لوگوں سے زندگی کی محبت چھینی نہیں۔ وہ موت کے سائے میں بھی جینے اور تہوار سے لطف اٹھانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ میں اسے مثبت قدر سمجھتا ہوں۔ اور یقین رکھتا ہوں کہ وہ دن بھی ضرور آئے گا کہ زندگی کی رونقیں محفوظ زندگی کے سائے میں لگیں گی۔ خریداری کے لیے بازار جاتے ہوئے موبائل اور نقدی کے چھن جانے کا اندیشہ نہ ہوگا۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہم لوگ ذرا کچے پکے سے مسلمان ہیں۔ روزہ رکھتے ہیں مگر روزے کی روح کو پوری طرح نہیں سمجھتے۔ رمضان کے مہینے میں ہماری خوراک کی مقدار عام دنوں کے مقابلے میں کچھ بڑھ ہی جاتی ہے۔ اخلاق و اطوار میں بھی کوئی بہت بہتری نہیں آتی۔ ویسے ہی لڑتے جھگڑے اور غیبت و غصّے کے اظہار سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ معاملات تو خیر عام دنوں جیسے ہی رہتے ہیں مگر یہ کیا کم ہے کہ نمازوں میں باقاعدگی، تلاوتِ قرآن کا اہتمام اور زکوٰۃ و خیرات میں دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور ان سب سے بڑھ کر اللہ کے خوف یا اس کی محبت میں بھوکے رہنا، اپنے نفس کی طلب کو مار رکھنا… اس کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں۔
یہ جو رمضان میں مہنگائی کا رونا رویا جاتا ہے اور پھل فروٹ اور اشیاء کے دام عام دنوں کے مقابلے میں بڑھ جانے کی شکایات کی جاتی ہیں، یہ بھی کچھ بے جا نہیں۔ لیکن یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ پھل فروٹ اور دیگر اشیاء بیچنے والے بھی غریب غرباء ہی ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ منافع نہ کمائیں تو اپنے بچوں کے لیے کپڑے اور جوتے کہاں سے اور کیسے خریدیں؟ اخبار میں جب میں نے یہ خبر پڑھی کہ ایک ظالم باپ نے اس بچے کو اٹھا کر پٹخ دیا جو اپنے مفلس و مجبور باپ سے نئے کپڑوں کی ضد کررہا تھا۔ بچہ تو جانبر نہ ہوسکا لیکن اُن گھرانوں کے لیے اپنے پیچھے یہ سوال ضرور چھوڑ گیا کہ کیا عید پر اُسے نئے کپڑے پہننے کا حق نہ تھا؟ جو گھرانے اپنے بچوں کے لیے کئی کئی جوڑے سلواتے ہیں، ایسا ہر گھرانہ اگر ایک جوڑا کپڑا اپنے گرد و پیش کے کسی سفید پوش یا ضرورت مند کو فراہم کرنے کی ذمہ داری لے لے تو ایسے واقعات میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے ابا جان جو نہایت غریب پرور واقع ہوئے تھے، عید کی صبح سویرے محلے سے کسی نادار گھرانے کے غریب بچے کو لے آتے تھے، اُسے اپنے ہاتھوں سے نہلاتے دُھلاتے اور پھر اسے نئے کپڑے پہنا کر رخصت کرتے تھے۔ وہ ایسا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کرتے تھے۔ چناں چہ ان کا انتقال رمضان المبارک کی ستائیسویں شب یعنی شب قدر کو ہوا۔ میں ان کی زندگی اور موت دونوں پر رشک کرتا ہوں۔
ہم لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ جتنا اہتمام عبادات کے لیے کرتے ہیں، معاملات اور حقوق العباد کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ حالاں کہ عبادات میں کمی بیشی شاید اللہ تعالیٰ کو گوارا ہو لیکن اہل خانہ، پڑوسیوں، رشتہ داروں، دوست احباب اور اس سے آگے بڑھ کر یتیموں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کے حقوق میں ادنیٰ سی بھی کوتاہی قابلِ گرفت ہوسکتی ہے اور ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اہتمام عبادت سے تو راضی ہوتے ہی ہیں لیکن وہ اپنی رحمت کے دروازے اُن بندوں کے لیے کھول دیتے ہیں جو اس کی مخلوق کے لیے اپنے دلوں میں محبت، رحم، عفو و درگزر اور مہربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ رمضان کا مہینہ ہو یا روزِ عید، یہ دونوں مواقع ہمیں یہی سکھاتے ہیں کہ بھوکے رہ کر اُن مفلسوں اور فاقہ کشوں کی طلب اور تڑپ کا کریں جو روٹی روزی مُیسر نہ ہونے والوں کو ہوتی ہوگی۔ اسی طرح رمضان میں زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کرنا اس لیے احسن ہے کہ غریب غرباء بھی عید کی خوشیاں خوش حال مسلمانوں کے ساتھ منا سکیں۔ یہ سب باتیں کسے نہیں معلوم! مسئلہ علم کی کمی کا نہیں، اصل مسئلہ عمل کی طرف رغبت کا ہے کہ عام مسلمان کو عمل کی طرف کیسے راغب کیا جائے۔ یہ ذمّہ داری بنیادی طور پر علماء اور دینی طبقے کی ہے، لیکن پریشانی تو یہی ہے کہ علماء نے مسلمانوں کو فقہی جھگڑوں اور تنازعات میں الجھا رکھا ہے۔ جن عذابوں سے معاشرے کا ایک عام آدمی گزر رہا ہے، وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان عذابوں، مصیبتوں اور دُکھوں سے نجات کا راستہ ہمارا دین کیا بتاتا ہے، بلکہ وہ فروعی اور فقہی اختلافات کو ہوا دے کر اپنے مسلک کو مضبوط بنارہے ہیں یا پھر نان ایشوز کو ایشوز بنانے میں لگے ہیں۔ کچھ یہی حال ہمارے اسلامی دانش وروں کا ہے۔ جس ملک میں بہیمیت اور درندگی نے جنگل کے قانون کا سماں پیدا کررکھا ہو، جہاں زندگی غیر محفوظ اور لوگ بے پناہ ہوں، جہاں فاقہ کشی سے خودکشی ہو، اس ملک کے اخبارات میں ہمارے اسلامی دانش ور بھائی ’’حیا‘‘ اور ’’حفظِ مراتب‘‘ کا سبق پڑھنے والوں کو سنا رہے ہیں۔ میں نے ایسے ہی ایک دانش ور سے پوچھا کہ ’’حضرت! کیا اس ملک میں جس کی بقا ایک سوالیہ نشان ہو، ’’حیا‘‘ بھی کوئی ایشو ہے جس پر آپ دھواں دھار دلائل دے رہے ہیں؟‘‘
فرمانے لگے: ’’یہ ایک تہذیبی مسئلہ ہے۔‘‘
عرض کیا:’’تہذـیب ہے کہاں؟ جس شہر اور جس ملک میں آئے دن سو پچاس لوگ بے گناہ بے قصور مار دیے جاتے ہوں اور کسی مجرم کو سزا نہ ملتی ہو، وہاں تہذیب کی راگنی کچھ بے وقت کی راگنی نہیں؟‘‘
کہنے لگے: ’’حیا‘‘ کا فقدان ایک اہم تہذیبی مسئلہ ہے، اس سے صَرفِ نظر کیسے کیا جاسکتا ہے!‘‘
میںنے کہا: ’’جب معاشرے میں امن و امان قائم ہوجائے، وحشت و درندگی کی جگہ تہذیب و شائستگی لوٹ آئے تب اس مسئلے پر غور کرلیں گے۔‘‘
المیہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں پر ڈالے گئے بوجھ کو اتارنے اور اُن زنجیروں کو کاٹنے آئے تھے جن میں لوگوں کو جکڑ دیا گیا تھا (الاعراف: 107)۔ ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو فقہ کا، یا پھر دانش وری بگھارنے کا ایک مشغلہ بنادیا ہے۔
بات دُور نکل گئی۔ عرض یہ کررہا تھا کہ ہرچند کہ آج کی معاشرت و تمدن کے خطوط ماضی کے مقابلے میں بالکل ہی بدل چکے ہیں، لیکن تہوار کے رنگ ڈھنگ اور رمضان کے مہینے کا تقدس آج بھی اسی طرح برقرار ہے۔ یہ ہمارا مذہبی کلچر ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ کلچر اپنی جملہ تفصیلات و جزِئیات کے ساتھ مستقل تہذیبی و مذہبی ورثے کے طور پر ایک نسل سے اگلی نسل کو منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ ضرورت اس کی بھی ہے کہ جو روح اس مہینے اور تہوار کی ہے، اسے زندہ کیا جائے۔ مگر سوال تو یہی ہے کہ زندہ کون کرے؟ اور کیسے ہو؟
اصل بات تو نیت اور ارادے کی ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق جہاں ارادہ ہوتا ہے وہاں صورت حال سے نکلنے کا رستہ بھی نکل ہی آتا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو کیا نہیں کرسکتے اور کیا نہیں ہو سکتا! جب انسان دنیا کی شکل و صورت کو اپنے ارادے اور کوشش سے بدل سکتا ہے تو اپنے آپ کو اور اپنے تمدن کو مثبت خطوط پر کیوں نہیں استوار کر سکتا!
مفلس کی عید
صادق اندوری