اگر انتخابات کی ساکھ متاثر ہوگی تو اس سے ملک میں سیاسی بحران مزید بڑھے گا
۔2018ء کے انتخابات کے تناظر میں وفاقی اور صوبائی سطح پر نگران حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاقِ رائے سے مرکز اور صوبوں میں نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا تقرر ہوگیا ہے۔ صرف پنجاب میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مسائل دیکھنے کو ملے اور معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا، اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو حکومتی جماعت مسلم لیگ(ن) نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بھی الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا، لیکن وہاں کمیشن کے فیصلے کو سب نے قبول کرلیا۔ مسلم لیگ (ن)کا خیال تھا کہ الیکشن کمیشن اپوزیشن کے مقابلے میں ان کے نامزد کردہ دو افراد میں سے کسی ایک کا چنائو کرے گا، مگر فیصلہ ڈاکٹر حسن عسکری کا کیا گیا جن کا نام اپوزیشن نے دیا تھا۔ ڈاکٹر حسن عسکری کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی شہرت ایک علمی اور فکری فرد کی ہے، اور بین الاقوامی امور پر ان کی دسترس ہے۔ وہ ایک معروف دفاعی تجزیہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے ڈاکٹر حسن عسکری کی تقرری کو اسٹیبلشمنٹ انتخاب قرار دیا اورکہا کہ ہمیں ایک منظم حکمت عملی کے تحت دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ بنیادی طور پر مسلم لیگ(ن) جہاں ووٹ کی طاقت کی بنیاد پر انتخاب لڑتی ہے، وہیں اس کی حکمت عملی میں انتظامی طاقت بھی ہوتی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اِس بار انھیں محسوس ہورہا ہے کہ ان کی انتظامی طاقت کو کمزور کرکے کسی اورکو مضبوط کیا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن)کے اعتراضات کو مسترد کردیا اورکہا کہ ڈاکٹر حسن عسکری کی تقرری کمیشن کا متفقہ فیصلہ ہے۔
اب ان نگران حکومتوں کا سب سے بڑا چیلنج اپنی حکومتوں کی شفافیت پر مبنی ساکھ، غیر جانب دارانہ کردار، سازگار ماحول سمیت انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ اگرچہ نگران حکومتوں کا تجربہ بھی کوئی بہتر نتائج نہیں دے سکا، کیونکہ نگران حکومتوں کی زیر نگرانی ہونے والے انتخابات کی شفافیت اور ان کے غیر جانب دارانہ کردار پر سیاسی حلقوں میں سنگین نوعیت کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر تو انتخابات کا انعقاد موجود حکومت کو ہی کرنا چاہیے۔ یہی دنیا کا مسلمہ اصول بھی ہے، لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں اداروں کی کمزوری اور حکومتوں کے بارے میں موجود بداعتمادی کے باعث نگران حکومتوں کا تجربہ کرنا پڑا۔
نگران حکومتوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ریٹائرڈ ججوں، بیوروکریٹس، کاروباری شخصیات، معاشی ماہرین یا ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ لوگ غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ حالانکہ لفظ ’غیر سیاسی‘ کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہر فرد چاہے اُس کا براہِ راست سیاست سے تعلق نہ ہو تب بھی وہ اپنی سیاسی سوچ، فکر اور رائے رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بہت زیادہ آگے بڑھ کر سیاسی فیصلے کرنے یا کوئی بڑا اقدام اٹھانے میں مصلحت کا شکار رہتے ہیں اور بیوروکریسی پر بھی ان کا کنٹرول کمزور ہوتا ہے۔
اگرچہ انتخابات کی براہِ راست ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہوتی ہے، لیکن کیا الیکشن کمیشن خود اس حد تک خودمختار اور بااختیار ہے؟ اس کے باوجود نگران حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کی حمایت کے ساتھ شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بناتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ماضی میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر نگران حکومتوں سمیت الیکشن کمیشن کی جوابدہی کا کوئی تصور موجود نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم نگران حکومتوں کی موجودگی میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں؟ جب ہم منصفانہ اور شفاف انتخابات کی منطق کو اجاگر کرتے ہیں تو اس میں آٹھ بنیادی اصول کارفرما ہوتے ہیں:
(1) نگران حکومتوں کی تشکیل میں تمام سیاسی فریقین کا بھرپور اعتماد۔
(2) نگران حکومتوں کی اپنی عملی غیرجانب داری ۔
(3) نگران حکومتوں کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ اُن میں صلاحیت اور سیاسی کمٹمنٹ کا موجود ہونا۔
(4) سازگار ماحول یا سب کے لیے قابلِ قبول ماحول کو یقینی بنانا۔
(5) الیکشن کمیشن سمیت انتخابات سے جڑے دوسرے اداروں کی نگرانی اور مربوط کنٹرول کا نظام۔
(6) داخلی اور خارجی ہر سطح کی مداخلت کو روکنا جو انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
(7) الیکشن کمیشن کی مدد سے انتخابی قواعدو ضوابط پر عمل درآمد کو یقینی بنانا۔
(8) انتخابات کے نتائج کے بعد حکومت سازی میں معاونت فراہم کرنا اور انتخابی ساکھ کو قابلِ قبول بنانا۔
نگران حکومتوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس وقت ہمارے سیاسی ماحول اور سیاسی فریقین میں بہت زیادہ تقسیم اور محاذ آرائی موجود ہے۔ ابھی انتخابات کا ابتدائی ماحول ہی سامنے آیا ہے کہ ملک میں نگران حکومتوں کی صلاحیت اور پری پول رگنگ کی باتوں میں بعض سیاسی فریقین شدت پیدا کررہے ہیں۔ ان کے بقول انتخابات سے قبل ہی انتخابات کے نام پر سلیکشن کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ بعض عسکری مداخلت پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ پنجاب میں نگران وزیراعلی ڈاکٹر حسن عسکری جیسی علمی شخصیت کو مسلم لیگ (ن) بلاوجہ متنازع بنارہی ہے، حالانکہ وہ کسی پارٹی کے لیے خطرہ نہیں۔ حسن عسکری کی تقرری شفاف انتخابات کو یقینی بناسکتی ہے، اور مسلم لیگ (ن) جو انتظامی طاقت کو بنیاد بناکر انتخاب پر اثرانداز ہوسکتی تھی، اس کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ یہی مسلم لیگ (ن) کی پریشانی ہے اور اسی کی بنیاد پر ڈاکٹر حسن عسکری کو متنازع بناکر انتخابی عمل کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والا انتخابات کو شفاف، اور ہارنے والا اسے دھاندلی سے جوڑ کر انتخابی ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، انجینئر خرم دستگیر اور خواجہ سعد رفیق نے جس انداز میں ڈاکٹر حسن عسکری کی تقرری پر پریس کانفرنس کی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے خلاف آنے والے انتخابی فیصلے کو قبول کرنے کے بجائے دھاندلی کا شور مچائے گی۔
اصولی طور پر نگران حکومتوں کا کام اُس وقت آسان ہوجاتا ہے جب اُن کے سامنے ادارے مضبوط شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ کیونکہ اداروں کی مضبوطی میں خود نگران حکومتوں کی اپنی مداخلت بھی محدود ہی رہتی ہے۔ لیکن محدود وقت کے لیے بننے والی نگران حکومت اور خودمختاری سے عاری الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کو یقینی بنانے میں کئی طرح کے مسائل سے دوچار رہتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے بعد پولیس اور بیوروکریسی کا کردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ انتخابات کے انعقاد میں نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو ان ہی دو بڑے اداروں پر بھروسا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پچھلی چند دہائیوں سے ہم نے بیوروکریسی اور پولیس کے نظام میں جس بے دردی سے مداخلت کی اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے مرضی کے لوگ لگائے اس عمل نے پورے انتخابی نظام کی شفافیت کو متاثر کیا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے سے قبل بیوروکریسی سمیت اعلیٰ انتظامی عہدوں پر ایسے افراد کی تقرری کو یقینی بناتی ہیں جو ان کے لیے انتخابات میں سازگار ماحول فراہم کریں تاکہ وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرسکیں۔ اس لیے نگران حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بیوروکریسی سمیت انتظامی عہدوں پر کڑی نگرانی کے ساتھ تقرری اور تبادلے کریں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی فرد ریاستی یا حکومتی مدد کے ساتھ انتخابات کی شفافیت کو متاثر نہ کرسکے۔ اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ پنجاب میں آنے والے دنوں میں وسیع پیمانے پر سرکاری افسران اور بیوروکریسی کے تبادلے ہوں گے جن میں چیف سیکرٹری اور آئی جی سمیت ڈی پی او، ڈی سی او کے تبادلے شامل ہیں۔ اصل میں مسئلہ محض انتخابات کو یقینی بنانا نہیں، کیونکہ انتخابات تو ہوجائیں گے، بڑا سوال ان انتخابات کی شفافیت اور ساکھ کا ہے۔کیونکہ ہمارے جیسے کمزور جمہوری اداروں یا نظام میں شفاف، غیر جانب دار، منصفانہ اور دھاندلی سے پاک انتخابات کا عمل مستقبل کے جمہوری تناظر میں اہمیت رکھتا ہے۔ اسی طرح نگران وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ یا وزرا کا مسئلہ محض نیک نامی نہیں ہوتا۔ نیک نامی کے علاوہ بڑا مسئلہ ان کی صلاحیت اور مقابلہ کرنے کی طاقت اور درپیش چیلنجز سے نمٹنا بھی ہوتا ہے۔
یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا نگران حکومتیں تمام فریقین یا اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اپنے کام یعنی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بناتی ہیں یا بغیر مشاورت اور خود کو عقلِ کُل سمجھنے کی روش اپناتی ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات محض نگران حکومتوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ اس میں آگے بڑھ کر تمام فریقین بشمول ووٹرز کو اس مہم کا حصہ بناکر شفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ پری پول رگنگ کے جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں ان سے بھی شفاف انداز سے نمٹا جائے، اورجو فریقین ان سوالات کو اٹھارہے ہیں اُن سے اس کے شواہد مانگیں جائیں، لیکن اگر ان کے پاس شواہد نہیں محض سیاسی الزام تراشیاں ہیں تو اُن کا بھرپور جواب دے کر شفافیت کے عمل کو قائم کیا جائے۔
2018ء کے انتخابات ایسے ماحول میں ہورہے ہیں جہاں ایک بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن)کی اپنے اتحادیوں سمیت اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی چل رہی ہے۔ نوازشریف تو کھل کر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ گٹھ جوڑ کا الزام لگا رہے ہیں اور ججوں کو براہِ راست چیلنج کرکے پہلے ہی اداروں کی ساکھ کو چیلنج کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر اُن کو محسوس ہوا کہ انتخابات کے نتائج اُن کے حق میں نہیں آرہے تو وہ نگران حکومتوں سمیت الیکشن کمیشن پر بھی یہ الزامات عائد کریں گے کہ یہ سب مل کر اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کے تحت ہمیں دیوار سے لگانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ڈر ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں دھاندلی کے سوالات اٹھیں گے جو مزید محاذ آرائی پیدا کریں گے۔
اس لیے نگران حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک بنیادی کوڈ آف کنڈکٹ سامنے آنا چاہیے جو انتخابی عمل دھاندلی اور تنازع سے پاک رکھے۔ اسی طرح نگران حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ میڈیا سمیت سول سوسائٹی کے اُن اداروں کو بھی جو انتخابات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، انتخابات کے انعقاد میں حصہ دار بناکر شفافیت کے عمل کو یقینی بنائیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نگران حکومتیں معلومات کی ترسیل کو اتنا آسان بنائیں کہ لوگ ان کے کام اور طریقہ کار کو جانچ سکیں۔ نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وزرا کی بھی کڑی نگرانی رکھیں کہ وہ جان بوجھ کر کسی کی حمایت میں شامل نہ ہوں، تاکہ شفاف انتخابات ممکن ہوسکیں۔کیونکہ اگر انتخابات کی ساکھ متاثر ہوگی تو اس سے ملک میں سیاسی بحران مزید بڑھے گا جو سیاسی فریقین میں ایک بڑی محاذ آرائی کو پیدا کرنے کا سبب بھی بنے گا۔