کل کاغذات چھانٹ رہا تھا کہ اچانک دھائی صفحات کے ایک مضمون کی فوٹو اسٹیٹ کاپی ہاتھ لگی۔ بہت سوچا لیکن یاد نہ آیا کہ یہ مجھ تک کیسے پہنچ مضمون کے آخر میں لکھا تھا صغیر حسین رحیم یار خان 2.8.06 خیال ہوا ہو نہ ہو یہ رئیس نذیر احمد صاحب نے بھیجی ہو گی ان کو فون کیا تو ان کو فوری طور پر یاد نہ آیا جب صغیر حسین صاحب نام لیا تو کہنے لگے یہ رحیم یار خان کے گورنمنٹ کامرس کالج کے پرنسپل تھے اور دوران تعلیم میں پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم تھے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ان کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ مضمون پڑھنے سے معلوم ہوا کہ صغیر حسین صاحب نے کوئی مضمون مسلمانوں کے شفا خانوں پر لکھا تھا یہ ڈھائی صفحات بطور پسِ نوشت انہوں نے لکھے۔ یہ ہم قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کرتے ہیں۔ ملک نواز احمد اعوان
صغیر حسین
سطورِ بالا سپردِ قلم کرچکا تھا اور مضمون بھیج چکا تھا کہ ہمیں ایک اور مفید تصنیف کا علم ہوا اور اس کے بعض مباحث کے اقتباسات نظر سے گزرے، ان مباحث کی اہمیت کے پیش نظر ہم اسے شاملِ مضمون کررہے ہیں، ممکن ہے خواندگان کرام کے لیے یہ مفید ثابت ہوجائے۔ مغربی جرمنی کی ایک خاتون محقق جن کا اسم گرامی SUNKE SIGRID ہے، کی اس قابلِ قدر تصنیف کا نام ہے”ALLAHS SONNE UEBER DEM ABEHDIAND UNSER ARABISCHES ERBE” اس کا اردو ترجمہ یوں ہے: ’’مغربی ممالک پر اللہ کا سورج… ہمارا عربی ورثہ‘‘ اس کتاب کے چوتھے باب سے ذیل میں دیے گئے اقتباسات لیے گئے ہیں۔ لائق مصنفہ نے انہیں ’’مسلمانوں کے شفاخانے‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے اسپتالوں اور شفاخانوں کی ہو بہو تصویر پیش کی، اس غرض سے مصنفہ نے شفاخانے میں داخل مریض کا خط نقل کیا ہے جو اُس نے اپنے والد کو لکھا تھا:
’’پیارے ابا جان! آپ نے پوچھا تھا کہ میرے اخراجات کے لیے کتنا روپیہ بھیجا جائے۔ جب میں صحت یاب ہوکر شفاخانہ چھوڑوں گا تو مجھے شفاخانے کی جانب سے کپڑوں کا ایک نیا جوڑا اور پانچ سونے کے سکے (دینار) دیے جائیں گے تاکہ میں شفاخانے سے جاتے ہی کام کرنا شروع نہ کردوں۔ اس لیے آپ اپنے کچھ جانور بیچ کر مجھے روپیہ بھیجنے کی زحمت نہ اُٹھائیں۔ البتہ اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میں شفاخانے میں کس طرح رہتا ہوں تو جلد آجائیے۔ میں مریض بچوں کے وارڈ میں ہوں جو جراحی کے
کمرے (آپریشن تھیٹر) کے قریب ہے۔ میرے گر کر بیمار پڑنے کی وجہ سے مجھے سب سے پہلے شعبہ تشخیص (پولی کلینک) میں لایا گیا جہاں طلبہ اور چھوٹے ڈاکٹر مریض کا معائنہ کرتے ہیں۔ اگر مرض معمولی نوعیت کا ہوتا ہے اور مریض کو شفاخانے میں داخل کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا تو اسے دوا کا نسخہ دے دیا جاتا ہے، جس کے بموجب اسپتال کے دواخانے سے اُسے دوا ملتی رہتی ہے۔ یہ شفاخانہ بالکل ملا ہوا ہے، مگر مجھے معائنے کے لیے طبیبِ اعلیٰ کے سامنے پیش کیا گیا، معائنے کے بعد میرا نام رجسٹر میں درج کرلیا گیا، پھر مجھے نہلا کر صاف کپڑے پہننے کو دیے گئے‘‘۔
’’آپ میرے پاس آئیں تو کتب خانے کو بائیں طرف اور درسگاہ کو جہاں طبیبِ اعلیٰ طلبہ کو درس دیتے ہیں، پشت پر چھوڑ کر آگے بڑھیں گے۔ صحن کے بائیں جانب جو غلام گردش ہے وہ زنانہ وارڈ کو جاتی ہے۔ آپ دائیں جانب کو مڑیں اور طبی (میڈیکل وارڈ) اور جراحی (سرجیکل) شعبوں کو چھوڑتے ہوئے آگے بڑھ جائیں۔ اگر آپ کو کسی کمرے سے موسیقی سنائی دے تو ذرا جھانک کر دیکھیے، ممکن ہے میں اس میں ہوں، کیوں کہ روبہ صحت مریضوں کے لیے ایک علیحدہ کمرہ ہے جہاں ان کا دل بہلانے کے لیے موسیقی کا انتظام کیا گیا ہے اور کتابیں بھی فراہم کی گئی ہیں‘‘۔
’’آج صبح جب طبیبِ اعلیٰ اپنے نائب طبیبوں اور دوسرے معاونوں کے ساتھ گشت پر آئے اور میرا معائنہ کیا تو انہوں نے میرے وارڈ کے طبیب کو کچھ ہدایات لکھوائیں جو میں نہ سمجھ سکا۔ اس طبیب نے بعد میں مجھے بتایا کہ کل مجھے کھڑے ہونے کی اور تھوڑے دنوں بعد شفاخانہ چھوڑنے کی اجازت مل جائے گی۔ مگر میں شفاخانہ چھوڑنا نہیں چاہتا، یہاں ہر چیز اس قدر صاف اور شفاف ہے کہ دیکھ کر آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں۔ بستر نہایت نرم ہیں، ان کی چادریں دمشق کے مشجّر ریشم کی ہیں، اور دُلائیاں مخمل کی طرح نرم اور روئیں دار ہیں۔ ہر کمرے میں آبِِ رواں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جب ذرا سردی بڑھنے لگے گی تو رات کو کمرے گرم رکھنے کا انتظام کیا جائے گا۔ کھانے کے لیے قریب قریب ہر روز مرغ یا بھنا ہوا دنبہ اُن مریضوں کو دیا جاتا ہے جن کا ہاضمہ درست ہے۔ برابر کے پلنگ پر جو مریض ہے وہ اچھا ہوجانے کے باوجود ہفتہ بھر تک اس لیے بیمار رہا کہ اسے روز مرغ کا سینہ کھانے کو ملتا تھا۔ کل طبیبِ اعلیٰ پر جب یہ راز کھلا تو انہوں نے حکم دیا کہ اسے ایک پوری مرغی کھلا کر چلتا کیا جائے۔ ابا جان! آپ مجھے بھنا ہوا مرغ کھاتے دیکھنا چاہتے ہیں تو جلد آجائیے‘‘۔
مصنفہ اس خط پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’واقعہ یہ ہے کہ اس خط میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق ان تمام شفاخانوں پر ہوتا ہے جو اب سے (واضح رہے کہ یہ کتاب 1961ء میں منصّۂ شہود پر آئی) ہزار سال پہلے کوہِ ہمالیہ سے الجبال البسط تک مسلمانوں کے ہر بڑے شہر میں پائے جاتے تھے۔ صرف قرطبہ میں دسویں صدی کے وسط میں پچاس شفاخانے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں قرطبہ بغداد کے اُن مشہور اسپتالوں پر بھی فوقیت لے گیا تھا جو ہارون الرشید کے زمانے سے چلے آرہے تھے اور جن کی حیثیت قابلِ تقلید نمونوں کی سی تھی۔ شفاخانوں کی عمارت کے لیے جگہ کا انتخاب صحت کے نقطہ نظر سے بہت غور و خوض کے بعد کیا جاتا تھا۔ سلطان عضدالدّولہ نے بغداد میں ایک نیا شفاخانہ بنانا چاہا تو اس نے اپنے رئیس الاطبا سے اس غرض کے لیے بہترین جگہ تلاش کرنے کو کہا۔ رئیس الاطبا نے کئی ہم عمر بھیڑوں کو ذبح کراکے ان کے پٹھے، سینے اور شکم اور رانیں مختلف مقامات پر لٹکوائیں۔ چوبیس گھنٹے تک جہاں گوشت سب سے اچھی حالت میں رہا وہ مقام شفاخانے کی عمارت کے لیے منتخب کیا گیا‘‘۔
’’خلفاء جب رفاہِ عام کے ان اداروں کو وجود میں لاتے تو ان کو اسی طرح کے سازوسامان سے آراستہ کرتے جو ان کے محلوں کی آرائش میں استعمال کیا جاتا تھا۔ مریضوں کے کمروں، بستروں اور غسل خانوں کے لیے وہی آسائش کی چیزیں فراہم کی جاتیں جو سلطنت کے بڑے بڑے اشخاص کے شبستانوں اور ایوانوں کو زینت بخشی تھیں۔ اس طرح سلطنت کا ہر چھوٹے سے چھوٹا باشندہ بھی ان آسائشوں سے بہرہ اندوز ہوسکتا تھا۔‘‘
’’دمشق کے اطبا ایک ایرانی امیر زادے کا قصہ بیان کرتے تو ان کے ہونٹوں پر تبسم جھلکنے لگتا۔ یہ امیر زادہ لذیذ کھانوں کا شیدائی تھا اور اتنا کھاتا تھا کہ کھاتے کھاتے تھک جاتا تھا۔ وہ دمشق کا نوری شفاخانہ دیکھنے گیا تو مرغ پکنے کی اشتہا انگیز خوشبو نے اسے بے چین کردیا۔ چناں چہ اس نے فی الفور شفاخانے میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا اور کراہتا ہوا معائنہ کے لیے داخل ہوا۔ طبیب نے بہت اچھی طرح معائنہ کیا مگر وہ کوئی بیماری تشخیص نہ کرسکا، البتہ امیر زادے کے سوالات سے جو علاج کے بجائے شفاخانے کے کھانوں سے زیادہ متعلق تھے، طبیب نے اندازہ لگالیا کہ امیر زادہ کس غرض سے داخل ہونا چاہتا ہے۔ طبیب نے اسے داخل کرلیا اور نسخے میں دوائیں لکھنے کے بجائے نہایت لذیذ کھانوں اور مشروبات کی ایک لمبی فہرست درج کردی۔ امیر زادے نے تین دن تک اس قدر جی بھر کر لذیذ غذائیں کھائیں کہ اس کا ہاضمہ جواب دینے لگا اور وہ سچ مچ بیمار ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ تب طبیب نے اس سے کہا کہ ہم عرب تین دن تک حتی المقدور مہمان نوازی کا حق ادا کرتے ہیں۔ تین دن ختم ہوگئے، بہتر ہے کہ بیمار پڑنے سے پہلے آپ شفاخانے سے چلے جائیں۔ خدا آپ کا حافظ و نگہبان ہو۔‘‘
’’یہ تب کا حال ہے جب مغرب میں ایک بھی ڈاکٹر دستیاب نہ تھا‘‘۔
اس شہادت پر مزید کسی تبصرے یا وضاحت کی ضرورت نہیں۔ مصنفہ نے طریق علاج اور میڈیکل تعلیم اور تربیت پر اس قدر تفصیل سے لکھا ہے کہ اسے مزید نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ قابلِ ذکر یہ بات بھی ہے کہ ابوبکر زکریا الرازی سمیت تمام اطبا کیمیاوی ادویات کے استعمال سے پرہیز کرتے تھے اور ہمیشہ جڑی بوٹیوں سے علاج کو ترجیح دیتے تھے۔ مریضوں کو نئی دوائیں دینے سے پہلے انہیں جانوروں پر آزمایا جاتا تھا۔ چیچک، خسرہ، گٹھیا وغیرہ جیسے امراض کی ادویہ اسی طرح معرضِ وجود میں آئیں۔ دوا سازی کا فن اور علم اپنی جزیات سمیت عروج پر پہنچا۔ غذا سے علاج کیا جاتا۔ الرازی کا کہنا تھا کہ اگر غذا سے علاج ہوسکتا ہو تو ادویہ سے گریز کرنا چاہیے۔ نفسیاتی علاج اور اس کے شعبہ جات قائم ہوئے۔ اس دور میں جب کہ یورپ میں پاگلوں سے بے رحمانہ برتائو کیا جاتا، مسلمان اطبا پاگل پن کو بھی دوسرے جسمانی اور نفسیاتی عوارض کی طرح قابلِ علاج جانتے تھے اور باقاعدہ علاج بھی کیا جاتا۔ لاعلاج اور دماغی امراض کا شکار مریضوں کے لیے یورپ میں یہ خیال عام تھا کہ انہیں گناہوں کی سزا مل رہی ہے، یا یہ کہ ان کے سر پر شیطان سوار ہوگیا ہے۔ چنانچہ بجائے علاج کے شیطان اور بھوت پریتوں کو اُتارنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ جب اس طریقہ کار سے بھی کامیابی نہ ہوتی تو مریضوں کو قید خانوں میں ڈال دیا جاتا تھا اور ان کو خوب پیٹا جاتا تھا۔ اس کے برعکس عرب ممالک کے شفاخانوں میں ایسے مریضوں کے لیے الگ شعبہ ہوا کرتا تھا۔ بغداد اور قاہرہ میں تو دماغی امراض کے اسپتال بھی الگ سے قائم تھے۔ مصنفہ نے عربی مقولہ بھی درج کیا ہے کہ ’’موتیوں کو جِلادینے والے کو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ موتیوں کی خوبصورتی نہ جائے‘‘۔ اسی طرح دنیا کی اشرف ترین تخلیق یعنی انسانی جسم کو صحت یاب بنانے والے کو چاہیے کہ علاج نہایت احتیاط اور محبت سے کرے‘‘۔