد کا نام دے دیا گیا ہے۔ لاقانونیت کو قانون قرار دے دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سیاست نے مفاد پرستی سے کرپشن تک کا سفر طے کرلیا ہے۔

علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی