رسول بخش پلیجو،ایک انقلابی لیڈر کی موت

ارباب عبدالمالک
گزشتہ ساٹھ سال سے سندھ کے صحرائوں، بستیوں، پہاڑوں اور ساحلوں پر مسلسل اور توانا گونجنے والی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ یوں انیسویں صدی کے نصف اوّل میں برصغیر میں جو بہت بڑے آدمی پیدا ہوئے اور اپنی فہم و فراست اور علم و دانش کی بنیاد پر عوام میں عزت اور وقار سے اپنا مقام بنایا اُن باقیات الصالحین میں رسول بخش پلیجو چند آخری شمعوں میں سے تھے جو ایک مدت تک روشنی بکھیر کر اپنی مہلتِ حیات کا آبرومندانہ استعمال کرتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے۔
بیک وقت مربی، مصلح، ادیب، صحافی، شعلہ بیاں مقرر اور سیاسی مدبر جیسی خوبیوں کی حامل شخصیت اب ڈھونڈے سے کہیں نظر نہیں آتی۔
رسول بخش پلیجو صاحب کراچی کے مضافات میں واقع جنگ شاہی کے قریب ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا ہوئے۔ سندھ کے اس عام اور غریب دیہاتی نے محنت، مطالعے اور مشاہدے کو بنیاد بناکر نصف صدی تک سارے سندھ کو جگایا۔ عالمی سیاست کے مدوجزر اور عالمی ادب پر گہری نظر ان کا محبوب موضوع تھا۔ عالمی انقلابی تحریکوں سے ان کا بہت قریبی اور قلبی تعلق رہا، اور سندھ میں انقلابی جدوجہد کے لیے فکری بنیاد بھی ان ہی تحریکوں سے اخذ کرتے رہے۔
قلم اور کتاب سے ان کا تعلق مثالی رہا۔ خود کئی کتابوں کے مصنف رہے۔ عالمی ادب کے سندھی زبان میں تراجم بھی ان کی نگرانی میں ہوتے رہے اور تشنگانِ علم کی تشفی کا سامان مہیا ہوتا رہا۔
اسٹڈی سرکل اور فکری نشستوں کے ذریعے نوجوان نسل میں کتاب اور قلم سے مضبوط تعلق قائم کرنا رسول بخش پلیجو کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آج کے سندھ میں جاگیرداری نظام کے خلاف جو نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں بلاشبہ اس مرحلے تک پہنچنے میں سب سے بڑا کردار پلیجو صاحب کا ہے۔ فکرِ پلیجو کے پیروکار آج سندھ میں زندگی کے ہر شعبے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور اپنے قومی کردار سے نہ صرف بخوبی آگاہ ہیں بلکہ بڑی ہمت کے ساتھ سندھ کو بیدار کرنے کا کام احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔ سندھ میں اُبھرتی ہوئی مڈل کلاس فکر پلیجو کی پیداوار ہے۔
پلیجو صاحب نے سندھ کی سیاست میں بہت سارے نئے رجحانات متعارف کرائے جو آگے چل کر نشانِ راہ بن گئے۔ قومی گیت اور وہ بھی نغمگی کے ساتھ، پلیجو کی بیگم زرینہ بلوچ جنہیں سندھ کی اُم کلثوم بھی کہا جاتا ہے، بیداری کے سفر میں ایک استعارہ بن گئیں۔ ان کی مدھر آواز میں انقلابی گیت جدوجہد کے دور میں سامعین کا لہو گرمانے کا سامان ہوا کرتے تھے۔ شیخ ایاز کی شاعری اور زرینہ بلوچ کی سریلی آواز نے ایک مدت تک سارے سندھ کو اپنے سحر میں لیے رکھا۔ آج سندھ میں جو اچھے گلوکار ہیں ان سب کا گائیکی کا سفر انقلابی گیتوں سے ہوا ہے۔ پلیجو کی ایک اور کامیاب سیاسی جدت جشنِ لطیف کا انعقاد ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے
کلام کی جدید تشریح اور اس میں پوشیدہ انقلابیت کو آشکار کرنے کا کام بھی سندھ کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ بنا۔ سندھ کا شاید ہی کوئی شہر ہو جہاں جشنِ لطیف کا انعقاد نہ ہوا ہو۔
حالات و واقعات کو اپنے خاص زاویے سے دیکھتے تھے اور ہجومِ دانش اور کثرتِ مطالعہ نے اکثر مقامات پر زعم میں بھی مبتلا رکھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی اتحاد بنے اور بگڑے، جمہوریت کی بحالی کی ہر تحریک کے ہراول دستے میں رہے۔ لیکن کبھی بھی یہ ساتھ خوشگوار اختتام تک نہ پہنچ سکا۔ نہ صرف قومی تحریکوں میں شامل رہے بلکہ اچھے اور نڈر وکیل ہونے کے ناتے کئی خطرناک سیاسی کیسوں میں بے خوف و خطر وکالت کی۔ انتخابی سیاست میں حصہ دار رہے لیکن کبھی شارٹ کٹ یا پارلیمان کا حصہ بننے کے لیے بے تاب نہیں ہوئے۔ ایم آر ڈی، اینٹی کالا باغ ڈیم اور دوسری تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کیا لیکن کبھی خراج وصول نہیں کیا، نہ مفادات کی سیاست کی۔
انقلابی اور زیادہ ذہین اور دانش مند انسانوں کا اکثر یہ المیہ رہا ہے کہ اپنے بعد کوئی تسلی بخش نظام نہیں چھوڑتے۔ بدقسمتی سے یہ ہماری روایت بنتی جارہی ہے کہ ہر بڑا آدمی برگد کے درخت کی مانند ہوتا ہے جس کے سائے میں کوئی تناور درخت نہیں اُگ سکتا۔ پلیجو صاحب کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کو سیاسی وراثت سے الگ کردیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد بھی گروپ بندی دب نہ سکی۔ پلیجو صاحب کی تعزیت دو مختلف مقامات پر وصول کی جارہی ہے۔ ایاز لطیف پلیجو اپنے گھر پر، جبکہ دوسرا گروپ تنظیمی لحاظ سے سرگرمیوں کے لیے مخصوص مرکزی آفس میں تعزیتی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہماری تاریخ کا اذیت ناک منظر ہے کہ ہر بڑے آدمی کے پیچھے ان کے سیاسی اور خاندانی لواحقین وراثت پر لڑ جھگڑ کر ان کے زریں کارناموں پر بھی کالک مَلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بہرکیف رسول بخش پلیجو نے انتھک اور انتہائی طویل سیاسی جدوجہد کی، بڑے مشکل حالات میں ثابت قدم رہے، اور آج کی مروجہ مفادات کی سیاست کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔ زبان و قلم کے ذریعے اور دلیل کے ہتھیار سے لیس شائستگی کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ بھی سکھا گئے۔ وہ بیک وقت بہترین منتظم، اچھے لکھاری، صاحبِ طرز خطیب، شاندار مفکر و مدبر بھی تھے۔ انہوں نے سندھ کی نوجوان نسل کو فکری رہنمائی فراہم کی۔ سندھ کی خواتین جو عموماً سیاسی جدوجہد کو عیب سمجھتی تھیں، پلیجو نے بلاشبہ سندھ میں سیکڑوں خواتین کی تربیت کی اور لکھنے اور بولنے کا سلیقہ سکھایا، مردوں کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں شانہ بشانہ چلنے کا حوصلہ دیا۔ دنیا میں بھرپور زندگی گزاری اور اپنے حصے کا کام کر گئے۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔