واصف علی واصف
بعض اوقات سچ کا بیان بے ربط ہونے کی وجہ سے بے معنی ہوجاتا ہے اور اس طرح اپنا مفہوم کھودیتا ہے۔ مثلاً اگر میں یہ کہوں کہ ’’سورج مشرق سے نکلتا ہے۔ زمین گول ہے۔ پرندے ہوا میں اڑتے ہیں۔ آج ہفتہ ہے۔ میں خوشاب کا رہنے والا ہوں۔‘‘
یہ بیان صداقت تو ہے لیکن بے ربط ہے، اس لیے لغو ہے۔ صداقت کے اظہار کا وقت ہوتا ہے۔ ہر وقت کی ایک صداقت ہے۔ غریب اور امیر کی صداقت میں فرق ہے۔ کم علم انسان اور علم والے انسان کی صداقت میں فرق ہے۔ بے یقین انسان کی صداقت میں بھی فرق ہے۔
ہم سچ کو اپنی سچائی کے معیار کے مطابق جانتے ہیں۔ قاتل اور مقتول کا رب تو ایک ہے، لیکن دونوں فریق بیک وقت اس صداقت کو کیسے مان لیں! بیمار اور صحت مند انسان ایک ہی صداقت کو ایک جیسا نہیں مان سکتے۔ غرضیکہ ہر انسان اپنے معیارِ فکر سے سچ اور جھوٹ کا اندازہ کرتا ہے۔ محبت کرنے والوں کی صداقت اور ہے، محرومِ محبت کا سچ اور ہے۔ مثال کے طور پر لفظ ’’انسان‘‘ کو لیں۔ ہر آدمی انسان کے بارے میں الگ شعور رکھتا ہے۔ انسان کی تعریف میں ہمیں طرح طرح کے بیان ملیں گے۔ مثلاً:
انسان اشرف المخلوقات ہے۔
انسان ظلوم و جہول ہے۔
انسان ہی احسن تقویم کی شرح ہے۔ انسان اسفل السافلین بھی تو ہے۔
فطرت انسان پر فخر کرتی ہے۔
فطرت انسان کے اعمال پر شرمندہ ہے۔
انسان روشنی کا سفیر ہے۔
انسان اندھیرے کا مسافر ہے۔
انسان کو سوچنے والا بنایاگیاہے۔ اس کے سینے میں دھڑکنے والا دل ہے۔
انسان کے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں۔ اس کے سینے میں برف کی سل ہے۔
انسان کو انسان سے اتنی محبت ہے کہ انسان انسان پر مرتا ہے۔
انسان کو انسان سے اتنی نفرت ہے کہ انسان انسان کو مارتاہے۔
انسان رحمان کا مظہر ہے۔
انسان شیطان کا پیروکار ہے۔
انسان فطرت کے ہر راز سے باخبر ہے۔
انسان کی خاطر اللہ نے شیطان کو دور کردیا۔
شیطان کی خاطر انسان اللہ سے دور ہوگیا۔
انسان کو اس کے عمل اور ارادے میں آزاد رہنے دیاگیا۔
انسان کے عمل پر جبر کے پہرے بٹھادیے گئے۔
انسان کو اللہ نے آزادی دی، بادشاہی دی، عزت دی۔
انسان کو کس نے مجبوری دی، غلامی دی، ذلت دی؟
انسان حیا کا پیکر ہے۔ انسان لطافتوں کا مرقع ہے۔
انسان جنسیات کا تابع ہے۔ انسان معاشیات سے مجبور ہے۔
انسان سماج بناتاہے۔
انسان سماج شکن ہے۔
انسان صلح کا خوگر ہے۔
انسان جنگ و جدل کا شائق ہے۔
انسان کو علم ملا، زندگی ملی۔
انسان کو جہالت ملی، موت ملی۔
انسان دنیا میں بہت کچھ کھوتا ہے، بہت کچھ پاتاہے۔
انسان نہ کچھ کھوتا ہے نہ کچھ پاتا ہے۔ وہ صرف آتا ہے اور جاتا ہے۔
غرضیکہ ایک لفظ ’’انسان‘‘ کی صداقت ہی اتنی وسیع المعنی ہے کہ اس کے کوئی معنی نہیں انسان سب کچھ ہے، انسان کچھ بھی نہیں۔ انسان کے بارے میں کیا بات سچ ہے، کچھ فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ انسان اپنے عقیدے کو سچ اور دوسروں کے عقائد کو جھوٹ کہتا ہے۔ ہم اپنے وطن کی خاطر مرجائیں تو شہید۔ دشمن اپنے وطن کی خاطر مرمٹے تو واصل بہ جہنم۔ ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ دوسروں کا عقیدہ اُن کے لیے اتنا ہی واجب الاحترام ہے جتنا ہمارے لیے ہمارا عقیدہ۔ پیدا کرنے والے نے ہر خیر اور شرکو تخلیق فرمایا۔ انسان کی سرشت میں دنیا کی محبت اور آخرت کی طلب رکھ دی گئی ہے۔ فطرت نے کسی کے ہاتھ میں کاسۂ گدائی دے دیا اور کسی کے سرپر تاجِ شاہی پہنادیا۔ ایک کی خوشی دوسرے کا غم ہے۔ سچ اور جھوٹ کی پہچان یکساں کیسے ہوسکتی ہے؟
ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اسے ویسے ہی سچ سمجھ لیتے ہیں۔ دوربین، خردبین نے ثابت کردیا ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ ویسے سچ نہیں۔ ہم ساکن ہیں، لیکن متحرک ہیں۔ ہماری عمر بڑھ رہی ہے لیکن ہماری عمر کم ہورہی ہے۔
یہ سچ ہے کہ سائنس نے انسان کو آسائشیں دی ہیں۔ انسان کو تحفظ دیا ہے۔ انسان کو اٹھاکر آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ سائنس نے انسان کا جینا حرام کردیا ہے۔ انسان کو غیر محفوظ بنادیا ہے۔ انسان کا آسمانی سفر زمین پر آگ برسانے کے لیے ہورہا ہے۔
سچ اور جھوٹ صرف پہچان کے درجے ہیں۔ ان میں سے کچھ باطن نہیں۔ اس کائنات میں سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ جو کچھ تخلیق کیاگیا ہے وہ باطل نہیں ہے۔
(’’دل دریا سمندر‘‘)
پروفیسررشید احمد انگوی
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے، اسے پھیر
’’ضرب کلیم‘‘ میں ’’نصیحت‘‘ کے عنوان سے پانچ شعروں پر مشتمل ایک نظم لکھی ہے جس کا مرکزی مضمون تعلیم کی اہمیت ہے کہ اگر آپ کسی قوم کو مستقل طور پر غلام بنانا چاہتے ہیں تو اس سے جنگ و جدال کی بجائے اسے اپنے مطلب کا تعلیمی نظام دے دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اسکول سے اٹھنے والی نسل اپنے آبائو اجداد کی تہذیب و ثقافت سے بیزار ہو کر آپ کے تصورات اور تہذیب کی دل دادہ بن جائے گی اور اپنے آبائو اجداد کو رجعت پسند، قدامت پسند، سادہ لوح اور فرسودہ تصورات کے حامل قرار دے کر رد کر دیں گے۔ علامہ کیمسٹری کی زبان میں مثال دے کر سمجھاتے ہیں کہ جس طرح تیزاب میں ڈالی گئی چیز ٹوٹ پھوٹ جاتی یا اتنی نرم و ملائم ہو جاتی ہے کہ آپ اسے جس شکل میں ڈھالنا چاہیں وہ ڈھل جاتی ہے بالکل ایسے جیسے لوہے کی بھٹی میں پگھلایا جانے والا لوہا ٹھوس حالت بدل کر مائع بن جاتا ہے اور آپ اسے جس روپ میں چاہیں ڈھال دیں۔ اس سے اگلے شعر میں علامہ نے حیرت انگیز مثال دی ہے کہ اگر آپ تیزاب کے ذخیرے میں سونے کا بنا ہمالیہ پہاڑ بھی ڈال دیں تو یہ سونا اس تیزاب کے تیز عمل سے مٹی کا اک ڈھیر بن کر رہ جائے گا اور تہذیبوں کے مقابلوں میں دشمن قوم کے نونہالوں کو چالاکی سے ’’تعلیم کے تیزاب‘‘ میں غوطے دے کر ایک بدلی ہوئی غلام قوم حاصل کر لی جاتی ہے۔ ثبوت ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں کہ کہاں اٹھارہویں صدی میں برطانوی سامراج کا خم ٹھونک کر مقابلہ کرنے والے مجاہدین آزادی اور کہاں اکیسویں صدی کے مسلم خاندانوں میں جنم لینے والے مغربی تہذیب و ثقافت کے طلب گار و فدائی۔ بقول اقبال ’’وہ فریب خورہ شاہیں جو پلا ہو کر گسوں میں۔ اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسم شہبازی‘‘۔ آج وطن پاک میں انگلش میڈیم کے نعرے تلے مغربی لباس میں ملبوس نسل سے ہم کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہیں؟