قومی خزانہ لوٹنے والوں سے 54 ارب روپے واپس لینے کا عزم
ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے جب سے تحرک اور فعالیت کا مظاہرہ شروع کیا ہے، نت نئے معاملات قوم کے سامنے آرہے ہیں، اور بعض ایسے امور کی بھی پردہ کشائی ہورہی ہے کہ ماضی میں جن کی کبھی توقع نہیں کی گئی۔ حکمران جن کا کام قومی وسائل اور ملکی خزانے کی حفاظت و نگہبانی کرنا ہے، وہ عملاً محافظ کے بجائے لٹیرے ثابت ہوئے۔ عوامی نمائندگی کے نام پر جو لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے رہے انہوں نے بھی چوروں اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کے گرد شکنجہ کسنے کے بجائے قانون سازی کے ذریعے ایسے چور دروازے سُجھائے کہ جو جتنا بڑا چور اور لٹیرا ہو اُس کے فرار کے راستے اتنے ہی کھلے اور وسیع الطرفین ہوں۔ یہ اسی دوغلے اور بڑے بڑے لٹیروں کے محافظ نظام کی برکات ہیں کہ کوئی شخص چند سو روپے کا بجلی کا بل کسی مجبوری کے باعث ایک ماہ جمع نہ کرا سکے تو اگلے ماہ کے بل کی آمد کے ساتھ ہی اس کا کنکشن منقطع کردیا جاتا ہے اور اسے بجلی کی فراہمی رک جاتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس لاکھوں اور کروڑوں روپے کے واجبات ادا نہ کرنے والے نادہندگان کی بجلی منقطع کرنے کی ہمت واپڈا کے کسی اہلکار اور افسران کو نہیں ہوتی۔ چند ہزار یا چند لاکھ کا قرض لے کر اس کی قسطیں باقاعدگی سے ادا نہ کرسکنے والے شخص یا اُس کے ضامن کی جائداد قرق کرکے نیلام کرنے کا نوٹس جاری کرنے میں تو کوتاہی کی جاتی ہے نہ تساہل… مگر کروڑوں اربوں روپے کے قرضے لے کر ہڑپ کرجانے والے بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار دندناتے پھرتے ہیں، مگر ان سے قومی خزانے کو پہنچائے گئے اس بھاری نقصان کا حساب لینے کی جرأت کوئی نہیں کرتا۔ اگر عوام کی اشک شوئی کے لیے کبھی کوئی قانون بنایا بھی جاتا ہے تو اس میں پیشگی ایسے چور دروازے رکھنے کا اہتمام لازماً کیا جاتا ہے کہ چور کو فرار ہونے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
عدالتِ عظمیٰ کے موجودہ منصفِ اعلیٰ نے جب سے یہ منصب سنبھالا ہے وہ قومی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لارہے ہیں، اور اس کام میں صبح دیکھتے ہیں نہ شام، انہوں نے اپنی ہفتہ وار تعطیل بھی منسوخ کررکھی ہے اور اپنا آرام تج کر قائداعظم کے فرمان کے مطابق کام… کام اور فقط کام میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہ مصروفیت بعض لوگوں کو اپنی حدود سے باہر نکلتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہے اور بعض لوگ اسے دیگر اداروں کی حدودِ کار میں مداخلت بھی قرار دیتے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے، یہ بہرحال حقیقت ہے کہ منصفِ اعلیٰ کے تحرک نے پورے معاشرے خصوصاً سرکاری حلقوں میں ہلچل برپا کررکھی ہے۔ منصفِ اعلیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے گزشتہ جمعہ کو قرضوں کی معافی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی اور قومی خزانے سے 54 ارب روپے کی خطیر رقم قرض لے کر واپس نہ کرنے والی 222 کمپنیوں اور اشخاص سے ایک ہفتے میں تفصیلی جواب طلب کرلیا۔ منصفِ اعلیٰ میاں ثاقب نثار نے اس موقع پر اظہارِ رائے کرتے ہوئے کہا کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ کیے تو معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیں گے اور قرض نادہندگان کی جائدادیں بھی ضبط کرلی جائیں گی۔ میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیوں ناں نادہندگان کی جائدادیں ضبط کرلیں؟ قوم کے 54 ارب روپے ڈکارے گئے۔ قرضے معاف کرواکے لٹ ڈالی گئی۔ کسی کو وقت نہیں دینا، کیوں ناں معاف ہوئے قرضوں کو کالعدم یا قرض معافی کی رعایت کو غیر قانونی قرار دے دوں۔ قرض معاف کرانے والی کمپنیاں اب تک چل رہی ہیں۔ قرض خوروں نے لینڈ کروزر اور پراڈو گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں۔ قرضہ معاف کروانے والوں کو پیسے واپس دینے ہوں گے۔ جو کمپنیاں پیش نہیں ہوتیں ان کے خلاف یک طرفہ کارروائی ہوگی۔ جو کمپنیاں ختم ہوچکی ہیں ان کے مالکان سے وصولی کریں گے۔ وکلا کی، سماعت ملتوی کرنے کی استدعا پر چیف جسٹس کا جواب میں کہنا تھا کہ یہ اہم کیس ملتوی نہیں کرسکتا۔ روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت ہوگی۔ وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ ایس ای سی پی کے ذریعے کمپنیز کو نوٹس دیئے جائیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پبلک نوٹس کردیا ہے، اگر کوئی نہیں آتا تو اپنے رسک پر مت آئے۔ جو کمپنیاں نہیں آئیں گی ان کے خلاف یک طرفہ کارروائی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے سماعت 19 جون تک ملتوی کردی۔ 19 جون سے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی۔
منصفِ اعلیٰ نے اس ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت واپس لانے کے لیے جس عزم بالجزم کا اظہار کیا ہے ان کی کامیابی کے لیے دعا کی جانی چاہیے، کیونکہ جیسا کہ ابتدائی سطور میں عرض کیا گیا ہے کہ جب سے یہ مملکتِ خداداد وجود میں آئی ہے یہاں قومی خزانے کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے، اور جب کبھی اس کی روک تھام کے نام پر کوئی کوشش یا قانون سازی کی گئی وہ اس قدر بے دلی سے اور ایسے طریقے سے کی گئی کہ اب تک کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکی۔ سابق فوجی آمر جنرل پرویزمشرف نے بلند بانگ دعووں کے ساتھ، نیب کے نام سے احتساب کا جو ادارہ قائم کیا تھا اس کی کارکردگی اب تک نتیجہ خیز نہیں ہوسکی، کیونکہ اول روز ہی سے اس کی تعمیر میں خرابی کی ایک صورت مضمر تھی، چنانچہ قریباً بیس برس گزرنے کے باوجود یہ ادارہ سیاسی انتقام کا ذریعہ بنا ہو تو ہو، مگر قومی خزانے کی حفاظت کا فرض ادا کرنے میں قطعی ناکام رہا ہے۔ ادارے کے موجودہ سربراہ اگرچہ بلند عزائم کا اظہار کررہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی جانچنے میں ابھی وقت لگے گا، تاہم اب تک اس ادارے کی کارکردگی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیونکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی قانون سازی کرتے ہوئے ’’پلی پارگین‘‘ کا جو چور دروازہ رکھا گیا تھا اس نے احتساب کے سارے عمل ہی کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ’’پلی بارگین‘‘ کا یہ قانون عجیب مضحکہ خیز ہے کہ کوئی فرد اگر ایک ارب روپے کی بدعنوانی میں ملوث پایا گیا ہو تو قانون میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ نیب حکام سے سودے بازی کے ذریعے ایک کروڑ روپیہ قومی خزانے میں جمع کراکے غبن شدہ باقی رقم کو جائز اور پاک قرار دلوا سکتا ہے۔ اس چور دروازے نے قومی خزانے کی لوٹ مار کی روک تھام کے بجائے اس کے تحفظ اور اس میں اضافے کے راستے کھولے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے اس مضحکہ خیز قانونِ احتساب پر تنقید تو کی مگر اس کے ازالے کے لیے کوئی متبادل قانون سازی کرنے پر قطعی توجہ نہیں دی گئی۔
قرضے معاف کرانے والوں کے بارے میں تو عدالتِ عظمیٰ کے ازخود نوٹس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ 222 کمپنیوں یا اشخاص نے 54 ارب روپے کے قرضے لے کر ہضم کرلیے، مگر قبل ازیں اس سے بھی کہیں بڑھ کر انکشاف عدالتِ عظمیٰ ہی میں سامنے آچکا ہے کہ ملک کے بڑے بڑے سیاست دانوں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں نے چار سو ارب ڈالر سے زائد رقوم سوئز بینکوں میں چھپا رکھی ہیں۔ سابق دورِ حکومت میں ایک سابق منصفِ اعلیٰ نے یہ رقوم واپس لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر یہ رقوم پاکستان واپس آنے کا خواب ہنوز شرمندۂ تعبیر ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور اُن کے خاندان کی سوئز بینکوں میں پڑی رقوم پاکستان کے حوالے کرنے کے سلسلے میں خط لکھنے کے حکم کی عدم تعمیل پر پیپلز پارٹی کے وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی قربانی دے دی مگر یہ خط نہیں لکھا۔ بعد ازاں اُن کے جانشین نے عدالت کے حکم کی ’’تعمیل‘‘ میں یہ خط ارسال بھی کردیا مگر اس پر عمل درآمد سے متعلق قوم آج تک بے خبر ہے۔ اس طرح پاناما پیپرز میں ہونے والے انکشافات کے مطابق چار سو کے قریب افراد آف شور کمپنیوں کے دھندے میں ملوث پائے گئے مگر آج تک ان میں سے کسی ایک کا بھی نتیجہ خیز احتساب نہیں کیا جا سکا، اور اس ضمن میں وقت کے حکمران شریف خاندان کے خلاف جو کارروائی اب تک کی گئی ہے اسے بھی احتساب سے زیادہ انتقام قرار دے کر شکوک وشبہات ہی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں اگر آف شور کمپنیاں رکھنے والے تمام افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جاتی تو شاید یہ صورتِ حال پیدا نہ ہوتی۔
اب منصفِ اعلیٰ جناب میاں ثاقب نثار نے قومی بینکوں سے قرضے لے کر واپس نہ کرنے والوں کے گرد شکنجہ کسنے کے عزم کا ارادہ ظاہر کیا ہے تو ماضی کے تجربات کی روشنی میں اُن کے لیے اور اُن سے بڑھ کر قومی خزانے کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اس کی لوٹ مار کی روک تھام کے لیے واقعی کوئی ٹھوس کارروائی سامنے آسکے اور لوٹ مار کرنے والوں کے گرد محض گھیرا ہی تنگ نہ کیا جائے بلکہ حقیقتاً ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوئی عملی مثال بھی سامنے آسکے۔ ورنہ اب تک کے ایسے اقدامات و تجربات کم ہی نتیجہ خیز ہوئے ہیں۔ کچھ دیر ایک ہنگامہ اور شور وغوغا ضرور برپا ہوتا ہے، پھر یہ سب سمندر کے جھاگ کی طرح غائب ہوجاتا ہے ؎