فٹ بال ورلڈ کپ 2018ء

اب جبکہ فٹبال کے عالمی میلے کا بخار چڑھنے لگا ہے آئیے آپ کو ان اور ان جیسے اور کچھ سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔
1۔ ورلڈ کپ کون کون جیتا؟
ورلڈ کپ میں فتوحات کی بات ہو تو برازیل کا نام سرفہرست ہے۔ اس جنوبی امریکی ملک نے پانچ مرتبہ یہ ٹورنامنٹ جیتا ہے۔
آخری مرتبہ برازیل نے یہ ٹورنامنٹ 2002 میں جیتا تھا۔ 2014 میں وہ اس کے میزبان تھے لیکن سیمی فائنل میں انھیں سات ایک کی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
آپ کے خیال میں 2018 کا فٹبال ورلڈ کپ کون جیتے گا؟
کیا آپ فٹبالرز کو ٹیٹوز کی مدد سے پہچان سکتے ہیں؟
آج تک یورپ اور جنوبی امریکہ سے تعلق رکھنے والے ممالک کے علاوہ کوئی اور ملک ورلڈ کپ جیت نہیں سکا۔
آخری تین فائنلز میں جرمنی، سپین اور اٹلی کی فتوحات کا مطلب یہ ہے کہ مجموعی طور پر یورپ کا پلہ 11 فتوحات کے ساتھ بھاری ہے جبکہ جنوبی امریکی ممالک نے نو مرتبہ یہ مقابلے جیتے ہیں۔
2۔ سب سے زیادہ گول کس نے کیے؟
جرمن گول مشین کے نام سے معروف میروسلاو کلوز چار ورلڈ کپ مقابلوں میں 16 گولوں کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ وہ 2016 میں ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن ٹیم کے عملے کے رکن کی حیثیت سے روس میں موجود ہوں گے۔
برازیل کے رونالڈو کے گولوں کی تعداد 15 ہے جن میں سے آٹھ انھوں نے صرف ایک برس یعنی 2002 میں کیے تھے۔
فرانس کے جسٹ فونٹین کے پاس ایک ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول کرنے کا ریکارڈ ہے۔ انھوں نے 1958 کے ورلڈ کپ میں چھ میچوں میں 13 گول کیے تھے۔
3۔ موجودہ کھلاڑیوں میں آگے کون؟
روس میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں صرف ایک ایسا کھلاڑی شریک ہے جس نے ورلڈ کپ مقابلوں میں دس یا اس سے زیادہ گول کیے ہیں۔ وہ ہیں جرمن مڈفیلڈر ٹامس مْلر۔ مْلر اگر اس ٹورنامنٹ میں مزید پانچ گول کرنے میں کامیاب رہیں تو وہ اپنے ہی سابق ساتھی میروسلاو کلوز کے برابر آ جائیں گے۔
گذشتہ ورلڈ کپ میں گولڈن بوٹ حاصل کرنے والے کولمبیا کے جیمز رودریگز اگر وہی کارکردگی اس ٹورنامنٹ میں بھی دہرانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور ان کا نام بھی ٹاپ اسکوررز کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔اس فہرست میں شامل واحد دفاعی کھلاڑی میکسیکو کے 39 سالہ رافیئل مارکیز ہیں جن کا یہ پانچواں ورلڈ کپ ہے اور ان عالمی مقابلوں میں ان کے گولوں کی تعداد پرتگال کے عالمی شہرت یافتہ فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو کے برابر ہے۔
4۔ ٹیمیں اب گول کرنے کی زیادہ کوشش نہیں کرتیں
گذشتہ ورلڈ کپ گول پر حملوں کے معاملے میں 1966 کے بعد ’بدترین‘ تھا۔
تاہم اس کے باوجود 1982 میں سپین ورلڈ کپ کے بعد ان مقابلوں میں ہر میچ میں اوسطاً سب سے زیادہ یعنی 7.2 گول ہوئے۔
دیکھا جائے تو اب زیادہ فاصلے سے گول کو نشانہ بنانے کے رجحان میں کمی آئی ہے۔ اس سلسلے میں اگر 1966 کے ورلڈ کپ فائنل کا 2014 کے فائنل سے تقابل کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1966 میں باکس کے اندر سے لگنے والی شاٹس کی تعداد باہر سے لگنے والی شاٹس کی تعداد سے نصف سے بھی کم تھی۔
تاہم 2014 میں گول کی جانب جو 20 شاٹس لگائی گئیں ان میں سے بیشتر پنلٹی ایریا کے اندر سے لگیں۔
5۔انگلینڈ چاہے پیچھے ہو مگر پریمیئر لیگ سب سے آگے
1966 کے بعد سے انگلینڈ کی ٹیم ورلڈ کپ میں صرف ایک مرتبہ کوارٹر فائنل مرحلے سے آگے بڑھ پائی ہے لیکن اس کے باوجود دیگر ملکوں کے سکواڈ آپ کو انگلش پریمیئر لیگ کھیلنے والے کھلاڑیوں سے بھرے دکھائی دیتے ہیں۔
اس ورلڈ کپ میں جس لیگ میں حصہ لینے والے سب سے زیادہ کھلاڑی شریک ہیں وہ انگلش پریمیئر لیگ ہی ہے۔
جب ورلڈ کپ کے سکواڈز کا اعلان ہوا تو ان میں 130 ایسے کھلاڑی تھے جو انگلینڈ میں تین ٹاپ لیگز کھیل رہے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں 81 سپین جبکہ 67 جرمنی میں کھیل رہے تھے۔
یوروگوئے، پاناما، سعودی عرب اور روس وہ ممالک ہیں جنھوں نے انگلینڈ میں کھیلنے والے اپنے کھلاڑی واپس نہیں بلائے۔
انگلینڈ وہ ملک ہے جس کا تمام اسکواڈ ایک ہی ملک میں کھیلنے والی لیگ سے ہے جبکہ دوسری جانب سویڈن اور سینیگال وہ دو ممالک ہیں جن کے اسکواڈ میں شامل ایک بھی کھلاڑی مقامی لیگ نہیں کھیلتا۔
6۔ میزبان ٹیم کیسی کارکردگی دکھاتی رہی ہے؟
برازیل میں کسی کو بھی یاد کروانے کی ضرورت نہیں کہ جب انھوں نے فٹبال کے ورلڈ کپ کی میزبانی کی تو کیا ہوا تھا۔ 1950 میں یوروگوئے کے ہاتھوں شکست اور 2014 میں جرمنی کے ہاتھوں سات ایک سے ہار قومی شرمندگی سے کم نہیں۔
لیکن دیگر زیادہ تر میزبانوں نے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ روس امید کرے گا کہ یہی چلن برقرار رہے اور وہ اپنے گروپ سے اگلے مرحلے میں جانے والی ایک ٹیم تو ہو۔
اگر ایسا ہوا تو جنوبی افریقہ بدستور واحد میزبان ملک رہے گا جس کا ورلڈ کپ میں سفر پہلے ہی راؤنڈ میں ختم ہو گیا تھا۔
7۔ پنلٹی کا ماہر کون؟
ورلڈ کپ پر کوئی رپورٹ پنلٹیز کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
ورلڈ کپ مقابلوں میں آج تک جرمنی کی جانب سے صرف ایک پنلٹی کک مس کی گئی ہے اور جرمن ٹیم آج تک جن چار پنلٹی شوٹ آؤٹ میں شامل ہوئی ہے ان میں سے فتحیاب ہو کر ہی نکلی ہے۔
1982 کے بعد سے وہ پنلٹی شوٹ آؤٹ میں لگاتار 15 گول کر چکے ہیں۔
اور اس کے برعکس پنلٹیز کے معاملے میں سب سے برا ریکارڈ انگلینڈ کا ہے۔ تین مرتبہ انھیں یہ مرحلہ درپیش ہوا اور تینوں مرتبہ شکست ان کا مقدر بنی۔
اٹلی کی ٹیم بھی تین مرتبہ شکست کھا چکی ہے جن میں 1994 کا فائنل بھی شامل ہے جب ان کے اسٹار کھلاڑی رابرٹو بیجیو نے گیند گول کے اوپر سے پھینک دی تھی لیکن پھر 2006 میں فرانس کے خلاف فائنل میں پنلٹیز پر فتح سے یہ غم کچھ غلط ہوا۔(بشکریہ بی بی سی اردو)