فاروق عبداللہ کا حریت پسندوں کو پیغام

مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ جس بھارت نے آئینِ ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمیں داخلی خودمختاری نہیں دی اُس کے پاس مذاکرات میں حریت پسندوں کو دینے کے لیے کیا ہوگا؟ انہوں نے بھارت کی طرف سے حریت پسندوں سے مذاکرات کی بات کو ایک جال قرار دیا اور حریت پسندوں کو مشورہ دیا کہ وہ اس جال میں نہ پھنسیں اور اُس وقت تک مذاکراتی عمل میں شامل نہ ہوں جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کا کوئی ٹھوس فارمولا پیش نہ کرے۔ بھارت حریت پسندوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھاکر مسئلہ حل نہیںکرنا چاہتا بلکہ انہیں ڈس کریڈٹ کرنا چاہتا ہے۔
فاروق عبداللہ کی طرف سے حریت پسندوں کو یہ مشورہ ایک اہم موڑ پر دیا گیا ہے، اور اس کا مخاطب صرف کشمیری حریت پسند ہی نہیں پاکستان بھی ہے۔ بھارت میں مودی حکومت کا سورج جوں جوں انتخابات کی سمت ڈھلتا جارہا ہے اُسی رفتار سے پاکستان اور کشمیری حریت پسندوں کے بارے میں ماضی کی سخت گیر پالیسی میں نرمی کے اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں، جس کا ایک ثبوت بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی طرف سے گزشتہ ماہ ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران یہ کہنا تھا کہ بھارت کشمیریوں سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے لیے ہم خیال کے بجائے نیک خیال ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہی نہیں، راج ناتھ سنگھ اب پاکستان کے ساتھ بھی مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کررہے ہیں اور اُن کا صرف یہ کہنا تھا کہ اس کے لیے پاکستان کو پہل کرنا ہوگی۔
کچھ عرصہ پہلے تک مودی حکومت ہوا کے گھوڑے پر سوار تھی۔ نریندر مودی پر پاکستان کو دنیا میں تنہا کرڈالنے کا جنون تھا۔ دہشت گردی کا منترا پڑھ کر دنیا کو اپنا ہمنوا بنانے کی یہ مہم زیادہ بارآور ثابت نہ ہوسکی۔ انتخابی ضرورتوں اور سیاسی مفادات کے تحت پاکستان کو دہشت گرد قرار دلوانے میں ناکامی کے بعد اب بھارت میں زمینی حقیقتوں کا اعتراف کیا جانے لگا ہے۔ امریکہ کے غیر مؤثر دبائو کے بعد اب چین کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے معاملات کو بہتر کرنے کی پس پردہ کوششیں جاری ہیں۔ قریب ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کسی بھی وقت تعلقات کی منجمد برف پگھلنا شروع کردے اور دونوں ملکوں میں مذاکرات کے ٹوٹے ہوئے تار جڑنا شروع ہوجائیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ مذاکرات کی ایک جہت دہلی اور اسلام آباد کے درمیان میز سجنے کی صورت میں ہوگی، تو دوسری جہت دہلی اور سری نگر کے درمیان رابطہ ہوگا۔ یہ مشق جنرل پرویزمشرف کے دور میں کی جاچکی ہے جب ایک طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل جاری تھا تو دوسری جانب بھارتی حکومت اور حریت کانفرنس کے درمیان فوٹو سیشن کی حد تک ہی سہی، مگر روابط قائم ہورہے تھے۔ حریت کانفرنس کی قیادت دہلی میں راشٹرپتی بھون کی راہداریوں میں دیکھی جارہی تھی۔ یہ سہ فریقی مذاکرات تو نہیں تھے جن کا حریت کانفرنس ہمیشہ سے مطالبہ کرتی چلی آرہی تھی، البتہ انہیں سہ جہتی مذاکرات کہا جا سکتا تھا جو مختلف فریقوں کے درمیان مختلف انداز اور پلیٹ فارمز پر جاری تھے۔ جب بادِ مخالف کا جھونکا چل پڑا تو مذاکرات کی تمام میزیں اُلٹ کر رہ گئیں اور سارے دھاگے ٹوٹتے چلے گئے۔ چونکہ نیت صاف نہیں تھی، مسئلے کا حل منتہائے مقصود نہیں تھا اس لیے فوٹو سیشن کے ان ادوار کے بعد کشمیر جن حالات سے دوچار ہوا انہیں قیامت سے کسی طور کم قرارنہیں دیا جا سکتا۔ وقفے وقفے سے اُٹھنے والی بے چینی کی لہروں، مزاحمتی تحریکوں اور انہیں دبانے کے لیے بھارت کے فوجی اقدامات نے کشمیر کی ایک نسل کو پیوندِ خاک کردیا، کچھ بے نور اور معذور ہوکر باقی تمام عمر کے لیے حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے۔ اب بھارت پر کشمیر کے حوالے سے ایک نادیدہ دبائو موجود ہے۔ نریندر مودی دنیا میں جہاں کہیں جاتے ہیں اُن سے یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت کشمیریوں کو کچلنے کے بجائے ان سے مذاکرات کیوں نہیں کرتا؟ ان کی جائز باتوں پر کان کیوں نہیں دھرتا؟ اس لیے بھارت ایک بار پھر کشمیری قیادت کے ساتھ مذاکرات کا متمنی ہے۔ حریت کانفرنس کے ایک لیڈر جو ماضی میں دہلی سری نگر مذاکرات کے لیے بے تاب ہوا کرتے تھے، حالات سے اپنی لاتعلقی ختم کرکے دوبارہ حریت کانفرنس کی سرگرمیوں میں شریک ہونے لگے ہیں۔ پاکستان بھی عالمی دبائو میں حریت کانفرنس کو بھارت سے مذاکرات کی راہ دکھا سکتا ہے۔ اس مرحلے پر فاروق عبداللہ کا انتباہ خاصا معنی خیز ہے۔ آنے والے مراحل میں اسے نہ صرف حریت کانفرنس بلکہ حکومتِ پاکستان کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ حریت پسند مذاکرات کے لیے یہ شرط عائد کرتے رہے ہیں کہ بھارت ابتدائی مرحلے میں کشمیر کے متنازع ہونے کا اعلان کرے۔ بھارت نے اس شرط سے پہلوتہی کے لیے کئی عذر تراش رکھے تھے، اب بھی اس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ بھارت مذاکراتی عمل کو بامعنی بنانے کے لیے کشمیر کو متنازع تسلیم کرلے۔