نام کتاب: درست اردو
مصنف: پروفیسر امان اللہ خاں آسی ضیائی رام پوری
صفحات: 128 ، قیمت 135 روپے
ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ لاہور
042-35432476, 35414677
www.imislami.org
ای میل: imislami1979@gmail.com
تقسیم کنندہ: مکتبہ معارف اسلامی منصورہ،
ملتان روڈ لاہور 54790
فون: 042-35432419,35419520-4
پروفیسر آسی ضیائی صاحب کی اصلاح زبانِ اردو پر گراں قدر اور مفید تصنیف ’’درست اردو‘‘ سات ابواب پر مشتمل ہے۔ جناب آسی ضیائی صاحب کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
’’پروفیسر امان اللہ خاں آسی ضیائی یکم اگست 1920ء کو ہندوستان کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بریلی سے بی اے کیا اور پھر علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کے ساتھ ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا اور رشید احمد صدیقی جیسے نام ور اساتذہ کی شاگردی اختیار کی۔ وہ سید ہاشمی فرید آبادی جیسی علمی شخصیت کے سگے بھانجے تھے جو بابائے اردو مولوی عبدالحق کے دستِ راست اور انجمن ترقی اردو کے پہلے سیکرٹری تھے۔
آسی ضیائی نے تدریس کا شعبہ اختیار کیا اور یکم اکتوبر 1948ء کو مرے کالج کے شعبۂ اردو میں بحیثیت صدرِ شعبہ اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1983ء میں لاہور منتقل ہوگئے اور ملتان روڈ منصورہ کے نزدیک رہائش اختیار کرلی۔ یہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال گزارے جس کا بیشتر حصہ وہ ادارہ معارف اسلامی (منصورہ) سے منسلک رہے۔
ان کی تصانیف میں ’’تحسین اردو‘‘، ’’تاریخ زبان وادب اردو‘‘، ’’شبُ تابُ چراغاں‘‘، ’’داستان گو انیس‘‘، ’’کلام اقبال کا بے لاگ تجزیہ‘‘ شامل ہیں۔ ان کے ترجمہ ’’برناباس کی انجیل‘‘ کے دس ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ ان کا ایک اور ترجمہ ’’مسلم مسیحی مکالمہ‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ ایک ترجمہ ’’ڈنمارک میں سماجی بہبود‘‘ بھی شائع ہوا ہے۔ ’’یادیں کچھ کرداروں کی‘‘ میں انہوں نے اپنے آبائی وطن رام پور کی چند دل چسپ اور حیرت انگیز شخصیات کے بارے میں لکھا ہے جن سے ان کا اپنی ابتدائی زندگی کے دوران میں سابقہ پڑا تھا۔ ان کے علاوہ جناب آسی ضیائی کا ایک مجموعہ کلام ’’رگِ اندیشہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
’’درست اردو‘‘ پہلی مرتبہ 1952 میں سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا نظرثانی شدہ ایڈیشن ادارۂ معارف اسلامی منصورہ، لاہور نے 1990ء میں شائع کیا۔ دوسرے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد اس کتاب کا ایک اور ایڈیشن بھارت سے مرکزی مکتبۂ اسلامی، دہلی نے بھی شائع کیا۔ موجودہ ایڈیشن کمپیوٹر کمپوزنگ کے بعد شائع کیا جارہا ہے۔‘‘
پروفیسر ضیائی صاحب کے صاحبزادے فیضان اللہ خاں تحریر فرماتے ہیں:
’’کسی بھی تحریر کی خوب صورتی دیگر باتوں کے علاوہ اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ جس زبان میں وہ تحریر لکھی جارہی ہے، اس زبان کے قواعد و ضوابط، محاورے اور روزمرہ کی کس حد تک پابندی کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر زندہ اور ترقی پذیر زبان مسلسل ارتقائی عمل سے گزرتی ہے اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ یہ تبدیلی اس کے بنیادی اصول وضوابط میں کم اور الفاظ، محاورات اور روزمرہ کے اضافے اور متروک ہونے کی صورت میں زیادہ ہوتی ہے، تاہم اہلِ علم اور مستند ماہرینِ زبان ان میں سے کچھ تبدیلیوں کو قواعد و ضوابط کے اعتبار سے غلط قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کو ’’غلط العوام‘‘ کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم ان میں سے بعض غلطیوں کو یہ ماہرین بھی رفتہ رفتہ قبول کرلیتے ہیں جنہیں اب ’’غلط العام‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اگرچہ اصولی طور پر ہوتی غلط ہی ہیں، لیکن انہیں زبان دانوں سے استعمال کی سند مل جاتی ہے۔
اردو زبان اب ایک بین الاقوامی زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنی جائے پیدائش (نہ صرف ہندوستان کے چند مخصوص علاقوں بلکہ پورے ہندوستان) میں یہ اب بھی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔
زیر نظر کتاب کے مصنف، والد محترم پروفیسر امان اللہ خاں، آسیؔ ضیائی مرحوم و مغفور (1920ء۔ 2009ء) بھی اردو زبان کی صحت کے حوالے سے بہت فکرمند رہتے تھے جس کی وجہ سے وہ تقریباً ہر ملنے والے کی (خصوصاً اپنے گھر کے افراد کی) زبان کی اصلاح کرتے رہتے تھے اور یہ ایک قدرتی بات تھی۔ ایک شخص جو نہ صرف اہلِ زبان ہو، بلکہ جس کی پوری زندگی اردو کی تعلیم دیتے، اردو میں تخلیقی و تنقیدی مضامین لکھتے، اردو میں شاعری کرتے اور اردو پر تحقیق کرتے گزری ہو اسے اردو زبان کی حفاظت کا احساس نہیں ہوگا تو پھر اور کسے ہوگا؟ جنابِ آسی ضیائی کو اس کا احساس تھا اور انتہائی شدومد کے ساتھ تھا۔ اسی جذبے اور احساس کے تحت انہوں نے یہ کتاب لکھی تھی۔
یہ کتاب درست زبان لکھنے کے سلسلے میں ایک رہنما کی حیثیت رکھتی ہے اور علاقائی اور وقتی اثرات (جو ہر علاقے اور زمانے میں مختلف ہوتے ہیں) سے بالاتر ہے۔ تاہم اس سے استفادہ کرنے والا اپنی فہم و فراست اور صوابدید کے مطابق ان پر عمل کرسکتا ہے۔‘‘
پروفیسر آسی ضیائی تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ کتاب 1952ء میں پہلی بار شائع ہوئی تھی، جب بھی میں زبان کی درستی کے بارے میں زیادہ حساس اور پُرجوش تھا اور پڑھنے والے بھی اپنی اغلاط کی اصلاح کے لیے زیادہ فکرمند رہتے تھے، لیکن اڑتیس سال… ایک نسل… کی طویل مدت گزر جانے کے بعد کی صورتِ حال یہ ہے کہ میں صحتِ زبان کی طرف سے بے پروا، بلکہ افسردہ اور مایوس ہوگیا ہوں اور لکھنے والے غلطی کرنے پر زیادہ دلیر اور پُراعتماد۔
اس عرصے میں جہاں ہمارے ملک میں ہر معاشرتی قدر کو توڑ پھوڑ ڈالنے کا رجحان ایک ہمہ گیر سیلاب کی طرح پھیل چکا ہے اور مزید پھیلتا جارہا ہے، وہاں غریب قومی زبان کس گنتی میں ہے کہ اس کی بھی گت نہ بنائی جائے اور پھر اس پر فخر نہ محسوس کیا جائے! ساتھ ہی سہل انگاری اور عیش کوشی نے جہاں بندۂ مزدور تک کو کام چور مگر حق سے بڑھ کر طلب کرنے پر آمادہ و بے شرم بنادیا ہے، وہاں اہلِ قلم بھی اس دوڑ میں پیچھے رہ جانا اپنی کسرِ شان سمجھنے لگے ہیں۔ انہیں اپنی ’’اغلاط کی پوٹ‘‘ نگارشاتِ نظم و نثر کو شاہکار منوانے پر تو شدید اصرار ہے مگر اصلاح کے لیے مطالعے اور تحقیق کی ’’محنتِ شاقہ‘‘ اٹھانا غالباً اپنی توہین جانتے ہیں۔ رہے ’’پرانی وضع‘‘ کے سنجیدہ ادیب، تو ان کے لیے اس طوفانِ غلط روی میں اپنی پگڑی بچانا ہی دشوار ہوگیا ہے اور روز بروز دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا ان کی اکثریت صبر کے گھونٹ پی کر ’’گدائے گوشہ نشینی، تُو حافظا، مخروش‘‘ کی تصویر بنی بیٹھی ہے۔ کبھی کبھار کسی گوشے سے اس ’’نقار خانۂ بے ہنگام‘‘ میں کسی ’’طوطی‘‘ کی آواز بطور صدائے احتجاج بلند بھی ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ ’’کون سنتا ہے فغانِ درویش‘‘!
جناب حفیظ الرحمن احسنؔ (مالک ایوانِ ادب) کا یہ تقاضا کئی سال سے مسلسل چلا آرہا تھا اور اب اس کو مزید ٹالنا میرے بس میں نہ رہا تھا، اس لیے ہرچہ بادا باد ایک بار پھر کوشش کرکے دیکھتا ہوں کہ اس کی کہاں تک پذیرائی ہوتی ہے اور کتنے حضرات میں یہ سنجیدگی باقی رہ گئی ہے کہ زبان کی صحت و درستی کی طرف سے فکرمند ہوں۔
حفیظؔ صاحب کے اصرار کے علاوہ جس بات سے مجھے کسی قدر حوصلہ افزائی ہوئی وہ ’’تحسین اردو‘‘ کی غیر معمولی مقبولیت ہے جس کا میں 1/3 مصنف ہوں اور جس میں محاورہ و روزمرہ اور اصلاحِ زبان وغیرہ کا حصہ میرا ہی مرتب کردہ ہے۔ اسی سے کچھ خیال ہوتا ہے کہ شاید ملک میں ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس قسم کی کوششوں کو لغو و لاطائل نہیں سمجھتے۔
یہ کتاب اصلاً تو پہلے بھی طالب علموں کے لیے لکھی گئی تھی اور اِس بار بھی وہی پیش نظر ہیں، مگر جابجا تھوڑی بہت علمی بحث جو چھیڑ دی گئی ہے، اس کی بنا پر اندیشہ ہے کہ طالب علم ہی اس سے استفادہ کرنے میں سب سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ ان کا تعلیمی معیار اس پورے عرصے میں جس بری طرح انحطاط پذیر ہوا ہے، یہ اندیشہ اسی بنا پر ہے۔ طالب علم اب ’’علم‘‘ کے نہیں صرف ’’پاس ہوجانے‘‘ کے طالب رہ گئے ہیں (الا ماشاء اللہ)، اور ان کے لیے علمی بحثوں کو سمجھنا تو کجا ان پر نظر ڈالنا بھی بار ہوگیا ہے۔ اس لیے اساتذہ کرام سے میری یہ گزارش بے جا نہ ہوگی کہ جن اغلاط کی نشاندہی اور جن کوتاہیوں کی طرف اشارے اس کتاب میں کیے گئے ہیں اور صحتِ زبان و بیان کے جو اصول پیش کیے گئے ہیں، ان کا مطالعہ اچھی طرح خود فرما لیں اور پھر اپنے طلبہ کو نہ صرف سمجھائیں بلکہ اُن کی مشق بھی کرائیں۔ اسی طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ نئی نسل میں قومی زبان کا احترام اور اس سے محبت پیدا ہو اور لکھنے، بولنے میں احساسِ ذمہ داری جھلکنے لگے۔ بلکہ کیا عجب ہے کہ اسی ریاض کی بدولت زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ان کا رویہ احتیاط اور عاقبت اندیشی کا ہو جائے۔‘‘
یہ مفید کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اوّل اصلاح زبان کے عنوان سے ہے اور اس باب کی فصل اوّل: اغلاط کو بیان کرتی ہے، فصل دوم خلافِ محاورہ و روزمرہ کی وضاحت ہے، فصل سوم خلافِ فصاحت کی توضیح پر مشتمل ہے۔ دوسرا باب انصراف، تیسرا تذکیر و تانیث، چوتھا باب اصلاحِ تلفظ، پانچواں باب روایت۔ روایت کے معنی ہیں کسی دوسرے کی بات کو بیان کرنا، اسے انگریزی میں Narration کہتے ہیں۔ چھٹا باب اوقاف یعنی سکتہ وقفہ رابطہ تفصیلیہ، ختمہ، واوین، خط۔ ساتواں باب اچھی زبان کیوں کر لکھی جائے۔
یہ مفید کتاب ہر اردو استاد کے پاس ہونی چاہیے، اسی طرح اردو زبان کے ہر طالب علم کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔
کتاب سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے، سادہ لیکن رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔ پروفیسر آسی ضیائی کا صدقۂ جاریہ ہے۔