گلوبل وارمنگ سے سبزیاں ناپید ہوجائیں گی

پروسیڈنگزآف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے اس صدی کے آخر تک کرۂ ارض کا اوسط درجہ حرارت چار درجے سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا، جس سے پوری دنیا میں سبزیوں کی کاشت میں ایک تہائی کمی واقع ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق عالمی تپش میں اضافے سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا جو پانی کی قلت سے دوچند ہوجائے گا۔ اس سے دنیا کے کئی ممالک میں خوراک کی شدید قلت واقع ہوجائے گی۔ سروے کے مطابق جنوبی ایشیا، افریقا (جزوی) اور جنوبی یورپ اس سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ پہلے خیال تھا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے سے زراعت بڑھ سکتی ہے، لیکن اب کہا گیا ہے کہ یہ اضافہ دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے منفی ہوجائے گا۔ اس طرح پانی کی فراہمی سب سے زیادہ متاثر ہوگی۔ ماہرین نے کہا ہے کہ اگر ہم نے معاملات ایسے ہی چلنے دیئے اور کوئی عمل نہ کیا تو سبزیوں کی پیداوار میں عالمی سطح پر ڈرامائی کمی واقع ہوگی۔ ایک اور مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ گرمی میں اضافہ مکئی کی کاشت کو شدید نقصان پہنچائے گا جو اس وقت عالمی سطح کی ایک اہم زرعی جنس بھی ہے۔
ماہرین نے ایسی فصلوں اور سبزیوں پر زور دیا ہے جو بلند درجہ حرارت برداشت کرتے ہوئے بہتر پیداوار دے سکیں، بصورتِ دیگر آج کی سبزیاں کل بہت مہنگی اور ناپید ہوجائیں گی۔ تاہم یہ تمام پیش گوئیاں اس صدی کے اختتام تک کی ہیں اور اُس وقت تک ہمارے پاس غور اور تحقیق کے لیے خاصا وقت ہے۔

ویڈیو گیمز کی لت کو ذہنی بیماری تسلیم کرلیا گیا

عالمی ادارۂ صحت نے پہلی مرتبہ الیکٹرانک گیمز یا ویڈیو گیمز کھیلنے کی لت کو باقاعدہ طور پر ایک ذہنی بیماری تسلیم کرلیا ہے۔
ادارے نے ’گیمنگ ڈس آرڈر‘ کو بیماریوں کی تازہ ترین فہرست میں شامل کیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ایسی فہرست اس سے قبل 1992ء میں شائع کی گئی تھی۔ ویڈیو گیمز بنانے والی صنعت نے ان ثبوتوں کو چیلنج کیا ہے جن کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ معترضہ اور غیر حتمی ہیں۔ تاہم طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اگرچہ زیادہ تر گیمرز خود کو یا دیگر افراد کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جنھیں ان گیمز کی لت لگ جاتی ہے اور ان کا علاج کیا جانا چاہیے۔ اس بیماری کی علامتوں میں طویل دورانیے تک گیمز کھیلنا، گیمز کو دیگر معمولاتِ زندگی پر ترجیح دینا، منفی اثرات کے باوجود گیمنگ میں اضافہ شامل ہیں۔
بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے اسنوکر کے سابق عالمی چیمپئن نیل رابرٹسن نے اعتراف کیا کہ ایک زمانے میں انھیں بھی ویڈیو گیمز کی لت لگی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہوتا یہ ہے کہ آپ کو پتا ہی نہیں چلتا کہ 12 گھنٹے گزر گئے ہیں یا 14۔ پلک جھپکتے میں وقت گزر جاتا ہے۔ مجھے شدید لت لگ گئی تھی اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ میں کئی برس تک اس سے انکار کرتا رہا اور کہتا تھا کہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔ یہ بہت اہم ہے، جبکہ میں اصل مسئلے سے نمٹنے کی کوشش نہیں کررہا تھا‘‘۔ برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پہلے ہی گیمنگ کی لت کا علاج نجی سطح پر کیا جارہا ہے، تاہم عالمی ادارۂ صحت کے اس فیصلے کے بعد اب برطانیہ میں اس لت کا شکار افراد سرکاری خرچے پر علاج بھی کروا سکیں گے، تاہم اس کے لیے انھیں دکھانا ہوگا کہ کم از کم ایک برس کے لیے اس لت کے اُن کی ذاتی زندگی اور تعلیمی یا ملازمتی معاملات پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں گیمنگ کی لت سے نمٹنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں۔ جنوبی کوریا میں حکومت نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے رات بارہ بجے سے صبح چھے بجے کے درمیان ویڈیو گیمز کھیلنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ جاپان میں کھلاڑی اگر مقررہ وقت سے زیادہ ویڈیو گیمز کھیلیں تو انھیں خبردار کیا جاتا ہے، جبکہ چین میں انٹرنیٹ کمپنی ٹینسینٹ نے بچوں کے لیے مقبول گیمز کھیلنے کی مدت مقرر کی ہوئی ہے۔ لیکن پاکستان اور پاکستانیوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ ہے۔

رات گئے تک جاگنا وجۂ موٹاپا

رات کو دیر تک جاگنے کے عادی افراد موٹاپے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ امریکہ کی نارتھ ویسٹرن میڈیسن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت مند فرد کے لیے 7 سے 8 گھنٹے کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے مگر نوجوانوں میں رات گئے تک جاگنے کے نتیجے میں نیند کی کمی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ رات گئے تک جاگنے کے نتیجے میں لوگ ایسی غذائیں کھانے لگتے ہیں جو جسم کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتیں بلکہ موٹاپے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح نیند کی کمی چڑچڑا پن، ذہنی توجہ مرکوز نہ کرنے اور ڈپریشن کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ تاہم محققین کا کہنا تھا کہ رات گئے سونے سے جسم میں کورٹیسول نامی ہارمونز کی سطح بڑھتی ہے جو کہ جسمانی وزن میں اضافے کی چند بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ رات گئے تک جاگنے والے عام طور پر صبح پونے 4 بجے تک سونے اور صبح پونے 11 بجے تک جاگنے کے عادی تھے، یعنی ناشتا دوپہر میں، کھانا سہ پہر میں، جبکہ رات کا کھانا 10 بجے کے بعد کھاتے تھے۔ محققین نے بتایا کہ کھانے اور سونے کے اوقات جسمانی وزن کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔