ماہِ رمضان المبارک ہم سے رخصت ہوچکا ہے۔ اس مہینے میں اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے آخری کتاب قرآن مجید نازل کی تھی۔ قرآن مجید کی ہدایت سے استفادے کی اولین شرط سیرت و کردار کی پختگی اور اخلاقی قوت ہے۔ اخلاقی قوت و طاقت کا مرکز و محور اپنے عقیدے و نظریے سے وابستگی اور اس کے لیے قربانی ہے۔لیکن آج حکمرانوں اور سیاسی قائدین کا اخلاقی تنزل سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے جو قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر مملکتِ خداداد ’’پاکستان‘‘ کی صورت میں نئی اسلامی ریاست وجود میں آئی تھی۔ اس ریاست کے قیام کو معجزہ قرار دیا گیا تھا کیونکہ ریاست ہمیں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو ملی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب عالمی سطح پر مذہب کی حکمرانی ختم ہوچکی تھی، مغربی اقوام کی نوآبادیاتی شہنشاہیت نے ہر ملک میں علاقائی و جغرافیائی قومیت کی بنیاد پر ریاست کے تصور کو تسلیم کرالیا تھا۔ اس دور میں اقبال اور قائداعظم نے وطنی قومیت کے تصور کو مسترد کیا۔ اقبالؒ نے اعلان کیا کہ
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے پشاور سے آسام تک ہر مسلمان نے نعرہ بلند کیا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لاالہٰ الااللہ‘‘۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے قیام کو اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا۔ جس ملک کو بیسویں اور اکیسویں صدی میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز اور عالم اسلام کے اتحاد کا رہنما بننا تھا اس ملک کی پہچان ’’کرپشن‘‘ بن گئی ہے۔ کیا ایسا ایک دن میں ہوا ہے؟ قیام پاکستان کے صرف ایک برس بعد اگست 1948 ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں پاکستان کے رہنماؤں اور عوام کے اخلاقی تنزل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے قوم کو پکارا تھا۔ یہ پکار ہم نے اس سے پہلے بھی نقل کی تھی، اب دوبارہ نقل کررہے ہیں:
’’جو لوگ کل تک پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے، جن سے بڑھ کر قوم کے درد میں تڑپنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا، جو آج بھی زبان سے بہت بڑے ’’مجاہدِ ملت‘‘ بنے ہوئے ہیں، ان میں عظیم الشان اکثریت آپ کو ایسے افراد کی نظر آئے گی، جو پاکستان بننے کے بعد ہر زاویے سے اس کی کشتی میں سوراخ کیے جارہے ہیں۔ یہ رشوت خوریاں، یہ خیانتیں، یہ غبن، یہ قومی خرچ پر اقربا پروریاں اور دوست نوازیاں، یہ فرائض سے غفلت، یہ ڈسپلن سے گریز، یہ غریب قوم کی دولت پر عیاشیاں، جن کا ایک طوفان سا ہمارے نظام حکومت کے ہر شعبے میں برپا ہے، اور جس میں بہ کثرت چھوٹے اہلکاروں سے لے کر بہت سے عالی مقام حکام اور وزراء تک آلودہ ہیں، کیا یہ سب پاکستان کو مضبوط کرنے والی چیزیں ہیں؟ یہ دکانوں اور کارخانوں کی ناجائز تقسیم، جس کی بدولت ملک کی صنعت و تجارت کا بڑا حصہ نااہل اور ناتجربہ کار ہاتھوں میں چلا گیا ہے، کیا یہ پاکستان کی طاقت کو مستحکم کرنے والی چیز ہے؟]اور[ یہ پبلک کا بالعموم حکومت کے ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرنا۔۔۔ وہ چیزیں ہیں جن سے پاکستان مضبوط ہوسکتا ہے؟۔۔۔ ملک ]پاکستان[ کے باشندوں کی اخلاقی حالت اس قدر گرچکی ہے کہ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی لاشیں جب واہگہ اور لاہور کے درمیان پڑی سڑ رہی تھیں اورکیمپوں میں بھی موت کا بازار گرم تھا، اُس وقت 12،13 لاکھ مسلمانوں کے شہر ]لاہور[ میں سے چند ہزار نہیں، چند سو آدمی بھی ایسے نہ نکلے جو اپنے بھائیوں کو دفن کرنے کی زحمت اٹھاتے۔ متعدد مثالیں ہمارے علم میں ایسی ہیں کہ کوئی مہاجر مر گیا ہے اور اس کے عزیزوں کو نمازِجنازہ پڑھنے کے لیے اجرت پر آدمی فراہم کرنے پڑے ہیں۔ یہاں تک بھی نوبت پہنچی ہے کہ ]پاک، بھارت[ سرحد کے قریب کسی گاؤں میں مہاجرین کو زمینیں دی گئیں اور مقامی مسلمانوں نے سرحد پار سے سکھوں کو بلاکر ان پر حملہ کرادیا تاکہ یہ بھاگ جائیں اور زمین ہمارے قبضے میں رہ جائے۔ حد یہ کہ قوم کی جو بیٹیاں ہندوستان کے ظالموں سے بچ کر آگئی تھیں، ان کی عصمتیں یہاں خود اپنے بھائیوں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہ سکیں۔ اس قسم کے واقعات شاذ نہیں ہیں، بلکہ بکثرت ہمارے علم میں آئے ہیں، اور ان شرمناک جرائم کے مرتکب صرف عام شہدے ہی نہیں تھے۔۔۔ کیا اتنے شدید اخلاقی تنزل کے ہوتے ہوئے ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ کسی بڑی اندرونی یا بیرونی مصیبت کے مقابلے میں ہم مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوسکیں؟ اور ایک یہ اخلاقی تنزل اپنے ملک کی تعمیر کے لیے ہماری کسی اسکیم کو کامیابی سے چلنے دے گا؟‘‘
(سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔ ترجمان القرآن ۔اگست 1948 ء)
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی رحلت کے بعد ہماری قومی سیاست کی بنیاد جابرانہ اور استبدادی حکومت بن گئی۔ آمرانہ اور جابرانہ حکومتوں نے ضمیر فروشی کو طرزِ حکومت کا غیر تحریری اصول قرار دے دیا۔ جو اپنے حکمرانوں کے سامنے اپنے ضمیر کو فروخت کرسکتا ہے اسے غیر ملکیوں اور دشمنوں کے سامنے ضمیر فروشی میں کوئی عار نہیں ہوگی۔ فوجی آمریت اور جبر و استبداد کی حکمرانی کے بعد جو عوامی نمائندے آئے ہیں ان کی نااہلیت اور بدعنوانیوں کی داستانوں نے ملک کو تباہی کے عمیق غار میں پھینک دیا ہے۔ شاید ایسے ہی حالات تھے جب عیسیٰ مسیح ؑ نے کہا تھا کہ ’’پہلا پتھر وہ مارے جو خود پاک دامن ہو‘‘۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے آوازیں بلند ہورہی ہیں، احتساب کا نعرہ لگایا جارہا ہے، لیکن کرپشن ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کرپشن کی گندگی میں لتھڑے ہوئے طاقتور، مقتدر لوگ دوسرے کرپٹ لوگوں کا احتساب نہیں کرسکتے۔