ایک بادشاہ کے دل میں خیال آیا کہ وہ زمانے بھر کی دانائی کی باتوں کو ایک کتاب کی صورت میں مرتب کروائے۔ اس نے سلطنت کے تمام دانا لوگوں کو بلایا اور ان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ سب لوگ کام میں جت گئے۔ انہوں نے دنیا جہان کی دانشمندانہ باتوں کو ایک موٹی کتاب کی صورت میں یکجا کردیا اور اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا۔ بادشاہ نے ان کی محنت پر خوشی کا اظہار کیا، لیکن کہا کہ وہ ساری کتاب نہیں پڑھ سکتا، اسے ایک باب میں سمویا جائے۔
دانائوں نے یہ بھی کردیا، لیکن بادشاہ کا اصرار تھا کہ وہ باب کو مزید مختصر کریں۔ انہوں نے ایسے ہی کیا۔ بادشاہ نے اسے مزید مختصر کرکے ایک جملے میں ڈھالنے کا حکم دیا۔ دانائوں نے آپس میں سر جوڑ لئے اور دانائی کا نچوڑ ایک جملے میں سمو دیا۔ جب بادشاہ نے جملہ پڑھا، تو وہ بہت خوش ہوا اور کہا: یہی دانائی کا خلاصہ ہے۔ اس نے دانائوں کو انعام واکرام دے دلا کر رخصت کیا۔
دانائوں نے زمانے بھر کی دانائی کو کون سے جملے میں سمویا تھا؟ وہ جملہ تھا THERE IS NO FREE LUNCH (لنچ مفت میں نہیں ملا کرتا)۔
بالکل درست بات ہے۔ اگر آپ زندگی میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اپنا وقت، کوشش اور پیسہ خرچ کرنا ہوگا۔ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے آپ کو قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ آپ اپنی کوشش اور محنت کے مطابق ہی پھل کھاتے ہیں۔ آپ اگر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں اور توقع رکھیں کہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی یا آپ دولتمند ہوجائیںگے یا کسی عہدے پر پہنچ جائیںگے، تو یہ ممکن نہیں ہے۔ دنیا میں جن لوگوں نے بھی کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا، انہیں بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑا۔ اس میں کسی فرد کو استثنیٰ حاصل نہیں، چاہے وہ پیغمبران کی ذات مبارک ہو یا دنیاوی لیڈر ان کرام ہوں۔
صندوق کی قیمت
حلب کا ایک تاجر قاضی شہر کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میں ایک طویل سفر پر جارہا ہوں، اس لیے زر و جواہر کا یہ صندوق اپنے پاس امانتاً رکھ لیں، میں واپسی پر لے لوں گا۔ قاضی نے رکھ لیا اور تاجر چلا گیا۔ جب وہ چند ماہ کے بعد واپس آیا اور صندوق مانگا تو قاضی صاحب نے کہا: میں تمہیں جانتا ہی نہیں۔ تاجر کو سخت صدمہ ہوا۔ وہ فریاد لے کر امیر حلب کے پاس پہنچا۔ امیر نے کہا کہ کل چاشت کے وقت تم دوبارہ قاضی کے پاس جائو، میں بھی وہیں ہوں گا۔
دوسرے دن امیر قاضی کے ہاں گیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ نے مجھے ایک خاص کام کے لیے آپ کے پاس بھیجا ہے اور وہ یہ کہ بادشاہ حج کے لیے جارہا ہے، تمام وزراء نے یہ متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ بادشاہ کی غیر حاضری میں عنان سلطنت آپ جیسے متقی شریف اور دیانتدار انسان کے سپرد کی جائے اور مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ اگر آپ اس ذمہ داری کو قبول فرمالیں تو کل صبح آپ کو دربار خلافت میں خود لے کر پہنچوں۔
یہ سن کر قاضی صاحب بے حد مسرور ہوئے اور فوراً ہاں کردی۔
عین اس وقت وہ تاجر داخل ہوا۔ قاضی صاحب اسے دیکھتے ہی پکار اٹھے:
’’الحمداللہ کہ آپ آگئے ہیں، آپ کا صندوق ساتھ والے کمرے میں دھرا ہے، لے جائیے‘‘۔
دوسرے دن قاضی صاحب بن سنور کر امیر کے ہاں پہنچے۔ امیر نے کہا کہ روانہ ہونے سے پہلے صرف ایک سوال کا جواب دے دیں، ہم نے آپ سے تاجر کا صندوق پوری سلطنت دے کر واپس لے لیا ہے، اگر آج آپ سلطنت پر قابض ہوگئے تو کل کس قیمت پر واپس دو گے؟
دالیں
دلیۂ بھوپال نواب شاہ جہاں بیگم کے شوہر نواب صدیق حسن خاں کی خدمت میں ایک مولوی صاحب ملازمت کے امیدوار ہو کر آئے، نواب صاحب نے نام پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: ’’محمد مداح الدین قادری مجددی‘‘۔
نواب صاحب مسکرا کر بولے ’’آپ کے نام میں تو بہت سی دالیں ہیں۔‘‘
مولوی صاحب نے برجستہ کہا: ’’سرکار! کوئی دال تو گل جائے گی۔‘‘
نواب صاحب اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور انہیں منشی کا عہدہ دے دیا۔
قَفَسْ
قفس اردو کے قدیم شعرا کا محبوب لفظ ہے، یعنی پنجرہ، جال، پھندا۔ یہ فارسی کا لفظ ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی انگریزی میں مرغی رکھنے والی ٹوکری یا پنجرے کو ’’کے وی‘‘ Cayie کہتے ہیں۔ یہ لفظ اسکاٹش زبان میں لاطینی سے آیا، لاطینی میں اس کے لیے ’’کوَس‘‘ Cavas کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ قفس اور کوَس میں جو حیرت انگیز مشابہت ہے اس کا احساس کرنا دشوار نہیں؟
(بحوالہ: ’’لفظوں کا دلچسپ سفر‘‘… ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)
جنازہ
وہ اردو زبان کا مشہور و معروف محقق ادیب و شاعر تھا اس نے اپنی زندگی میں اردو زبان و ادب کی ترقی اس کی اشاعت اور مادری زبان کی اہمیت اور ضرورت پر سینکڑوں مقالے لکھے تھے۔ ایک دن اچانک اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کی حادثاتی موت کے دو ماہ بعد ان کے فرزندوں نے اپنے والد کی کتابوں کا اثاثہ باہر نکالا۔ کتابوں سے کئی الماریاں پُر تھیں پاس پڑوس کے لوگ کتابوں کی الماریوں کے اطراف ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور ان کے بچے اس اثاثہ کو کباڑی کی دکان پر لے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ اثاثہ اب ان کے کسی کام کا نہ تھا کیونکہ ان کی پوری تعلیم انگلش میڈیم سے ہوئی تھی۔