پرویز مشرف کی واپسی، اور نااہلی کے فیصلے ختم ہونے کا امکان
عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتیں اور سیاسی اتحاد اپنے امیدواروں کی کھیپ میدان میں اتارچکے ہیں، دوسرا مرحلہ اب جمع تفریق کا ہے جس میں امیدواروں کی حمتی فہرست سے قبل سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے جادو کی چھڑی گھمائی جائے گی تاکہ کامل سیاسی فتخ یقینی بنائی جاسکے۔ آخری مرحلے میں امیدواروں کو حتمی انتخابی نشان الاٹ کردیے جائیں گے۔ حالات سازگار رہے تو آج سے ڈیڑھ ماہ بعد 25 جولائی کو ملک میں عام انتخابات کے لیے پولنگ ہورہی ہوگی۔ ابہام اس لیے ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں حلقہ بندیوں سے متعلق زیرالتوا بہت سی درخواستوں کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ ایم کیو ایم اور مصطفی کمال مردم شماری کے نتائج سپریم کورٹ میں چیلنج کرچکے ہیں، اس ماحول میں ملک میں انتخابی مہم جاری ہے اور انتخابات میں اس وقت بڑی سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، اور سیاسی اتحادوں میں متحدہ مجلس عمل، سندھ میں گرینڈ الائنس انتخابی عمل کے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ علاقائی جماعتیں اور آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ ان تمام کے حوالے سے حتمی تجزیہ انتخابی دن سے دو ڈھائی ہفتے قبل ہی ممکن ہوگا۔ ایک اجمالی جائزہ یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں بھی حکومتوں کی کارکردگی، برادری، دیہاتی ڈیرے، معیشت، روزگار کی فراہمی کے نعرے اور سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کی مقبولیت اور اس کا بیانیہ، انتخابی مہم میں میڈیا کی سیڑھی اور علاقائی، لسانی عصبیت اہم ترین فیکٹر ہوں گے۔ اب تک جتنے بھی سیاسی سروے ہوئے ہیں ان میں 27 فی صد ووٹرز کی رائے حکومتوں کی کارکردگی کے حق میں رہی ہے۔ ان سروے میں دوسری اہم ترین بات یہ سامنے آئی کہ دیہاتی حلقوں میں زیادہ تر اثر ڈیروں کا ہے، جس سیاسی جماعت کے ساتھ دیہاتوں کا بڑا ڈیرہ ہوگا اس کے امیدوار کی کامیابی آسان ہے۔ جب کہ شہری حلقوں میں میڈیا، سیاسی لیڈرشپ، معیشت اور روزگار کی فراہمی جیسے ایشوز زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ یہ سروے اعجاز شفیع گیلانی کے گیلپ پاکستان اور انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین نے کیے ہیں۔ ان سروے کی تجزیاتی رپورٹ حالات کی کلی تصویر تو نہیں بلکہ دیگ کا ایک دانہ ہی سمجھا جائے۔
اس وقت ملک میں نگران حکومتیں بن چکی ہیں، وزیراعظم ناصرالملک اور تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بر وقت انتخاب چاہتے ہیں۔ بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ علاالدین مری نے حلف لینے کے بعد پہلا بیان دیا کہ انتخابات ایک ماہ کے لیے ملتوی بھی ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس نگران وزیراعلیٰ کے لیے اشرف جہانگیر قاضی اور سابق اسپیکر اسلم بھوتانی کے نام بھی تھے لیکن فیصلہ علاالدین مری کے حق میں ہوا۔ بہرحال نگران وزیراعلیٰ کی حیثیت سے انہیں یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا، اگر کسی کے اشارے پر دیا ہے تو الگ بات ہے۔ الیکشن کمیشن اور نگران وزیراعظم ناصرالملک کی جانب سے اُن کے اس بیان پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ نگران وزیراعظم اور الیکشن کمیشن کو نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کے اس بیان کا نوٹس لینا چاہیے تھا، لیکن نگران حکومت کچھ داخلی مسائل میں الجھی ہوئی ہے جن میں خارجی محاذ پر پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ کا مسئلہ درپیش ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے مسلسل یہ معاملہ زیر غور آرہا ہے۔ حکومتِ پاکستان متعدد اقدامات اٹھاکر عالمی برادری کو یقین دہانی کرانا چاہتی ہے کہ اسے گرے لسٹ سے باہر رکھا جائے۔ غالباً ملّی مسلم لیگ کی بطور سیاسی جماعت رجسٹریشن بھی اسی سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ بلاشبہ گرے لسٹ کا معاملہ غیر معمولی ہے، اسی لیے قومی سلامتی کمیٹی اسے نہایت سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
ملک میں نگران حکومت کے قیام کے بعد امریکہ نے پاکستان سے اعلیٰ سطحی رابطہ کیا ہے، یہ رابطہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور نگران وزیراعظم ناصرالملک سے ہوا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ کے دفتر سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپے نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فون پر بات کی جس میں انھوں نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری لانے کے طریقہ کار اور افغانستان میں سیاسی اتفاقِ رائے کی اہمیت کے بارے میں بات چیت کی، اور جنوبی ایشیا میں تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلا تفریق کارروائی پر زور دیا۔ اعلیٰ سطح کی یہ بات چیت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب گزشتہ ماہ ایک دوسرے کے سفارت کاروں پر سفری پابندیوں کے سبب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں اور امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد روکنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ نے الزام لگایا کہ پاکستان انتہا پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کررہا ہے، جبکہ پاکستان ان تمام الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ سال 2018ء کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کو بے وقوف بناتا آیا ہے اور امریکہ نے انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی ہے، لیکن پاکستان انہی انتہا پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کررہا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے یہ پالیسی بنائی کہ عالمی برادری کے کسی غلط اور ناجائز الزام کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اپنا گھر بھی ٹھیک رکھا جائے گا۔
یہ پس منظر ہے جس میں ملک میں عام انتخابات ہورہے ہیں۔ دوسرا زاویہ ملکی معیشت اور نئی منتخب حکومت کے لیے معاشی چیلنجز سے متعلق ہے۔ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے وزارتی حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے بات چیت کا آغاز کریں۔ ردعمل میں وفاقی حکومت نے کیبنٹ ڈویژن کے ذریعے ایک سرکلر شائع کیا ہے، جس میں الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 230 کی طرف توجہ دلائی گئی اور کہا گیا ہے کہ تمام وزارتوں کے حکام اس میں بیان کردہ حدود کا خیال رکھیں۔ اس شق میں عبوری حکومت کو صرف اور صرف روزمرہ کے کام کرنے تک محدود کردیا گیا ہے اور صراحتاً ہر اُس کام سے روک دیا ہے جو کسی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو، سوائے اس کے کہ کوئی ہنگامی صورت حال اس کی متقاضی ہو۔ لہٰذا آئی ایم ایف سے بات کرنا نگران حکومت کے دائرۂ اختیار میں شامل نہیں ہے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر امریکی لابی کے قریب سمجھی جاتی ہیں، آئی ایم ایف پاکستان سے کیا چاہتا ہے اور امریکی کیا چاہتے ہیں نگران وزیر خزانہ اسے خوب سمجھتی ہیں۔ انہیں وزارتِ خزانہ میں امریکی لابی کی حمایت بھی میسر ہے، لہٰذا آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کے لیے فضا سازگار بنائی جارہی ہے۔
معاشی حقائق یہ بھی ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ ماہ میں بڑی مقدار میں بیرونی قرضے حاصل کیے گئے ہیں، اب انہیں واپس بھی کرنا ہوگا۔ یوں سمجھ لیں کہ منتخب حکومت پھولوں کے بستر پر نہیں، کھلے سمندر میں ہچکولے کھاتی کشتی پر سوار ہوگی۔ اگر آئی ایم ایف سے مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے تو ماضی کے عہد و پیمان اور ان میں بگاڑ کی صورت آڑے آئے گی اور نئے پروگرام کی شرائط سخت ہوں گی۔ آئی ایم ایف بجٹ کے خسارے کو کم کرنے کی ہدایت کرے گا۔ ہمیں اس وقت جی ڈی پی کے چار فیصد خسارے کا سامنا ہے لیکن یہ خسارہ حقیقت میں کم از کم 7فیصد ہے۔ گردشی قرضے شامل کرلیے جائیں تو یہ خسارہ 8فیصد سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ پروگرام کی شرائط میں اوّلین شرط، اس خسارے کو فوری طور پر 5 فیصد پر لانا، ہوگی۔ اس کا مطلب ہے آئندہ مالی سال میں ہمیں 3 فیصد خسارہ کم کرنا ہوگا جس کے لیے 11 کھرب روپے کے اضافی وسائل مہیا کرنا یا اخراجات کو کم کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں ترقیاتی بجٹ پر بڑی کٹوتی لگانا پڑے گی۔ ملکی معیشت کی یہ تصویر سامنے رکھی جائے تو سیاسی جماعتوں کے منشور میں بیان کیے گئے دعوے پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔
ہمارا سیاسی المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت معاشی وسائل کے ضیاع کو روک نہیں سکی۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے 54 ارب روپے کا قرضہ معاف کرانے والی 222 کمپنیوں اور افراد سے تفصیلی جواب طلب کیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت ِ عظمیٰ کے خصوصی بینچ نے اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ کیے گئے تو معاملہ قومی احتساب بیورو کے حوالے کردیں گے اور قرض نادہندگان کی جائدادیں بھی ضبط کرلی جائیں گی، جو کمپنیاں عدالت میں پیش نہیں ہوتیں ان کے خلاف یک طرفہ کارروائی ہوگی، اور جو کمپنیاں ختم ہوچکی ہیں ان کے مالکان سے وصولی کی جائے گی۔ فاضل عدالت اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کیس سیاست دانوں، جاگیرداروں اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ پر ضرب بن سکتا ہے۔ ان عناصر نے ہی بینکوں سے قرضے لے کر اپنی جائدادیں اور کاروبار بڑھائے۔ یہ استحصالی طبقات ملکی وسائل پر بھی قابض ہیں اور اقتدار کی راہداریوں میں بھی گھسے ہوئے ہیں۔ مراعات یافتہ اشرافیہ کے یہی وہ طبقات ہیں جنہوں نے قومی وسائل کی لوٹ مار کے علاوہ ٹیکس چوری اور واجب الادا ٹیکس ادا نہ کرنے کی سینہ زوری والا کلچر بھی فروغ دیا اور بینکوں سے بھاری قرضے لے کر اور پھر خود کو دیوالیہ قرار دے کر اپنے واجب الادا قرضے معاف کرانے کے کلچر کو فروغ دیتے رہے۔ ان مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کی پانچوں انگلیاں ہمیشہ گھی میں رہیں۔ اس کیس کی سماعت اگر آگے بڑھی اور مشرف دور میں قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست پیش ہوئی تو بڑے سیاسی خاندانوں کے چھے ہزار سے زائد افراد کے ناموں کی فہرست منظرعام پر آئے گی۔ بیوروکریٹس، تاجروں اور صنعت کاروں کے نام بھی قرض نادہندگان کی اس فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر پلی بارگیننگ کے فارمولے پر عمل کرکے نیب کے شکنجے سے نکل آئے ہیں۔ مشرف دور کی اسمبلی میں اُس وقت کے وزیر خزانہ حفیظ اللہ شیخ نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران اس امر کا انکشاف کیا تھا کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سمیت ان منتخب ایوانوں میں بیٹھے گیارہ سو منتخب ارکان میں سے ساڑھے آٹھ سو ارکان ٹیکسوں کی مد میں قومی خزانے میں ایک دھیلا بھی جمع نہیں کراتے۔ ایسا ہی انکشاف سپریم کورٹ میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کی رقوم کے حوالے سے زیرسماعت کیس کے دوران ہوا، جس کے مطابق مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات بشمول بیوروکریٹس، بینکاروں اور صنعت کاروں کی چار سو ارب ڈالر سے زائد رقوم سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی ہیں۔ یہ معاملات پاناما لیکس میں بھی اجاگر ہوئے۔ عدالتی اور قانونی کارروائی کو انتقامی کارروائی کا نام دے کر آج بھی اپنے پاک صاف ہونے کے ڈنکے بجائے جارہے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود ایک بڑی پیش رفت ہونے کا امکان ہے کہ عدلیہ کی جانب سے پاناما فیصلے سمیت نااہلی کے حوالے سے کیے گئے تمام فیصلے واپس لے لیے جائیں گے اور نااہل افراد کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی جائے گی۔ پرویزمشرف کے لیے واپسی کی راہ ہموار کرنا اس کی ابتدا ہے۔ آئینی اور قانونی لحاظ سے زمین اس لیے بھی زرخیز ہے کہ ان کے غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کا بینچ ٹوٹ چکا ہے، نئے بینچ کی تشکیل کے لیے وفاقی حکومت ہی عدلیہ سے درخواست کرنے کی مجاز ہے۔ پرویز مشرف کے لیے پاکستان آنے کی سہولت کی فراہمی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ عدلیہ ان کی پاکستان واپسی کے لیے تحریری حکم بھی جاری کرسکتی ہے، کیونکہ تحریری حکم کے بغیر پرویزمشرف واپس نہیں آئیں گے۔ اگر ان کے لیے کوئی تحریری حکم جاری ہوا تو پھر پچھلے برسوں میں دیئے گئے فیصلے بھی واپس ہوں گے۔ عدلیہ کے سارے فیصلے بشمول پاناما نااہلی آنے والے دنوں میں واپس لے لیے جائیں گے اور نااہلیاں ختم کرکے سب کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی جائے گی۔