بجلی بحران اور اس کا حل

لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے حکمران جماعت کی کارکردگی کا پول کھول رہے ہیں

سینیٹر سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان
سینیٹر منتخب ہونے سے قبل میں دو بار صوبہ خیبر پختون خوا کا وزیر خزانہ رہ چکاہوں۔ جس مسئلے پر مجھے سب سے زیادہ فون اور طعنے سننے پڑتے ہیں اور ووٹرز کا غصہ برداشت کرنے پر مجبور ہوتا ہوں، وہ لوڈشیڈنگ ہے۔ اس وقت بجلی کا مسئلہ ہر فرد کا مسئلہ بن چکاہے، اور اگر اس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو بپھرے ہوئے عوام کچھ بھی کر گزرنے پر تیار ہوجائیں گے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ پاکستان کے اُن سنگین مسائل میں سے ہے جن کو ایک سال میں حل کرنے کے دعووں کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت 2013ء میں برسراقتدار آئی تھی، لیکن پانچ سال حکومت کرنے اور تمام تر دعووں کے باوجود حکمران پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب اِن الفاظ کے ساتھ رخصت ہوئے ہیں ’’اب آپ جانیں اور لوڈشیڈنگ‘‘۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں شدید ترین گرمی کے باوجود ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے حکمران جماعت کی کارکردگی کا پول کھول رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ توانائی کے شعبے کی بدانتظامی کا واضح ثبوت وہ گردشی قرضہ ہے جس کی موجودہ مالیت 400 ارب سے زائد ہے اور جس مد میں گزشتہ ماہ 80 ارب روپے کی ادائیگی پر آڈیٹر جنرل پاکستان نے سخت اعتراضات اٹھائے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان میں توانائی کے بحران کے جعلی اسباب کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے دیرپا حل کے لیے دستیاب طریقوں میں سے بہتر طریقہ تجویز کیا جاسکے۔
پاکستان میں اس وقت بجلی کی ضرورت کا تخمینہ 22 ہزار سے 24 ہزار میگاواٹ تک کا ہے۔ اس طلب میں ہر سال تقریباً پانچ فیصد کی شرح سے ایک ہزار سے بارہ سو میگاواٹ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طلب کے مقابلے میں بجلی کی پیداوار 18ہزار میگاواٹ سے نہیں بڑھ سکی ہے۔ حکومت کے دعوے تو 24 ہزار میگاواٹ کی پیداوار کے بھی رہے ہیں مگر حکومتی ادارے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کمیٹی (NTDC) کے ذرائع بھی حکومتی دعووں کی تصدیق نہیں کرتے، اس لیے کہ اس ادارے کا بجلی کی ترسیل و تقسیم کا نظام 18ہزار میگاواٹ سے زیادہ کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے کئی نئے اداروں بشمول سندھ میں پیدا ہونے والی ہوائی توانائی (Wind Powar) پیدا کرنے والے اداروں کو ایک مخصوص حد سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کی صلاحیتوں کے درمیان فرق بھی ہمارے فیصلہ کرنے والے اداروں کی نااہلی کا اظہار ہے۔ پیداوار اور ترسیل و طلب میں اس طرح سے تقریباً 6ہزار میگاواٹ کا فرق موجود ہے جس کا اظہار پورے ملک میں طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ سے ہوتا ہے۔ یقیناًاس پانچ سالہ دورِ حکومت میں بجلی پیدا کرنے کے کئی منصوبے مکمل کیے گئے لیکن اس کے باوجود بھی طلب و رسد کے درمیان فرق جو 2013ء میں تقریباً پانچ ہزار میگاواٹ تھا، اب بڑھ کر چھے ہزار میگاواٹ ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں مکمل کیے جانے والے بجلی کے منصوبوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت نے صرف ایل این جی اور کوئلہ سے پیدا کی جانے والی بجلی کے منصوبوں کا آغاز کیا اور مکمل کیا، جبکہ برقابی توانائی (Hydro Powar) اور جوہری توانائی کے صرف وہ منصوبے مکمل ہوئے ہیں جو موجودہ حکومت سے کئی سال پہلے شروع ہوچکے تھے اور 2013ء میں تکمیل کے آخری مراحل میں تھے۔ یہی صورتِ حال قابلِ تجدید
توانائی کے منصوبوں کی ہے جس میں ہوائی اور شمسی توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ یہ صورتِ حال واضح طور پر بتا رہی ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں وہ منصوبے شامل نہیں ہیں جن سے بجلی کسی بیرونی ذریعے، مثلاً ایل این جی یا درآمد شدہ کوئلہ کے بغیر چل سکے۔ اس صورتِ حال کا یہی نتیجہ ہے کہ گردشی قرضے چار سو ارب سے اوپر ہوچکے ہیں جس رقم سے حکومت 2 ہزار میگاواٹ کے ہوائی، شمسی یا برقابی توانائی کے منصوبے مکمل کرسکتی تھی۔ اس حوالے سے یہ امر بھی محلِ نظر رہے کہ دیامر بھاشا ڈیم پراجیکٹ جس سے 6.4 ملین ایکڑ فٹ پانی کے علاوہ 4500 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور جو اس کے نیچے Powerstream میں بننے والے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی بھی پیداواری صلاحیت میں کم از کم 30 فیصد کا اضافہ کرسکتاہے۔ اس انتہائی اہم پراجیکٹ جو 2013ء سے بھی بہت پہلے سے ہر لحاظ سے تیار تھا، کے عملی آغاز کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھایا گیا۔ ہاں البتہ شاہد خاقان عباسی صاحب نے اپنی رخصتی سے ایک ماہ قبل ECNEC سے 474 ارب روپے کی منظوری کا اعلان کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری ہے۔ یہی منظوری اگر 2013ء میں کرکے عمل درآمد کا آغاز کیا جاتا اور لیپ ٹاپ کی تقسیم جیسے غیر منافع بخش منصوبوں کے بجائے سو ارب روپے سالانہ اس کام پر خرچ کیے جاتے تو کم از کم ڈیم اور آبی ذخیرہ تو تیار ہوجاتا، اور اس تیار منصوبے پر بجلی کی پیداوار کے لیے ضروری سہولیات کی تنصیب کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے جھولی پھیلانے کے بجائے بجلی کے پیداواری آلات بنانے والے اداروں سے بعد میں ادائیگی کی شرائط پر تنصیب کا آغاز کیا جاسکتا تھا۔ لیکن ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ کے مصداق اس منصوبے پر جو چاہے قوم کے لیے کتنا ہی ناگزیر ہو، پیسے خرچ کرنے کی زحمت کیوں کی جاتی جس کی تکمیل اور افتتاح حکومت کے پانچ سالہ دور میں ممکن نہیں تھا! یہی وہ ستم ظریفی ہے جس کی وجہ سے اتنے اہم منصوبے کے پرویزمشرف اور یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں کئی سال پہلے سنگِ بنیاد رکھے جانے کے باوجود آج تک نہ ہی زمین پر اس کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے اور نہ ہی کوئی واقعی عملی اقدام اٹھایا گیا ہے۔ ہائیڈروپاور یا برقابی توانائی پاکستان کے لیے سب سے پائیدار اور سستی بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے لیکن گزشتہ حکومت نے حسبِ سابق اس شعبے کو تقریباً نظرانداز کیے رکھا اور ایل این جی اور کوئلہ کو نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر اپنی ترجیح اول بنائے رکھا۔ یاد رہے کہ محدود مدت کے لیے تو یہ منصوبے مسئلہ حل کرسکتے ہیں لیکن طویل المدت بنیاد پر اپنی پیداواری لاگت اور درکار برآمدی گیس یا کوئلہ کی زرمبادلہ میں ادائیگی کی وجہ سے پائیدار ترقی اور قابلِ انحصار وسیلۂ توانائی کے طور پر اختیار نہیں کیے جاسکتے۔ اب تک پانی و بجلی کے وفاقی ادارے WAPDA کی تحقیقات کے مطابق تقریباً ایک لاکھ میگاواٹ بجلی برقابی ذرائع سے پیدا کرنے کی گنجائش پاکستان میں موجود ہے، جس میں سے تقریباً 65 ہزار میگاواٹ کے منصوبوں پر ابتدائی سطح سے لے کر تفصیلی ڈیزائن کے کام کیے جاچکے ہیں۔ یہی معاملہ پاکستان میں قابلِ تجدید توانائی (Renewable Enrgy) کے دیگر ذرائع ہوائی اور شمسی توانائی کے ساتھ بھی کیا گیاہے۔ دنیا بھر میں کم ہوتے جلنے والے توانائی کے ذرائع (Fossil Fuel) اور ماحولیاتی آلودگی کے مسائل نے دنیا بھر میں توانائی کی صنعت کا رخ بالکل تبدیل کردیا ہے اور تمام ترقی یافتہ ممالک بشمول امریکہ، چین اور جرمنی کے علاوہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت بھی بہت تیزی کے ساتھ اب حرکی توانائی (Thermal Enrgy) سے تبدیل کرکے قابلِ تجدید توانائی کو بڑھا رہے ہیں۔
چین میں ہوائی توانائی پیدا کرنے کے موجودہ پلانٹس کی پیداواری صلاحیت 114 ہزار میگاواٹ، اور شمسی توانائی کے پلانٹس کی پیداواری صلاحیت 28 ہزار میگاواٹ ہے۔ جرمنی جو پاکستان کے مقابلے میں رقبے میں نصف سے بھی کم ہے، اس وقت 39 ہزار میگاواٹ ہوائی بجلی پیدا کررہا ہے، جبکہ شمسی حدت (Sunshine) کے سالانہ گھنٹوں کی تعداد بھی پاکستان سے تقریباً نصف ہونے کے باوجود شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی جرمنی کی صلاحیت 38 ہزار میگاواٹ ہے، تو کیا ہم پاکستان میں اپنی طلب جو ابھی 30 ہزار میگاواٹ تک بھی نہیں پہنچی، برقابی بجلی کے ساتھ ساتھ ہوائی اور شمسی توانائی کے ذرائع استعمال کرکے نہ صرف ارزاں، پائیدار، زرمبادلہ کے خرچ سے محفوظ اور ماحول دوست پلانٹس لگا کر پوری نہیں کرسکتے؟ اس حوالے سے امریکی ادارے نیشنل رینوبل انرجی لیبارٹری(NREL) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہوائی اور شمسی توانائی کی ناقابلِ یقین حد تک گنجائش موجود ہے۔ شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی گنجائش کا تخمینہ NPEL سے 2900 ہزار میگاواٹ لگایا گیا ہے جو ہماری موجودہ طلب سے سو گنا زیادہ ہے۔ جبکہ ہوائی توانائی پیدا کرنے کی گنجائش پاکستان میں 346 ہزار میگاواٹ (پاکستان کی موجودہ طلب سے پندرہ گنا زیادہ) ہے۔ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کی گئی ان عظیم نعمتوں ہوا، پانی اور سورج کے ذریعے فراہم کردہ لامتناہی اور کبھی نہ ختم ہونے والے برقی توانائی کے ذرائع کو نظرانداز کرکے غیر ملکی سرمایہ کاری، قرض اور سود کے ساتھ ساتھ خطیر زرمبادلہ کے اخراجات کو ترجیح دے کر ناشکری کا بھرپور مظاہرہ نہیں کررہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اب وقت آگیاہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے مفادات کا تحفظ کرنا سیکھیں اور اپنے حکمرانوں کو مجبور کریں کہ اپنے وقتی مالی مفادات کی خاطر غلط ترجیحات کے تعین کے بجائے ملک کی توانائی کی پالیسی کو صحیح رخ پر ڈالیں۔ اگر ہمیں پاکستان میں لوڈشیڈنگ سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرنی ہے اور قوم کو صنعتوں کے لیے، تجارت کے لیے اور گھروں کے لیے قابلِ استطاعت قیمت پر ارزاں بجلی فراہم کرنی ہے تو ہمیں درآمدی تیل، گیس اور کوئلہ پر انحصار ختم کرکے قدرت کے فراہم کردہ پانی، ہوا اور سورج کی توانائی کے ذرائع کو بروئے کار لانا ہوگا۔ پوری دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ بیرونی قرضوں سے نجات اور زرمبادلہ کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو لگا م دینی ہوگی۔ اپنی پالیسی میں تبدیلی کرکے ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پُرکشش مواقع پیدا کرنے ہوں گے تاکہ حکومتی سرمایہ کے ساتھ ساتھ ملکی سرمایہ کاروں کا رخ اور توجہ شمسی اور ہوائی توانائی کے چھوٹے سے لے کر بہت بڑے منصوبوں کی جانب کیا جاسکے۔ ہمیں موقع ملا تو ہائیڈل پاور پر توجہ دیں گے اور تیل اور گیس کے مہنگے منصوبوں کے بجائے پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے پاور اسٹیشن قائم کریں گے۔