املا درست کرنے کا قابلِ تعریف سلسلہ

اطہر ہاشمی
منجملہ اُن کے ایک یہ ہے کہ مصدر یعنی verbal noun کے الف پر ہمیشہ زیر ہوتا ہے۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
یعنی یہ سب الفاظ اختیار، انتظار، اقرار، انکار، اصرار، اطمینان، اور خصوصاً افطاران سب کے الف پر ہمیشہ زیر رہے گا، اور اسی طرح سے ان کا تلفظ ہوگا۔ ان تمام الفاط کو ان کے الف پر زبر کے ساتھ پڑھنا بالکل غلط ہے اور صرف لا علمی کی بنا پر ہوتا ہے۔
اُسی طرح سے ایک اصول یہ ہے کہ جمع کے الف پر ہمیشہ زبر ہوتا ہے۔ لیکن اس اصول میں کبھی کبھی تبدیلی آسکتی ہے۔ قدم کی جمع اَقدام ہے، الف پر زبر کے ساتھ۔ لیکن ایک لفظ اِقدام بھی ہے، یعنی الف پر زیر کے ساتھ جو کہ مصدر ہے اور اس کے معنی ہیں کوئی نیا قدم اُٹھانا۔ اس کے الف پر زیر ہی رہے گا۔
بُکرا کی جمع اَبکارا ہے۔ الف پر زبر کے ساتھ۔ اس کے معنی ہیں کل کا دِن یعنی tomorrow۔ایک لفظ ہے بِکر۔ ب پر زیر کے ساتھ۔ اس کے معنی ہیں کنواری لڑکی۔ اس کی جمع ہے اِبکارا۔ الف پر زیر کے ساتھ۔
یہ ایک استثنا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں استعمال ہوا ہے۔
اسی اعتبار سے حضرت ابوبکرؓ کو ان کے القاب بھی ملے یعنی وہ رسولؐ کی اُس بی بی کے والد تھے جو شادی سے پہلے کنواری تھیں،اور اسی رشتے سے حضرت ابوبکرؓ کو یہ نام دیا گیا۔‘‘
(الف پر زیر کے بجائے الف کے نیچے زیر لکھنا زیادہ بہتر ہے)
کوئی مانے یا نہ مانے، ہم عوام کو جمع مذکر بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے، لیکن معاملہ چراغ تلے اندھیرے کا ہے۔ سنڈے میگزین کے شمارے (27 مئی تا 2 جون) میں ایک اچھے کالم نگار سید اقبال چشتی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ عوام مونث واحد نہیں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’عوام احتجاج کرتی رہ گئی۔ عوام پھر سے صدائے احتجاج بلند کرتی ہے‘‘۔
مضمون اچھا ہے، کاش ایسی غلطی سے پاک بھی ہوتا۔ کبھی لغت ہی میں دیکھ لیا ہوتا۔ اسی شمارے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حوالے سے حبیب الرحمن کا مضمون ہے۔ سید مودودی عالم دین ہی نہیں تھے، اردو کے بڑے ادیب بھی تھے۔ ان سے متعلق مضمون میں املا کی غلطیاں افسوس ناک ہیں، خواہ وہ مضمون نگار نے کی ہوں یا کمپوزر اور پروف ریڈر نے۔ مثلاً چار گنا کو ’’چار گناہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ یہ چار گناہ کون سے ہیں۔ ایک اور جملہ دیکھیے ’’اسلام کا سہی معنوں میں جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ مضمون نگار کو بھی یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ سہی اور صحیح میں بڑا فرق ہے۔ یہاں ’صحیح معنوں‘ ہونا چاہیے۔ زبان وبیان کی غلطیاں اس پر مستزاد ہیں۔ مثلاً ’’کوئی مسلمانوں کی مملکت‘‘۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ’کوئی‘ کا استعمال صحیح جگہ کیا جاتا یعنی ’مسلمانوں کی کوئی مملکت‘۔ یہ ایسی غلطیاں ہیں جن کی اصلاح کرنا مشکل نہیں۔ لکھنے والے اگر خود بھی نظرثانی کریں تو اپنی تصحیح کرلیں گے۔ اور اب ایک بڑے ادیب اور بہت اچھے شاعر کے سہو کا ذکر۔ ماہنامہ قومی زبان کے مئی کے شمارے میں اداریہ پروفیسر سحر انصاری نے لکھا ہے اور مئی میں پیش آنے والے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے۔ تاہم آخر میں سحر انصاری نے ایک بہت معروف شعر کو یوں لکھا ہے:

تازہ خواہی داشتن ایں داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

دونوں مصرعوں میں ایں۔ ایں! سحر انصاری سے زیادہ کون جانے گا کہ یہ ایک بڑا عیب ہے۔ اصل شعر میں یہ عیب نہیں ہے اور پہلا مصرع ہے ’’تازہ خواہی داشتن گرداغ ہائے سینہ را‘‘۔ یعنی ایں کی جگہ ’گر‘ ہے۔ سحر انصاری بے خیالی میں ایں کی تکرار کر بیٹھے ہوں گے۔ اس کی خبر جناب ایس ایم معین قریشی کو ہوگئی تو ’’توجہ دلائو نوٹس‘‘ بھیج دیں گے۔ ویسے ہم نے دوسرا مصرع یوں بھی پڑھا ہے ’’گاہے گاہے باز خواں ایں دفتر پارینہ را‘‘۔ دفتر کے معنی صرف وہی نہیں جہاں بیٹھ کر ہم، آپ کام کرتے یا کام دکھاتے ہیں۔ اس کے اور بہت سے معانی ہیں اور غالب نے بھی دفتر کا قافیہ استعمال کیا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس نے املا درست کرنے کا بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے جس کی پیروی تمام اردو اخبارات کو کرنی چاہیے اور خود اخبار میں شائع ہونے والے غلط املا کی نشاندہی کرکے اس کی تصحیح کی جائے تو اخبار سے وابستہ کارکنوں کو بالخصوص فائدہ ہوگا۔ فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہونے والی ہماری کوشش اخبار میں بارآور نہیں ہوتی۔ روزنامہ ایکسپریس میں ’’املا شناسی‘‘ کے نام سے جو سلسلہ جاری کیا گیا ہے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’اردو زبان کا صحیح تلفظ پڑھنے اور سمجھنے کے لئے دیئے گئے۔۔۔۔‘‘ ہمارا مقصد اس بہت اچھے سلسلے میں فی نکالنا نہیں، تاہم مذکورہ جملے میں ’’لئے اور دیئے‘‘ کا املا بھی درست ہوجائے تو کیا ہی بات ہے۔ علاوہ ازیں ’علائوالدین‘ کا املا بھی درست کریں۔ ایک نگران وزیراعلیٰ کا نام ایکسپریس اور جنگ سمیت تقریباً ہر اخبار کی شہ سرخی میں اور برقی ذرائع ابلاغ پر چلنے والی پٹیوں میں غلط ہی نظر آیا۔ اس کا صحیح املا ’علاء الدین‘ ہے اس میں وائو کا کوئی دخل نہیں۔ وائو کا مطلب ہوتا ہے ’’اور‘‘ علاء الدین ہو یا بہاء الدین یا السلام علیکم، ان میں وائو کا استعمال بالکل غلط ہے۔ خود سوچیے، علاء اور الدین کا کیا مطلب ہوا؟ یا پھر اسے علاء والدین پڑھا جائے۔ علاوہ ازیں املا شناسی کے بہت مفید سلسلے میں جو جملہ دیا گیا ہے اس میں بھی املا کی غلطیاں ہیں جو امید ہے کہ جلد دور کرلی جائیں گی۔ مثلاً لئے، دیئے کا درست املا ’لیے، دیے‘ ہے، ان پر ہمزہ نہیں آئے گا۔ ہم ایک بار پھر املا شناسی کے اس سلسلے کا خیرمقدم کرتے ہیں، یہ جاری رہنا چاہیے۔ تہہ اور تہ کا صحیح املا کیا ہے، یہ بھی بتایا جائے۔
ایک بڑا کثیرالمعانی لفظ ہے ’فی‘۔ درج بالا سطور میں ہم نے بھی استعمال کیا ہے۔ گزشتہ دنوں جسارت کی ایک خبر میں تھا ’’فی طلبہ‘‘۔ جب کہ فی واحد کے لیے آتا ہے یعنی فی طالب علم۔ فی عربی کا حرف جار ہے، اس کا مطلب ہے بیچ میں، ہر ایک کے لیے، ہر آدمی، ہر چیز کے لیے جیسے فی کس، فی من۔ علاوہ ازیں نقص، کمی، غلطی، عیب، کھوٹ (رہ جانا، نکالنا، نکلنا ہونا کے ساتھ)۔ داغ کا شعر ہے

سمجھنے والے سمجھتے ہیں بیچ کی تقریر
کہ کچھ نہ کچھ تری باتوں میں فی نکلتی ہے

علاوہ ازیں فی الاصل (اصل میں)، فی البدیہ، فی الجملہ جیسے اب مرض میں فی الجملہ تخفیف ہے۔ فی الحال، فی الحقیقت، فی الفور، فی النار وغیرہ بہت سے معانی اس فی کے ہیں۔
اب ایک اور دلچسپ لفظ۔ سنڈے میگزین (10 تا 16 جون) میں ایک فاضل مضمون نگار نے سبزباغ اور کالا باغ کے عنوان سے جو بہت اچھا مضمون لکھا ہے اس میں ایک جملہ ہے ’’پانی کی مین لائن پر لگے وال کی پلیٹ نکال دیتے ہیں‘‘۔ وال کا لفظ چار سطروں میں تین بار استعمال ہوا ہے۔ مضمون نگار بتائیں کہ کیا یہ وال انگریزی کا لفظ Wall یعنی دیوار ہے؟ اگر یہ دیوار ہے تو پانی کی مین لائن پر دیوار کیسے لگتی ہے۔ انگریزی کے الفاظ شوق سے استعمال کریں لیکن ان کے ساتھ اردو والا سلوک تو نہ کریں۔ ہجے ہم بتا دیتے ہیں، املا خود درست کرلیں۔ یہ لفظ valve ہے جس کا املا ہے ’والو‘۔ اس میں دوسرا وائو ساکن ہے۔ جسارت میں بھی یہ غلطی ہوتی رہتی ہے اور املا صحیح کرائو تو ساتھی حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بروزن خالو ہے یا جیسے ’’دنیا والو‘‘۔ والو کی وضاحت پہلے بھی کسی شمارے میں کی تھی اور اس کا ایک نامانوس سا ترجمہ بھی دیا تھا ’’کھل مندن‘‘ یعنی کھلنے اور بند ہونے والا آلہ۔ اس کے بجائے والو ہی استعمال کریں مگر صحیح املا کے ساتھ۔