سفید چینی، ایک میٹھا زہر

جنید اقبال قریشی
قدیم زمانے میں مٹھاس کی خاطر شہد کے استعمال کا عام رواج تھا۔ شہد کے شکری اجزاء (کاربوہائیڈریٹس) گنے کے رس کے شکری اجزاء کی نسبت زیادہ مفید و نافع اور مٹھاس میں ان سے دوچند ہوتے ہیں۔ سائنسی تجربات و مشاہدات کی رو سے شہد کا استعمال صحت و تندرستی کا ضامن ہے۔ قرآن حکیم کے مطابق شہد میں انسانوں کے لیے شفا ہے۔
سائنسی ترقی سے لاتعداد فوائد کے ساتھ ساتھ سیکڑوں مضرت رساں اشیاء معرضِ وجود میں آئی ہیں، ان میں سے ایک ’’سفید چینی‘‘ بھی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر تک شہد کا استعمال جاری رہا، لیکن انیسویں صدی کے اوائل سے اس کا استعمال کم اور اس کے بجائے مصنوعی شکر کا استعمال زور پکڑنے لگا۔ انیسویں صدی کے وسط میں انگلستان کے سائنس دانوں نے مصنوعی شکر کو صاف اور سفید کرنے کے آلات ایجاد کیے۔ 1900ء میں آلات اور کیمیائی مرکبات کی مدد سے دانے دار سفید شکر تیار کی جانے لگی جسے آج کل سفید چینی کا نام دیا جاتا ہے۔
موجودہ تحقیق کی رو سے سفید چینی صحت کے لیے انتہائی مضر چیز پائی گئی ہے۔ چنانچہ یورپ اور امریکہ میں سفید چینی کے مضر صحت اثرات کے بارے میں بے شمار مضامین لکھے گئے، لیکن لوگوں میں اس کا استعمال کم نہیں ہوا۔ امریکہ کے ایک مشہور کیمیا دان ڈاکٹر ہاروے (Dr. Harvey) نے سفید چینی کو صحت و تندرستی کے لیے ایک عظیم خطرہ گردانا اور امریکیوں کو پہلی بار اس کا استعمال کم کرنے کا مشورہ دیا۔ 1929ء میں ڈاکٹر ایف جی بینٹنگ (Dr.Frederick Grant Banting) نے (جس نے ذیابیطس کے مرض کے علاج کے طور پر انسولین ایجاد کی) سفید چینی کے استعمال پر لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے لکھا ’’امریکہ میں ذیابیطس کا مرض زور پکڑ چکا ہے اور اس کی وجہ سفید چینی کا بڑھتا ہوا استعمال ہے‘‘۔
آج کل لوگ سفید چینی کے روزانہ استعمال کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ وہ اسے خوش ذائقہ، بے ضرر اور غذائیت بخش خوراک سمجھتے ہوئے اس کا استعمال کثرت سے کررہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سفید چینی غذائیت بخش خوراک کے بجائے منشیات میں سے ہے اور اس کا تعلق خوراک سے وہی ہے جو الکحل کا دودھ کے ساتھ ہے۔ جس طرح الکحل میں حرارت کی کیلوریز موجود ہیں اسی طرح سفید چینی کو بھی اگر کم مقدار میں استعمال کیا جائے تو اس سے بھی حرارت و طاقت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سفید چینی سے طاقت تو بہم پہنچ سکتی ہے لیکن اس میں غذائیت نام کو نہیں ہوتی۔ اسی لیے اس سے جسمانی نشوونما میں قطعاً مدد نہیں مل سکتی۔ گنے یا چقندر کے رس سے سفید چینی کی تیاری میں ایسے عوامل سے کام لیا جاتا ہے جن سے غذائی اجزاء ضائع ہوجاتے ہیں۔ گندھک کے دھوئیں یا کیلشیم بائی سلفائڈ کے زیراثر گنے کے رس میں موجود تمام پروٹینی اجزاء، معدنیاتی اجزاء اور وٹامنز ضائع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ چینی کے زیادہ استعمال کے عادی لوگ غذائیت سے محرومیت کے باعث کمزور ہوتے اور اعصابی تھکن کا شکار بن جاتے ہیں۔
چینی کے خلاف بڑا اعتراض یہ نہیں کہ اس میں غذائیت موجود نہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ منشیات کی طرح تحریک پیدا کرتی ہے۔ معدے کے اندر چینی اور آکسیجن کے ملاپ سے تکسیدی عمل شروع ہوجاتا ہے جو نظام انہضام پر بارودی اثر ڈالتا ہے اور یوں اعضائے رئیسہ میں تحریک پیدا ہوتی ہے۔ سفید چینی اس آتش گیر مادے کی مانند ہے جو شدت کے ساتھ جل کر فوراً ہی ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ سفید چینی سے جو تحریک پیدا ہوتی ہے، وہ فوراً ہی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے اور اعضائے رئیسہ اور اعصابی نظام بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ بالکل دوسری منشیات کی طرح سفید چینی کے استعمال سے وقتی طور پر چستی و انبساط کا احساس پیدا ہوتا ہے لیکن جلد ہی یہ خوش کن اثرات غائب ہوجاتے ہیں، اور ان کی جگہ سستی و اضمحلال کا احساس عود کرآتا ہے۔ ایک عادی شخص ذہنی آسودگی کے دوبارہ حصول کے لیے چینی کی مزید مقدار کھانے پر مجبور ہوتا ہے اور اس طرح اس کا استعمال بڑھتا جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ میٹھی ٹکیوں کے پیکٹ اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور ایک کے بعد دوسری ٹکیہ چوستے جاتے ہیں۔ بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زیادہ چینی کی خواہش اور عادت انہضامی نالی پر شکر کے کیمیائی اثرات کے باعث زور پکڑتی ہے۔ بچوں اور کمزور جسم کے لوگوں میں چینی کی عادت جلد زور پکڑتی ہے۔ بعض بچے تو چینی کے اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں کھاتے جس میں چینی اور مٹھاس نہ ڈالی گئی ہو۔
چینی کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس کا مرض بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ سائنسی تحقیق و تجربات سے یہ دیکھا گیا ہے کہ شکر کی ایک خاص اور مقررہ مقدار خون میں سما سکتی ہے۔ اگر یہ مقدار کم یا زیادہ ہوجائے تو مہلک اثرات مرتب کرتی ہے۔ خون میں شکر کی مقدار کو مقررہ حد تک قائم رکھنے کے لیے لبلبے کی ایک رطوبت انسولین کام آتی ہے۔ اگر انسولین کا مزاج موزونیت کے ساتھ جاری رہے تو خون میں شکر کی مقدار مقررہ حد تک بحال رہتی ہے۔ لیکن اگر چینی کا استعمال بڑھا دیا جائے تو لبلبے پر کام کی زیادتی کے باعث اس کی فعالیت میں نقص پیدا ہوجاتا ہے۔ انسولین کا اخراج کم ہوجاتا ہے اور خون میں شکر کی مقدار حد سے تجاوز کرجاتی ہے۔ چنانچہ شکر پیشاب کے ساتھ خارج ہونے لگتی ہے اور یوں مرضِ ذیابیطس لاحق ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو چینی اور شکری غذائوں سے پرہیز کی تلقین کی جاتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے گردے شکر کو خون سے علیحدہ نہ کرسکیں تو یہ خون میں رہ کر زہر سا پیدا کرتی ہے جس سے دورانِ خون کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور مریض دائمی تھکن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس مرض کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ صبح کو بیدار ہونے پر مریض کی طبیعت بوجھل پن محسوس کرتی ہے اور کچھ کھانے کو جی نہیں چاہتا۔
بچے مٹھائیوں کے بہت شوقین ہوتے ہیں، اور اگر ان کی خوراک میں شکردار غذائوں کو مناسب حد تک نہ رکھا جائے تو وہ بہت جلد شکر کھانے کی عادت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے لاغر اور زرد رنگت کے ہوتے ہیں۔ دودھ، انڈے، پھل اور سبزیاں کھانے کے بجائے شکر اور شکر سے تیار شدہ میٹھی چیزیں کھانے پر مُصر ہوتے ہیں۔ چنانچہ غذائیت بخش غذائوں سے محرومی کے باعث ایسے بچوں کی جسمانی نشوونما اور بالیدگی رُک جاتی ہے اور ان کی طبیعت میں بے چینی اور چڑچڑا پن پیدا ہوجاتا ہے، معدہ میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے، جسمانی تھکن عام ہوتی ہے اور سردی لگ جانے سے جلد ہی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک فرانسیسی ڈاکٹر لی گاف کے بیان کے مطابق فرانس میں ہر سال 80,000 بچے سفید چینی کے استعمال کے باعث بیماریوں کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر اپنے مریض بچوں کی خوراک میں چینی کی خفیف سی مقدار بھی شامل کرنے سے منع کرتا تھا اور اس کے نتائج حیرت انگیز نکلا کرتے تھے۔
بچوں کے امراض کے ماہر بہت سے ڈاکٹر بچوں میں ’’چینی کے بخار‘‘ کی موجودگی کے قائل نظر آتے ہیں جو بچوں میں چینی کی عادت کے باعث ہوتا ہے اور جس کے مخصوص آثار میں سے ایک بچوں کا چڑچڑا پن اور بے چینی بھی ہے۔ ڈاکٹر ای۔ بی۔ ڈیکس کے مطابق چینی کے عادی بچے لاغر و نحیف اور زرد رنگ کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی طبیعت میں چڑچڑا پن اور بے چینی عام ہوتی ہے، رات کو روتے ہیں اور اکثر اوقات سوتے میں پیشاب کردیتے ہیں۔ ان کے دانت گلے سڑے اور متعفن ہوتے ہیں۔ قبض کے دائمی مریض ہوتے ہیں اور پیچش کے بھی بہت جلد شکار ہوجاتے ہیں۔ گلے کی بیماریاں اور معدے اور خوراک کی نالیوں کے نقائص عام ہوتے ہیں، زبان سرخ رہتی اور دُکھتی ہے، بار بار بھوک لگتی ہے، لیکن تھوڑا کھانے سے ختم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بچے بار بار کھانے کو کچھ مانگتے ہیں۔
اگر آپ سفید چینی کے وافر استعمال کی عادت میں گرفتار ہیں تو اس سے مکمل چھٹکارا پانا تو غیر ممکن ہے، ہاں البتہ آپ اس کی مقدار کو کم ضرور کرسکتے ہیں۔ مکمل ترک اس لیے ناممکن ہے کہ اس کے علاوہ مٹھاس حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ شہد ہی ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ملک میں باافراط دستیاب نہیں، اور اگر ہے بھی تو وہ خالص حالت میں نہیں ملتا۔ چینی کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اس جانب آہستہ آہستہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایک دم چینی کا استعمال ختم کرنے کی کبھی کوشش نہ کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم چینی کی ایک خاص مقدار کا عادی ہوچکا ہوتا ہے اور اگر اس مقدار میں یک دم معتدبہ کمی کی جائے یا اسے بالکل ختم کردیا جائے تو جگر اور لبلبہ جیسے اعضا کے کام میں نقص پیدا ہوجاتا ہے۔ چینی کے استعمال کو کم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اصولوں کو ہمیشہ مدنظر رکھیں:
-1 مشروبات اور کھانوں میں چینی کی کم سے کم مقدار استعمال کریں۔ ہمارے ملک میں چائے کا استعمال بطور مشروب عام ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ چائے کی ایک پیالی میں دو تین چمچ چینی ڈالتے ہیں، حالانکہ اگر ایک آدھ چمچ پر اکتفا کریں تو بہتر ہوگا۔
-2 اگر خالص شہد میسر آسکے تو دودھ اور چائے میں اسے ہی استعمال کریں۔
-3 چینی ملا کوئی بھی مشروب خالی معدہ نہ پئیں خواہ اس میں چینی کتنی ہی مقدار میں کیوں نہ ڈالی گئی ہو۔ چینی اور آکسیجن کے ملاپ سے جو کیمیائی عمل ظہور پذیر ہوتا ہے اس سے معدے پر مضر اثرات پڑتے ہیں۔
-4 اگر آپ تھکاوٹ محسوس کریں تو جسم میں تحریک پیدا کرنے کے لیے چینی ملے کسی مشروب کو استعمال کرنے کے بجائے پھلوں کا رس استعمال کریں جن میں قدرتی شکر موجود ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر غذائی اجزاء بھی شامل ہوتے ہیں۔
-5 اگر کبھی زکام کی شکایت پیدا ہوجائے تو چینی کا استعمال فوراً ترک کردیں اور اس کے بجائے شہد، دودھ اور پھلوں کا رس استعمال کریں۔