نام کتاب: دستک
مصنف: شاہ نواز فاروقی
صفحات: 232 قیمت 260 روپے
ناشر: اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ
فون نمبر: 042-35252501-2
فیکس: 042-35252503
موبائل: 0322-4673731
ای میل: islamicpak@gmail.com
ویب سائٹ: www.islamicpak.com.pk
کالم نگاروں کا ایک جم غفیر ہے جو مختلف اردو اخبارات اور رسائل میں کالم نگاری کرتا ہے۔ ان میں منفرد سوچ اور تحریر کے مالک شاہ نواز فاروقی ہیں جن کے کالم روزنامہ جسارت اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی تحریریں عقائد اور اعمال کے تقریباً سب گوشوں پر محیط ہوتی ہیں۔ ایک جہاں ان کے کالموں پر فریفتہ ہے۔ ان کالموں سے اکتسابِ فیض کرنے والے پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں ان کا تعلق صرف تحریکِ اسلامی سے ہی نہیں بلکہ دوسرے مکاتبِ فکر سے متعلق حضرات بھی شامل ہیں۔ خیال ہوتا تھا کہ شاہ نواز فاروقی صاحب کے سب کالم اگر کتابی شکل میں چھپ جائیں تو ایک تو محفوظ ہوجائیں گے، دوسرے ان سے استفادہ آسان ہوجائے گا۔ اچانک دو کتابوں کا اشتہار نظر آیا تو خوشی ہوئی کہ بالآخر شاہ نواز فاروقی صاحب کی تحریریں کتابی صورت میں آہی گئی ہیں۔ فاروقی صاحب شاعر بھی ہیں۔ نثر میں دس بارہ کتابوں میں سے یہ دو کتابیں ’دستک‘ اور ’مصرف‘ کے نام سے منصۂ شہود پر آئی ہیں جن میں 1999ء میں طبع شدہ کالم جمع کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے ان کے کالموں کے تین مجموعے ’کاغذ کے سپاہی‘، ’تہذیبوں کا تصادم‘ اور ’اسلام اور مغرب‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے بھی دوسرے ایڈیشن شائع ہونے چاہئیں۔
ان کی اہلیہ قرۃ العین ہمارے سلیم احمد جیسے مفکر، ادیب، شاعر اور نقاد کی صاحبزادی ہیں، تحریر فرماتی ہیں:
’’فی زمانہ لکھنے کے چار بڑے محرکات ہیں: پیسہ، شہرت، اَنا کا اشتہار اور اُس کی توسیع یا انفرادی، گروہی اور طبقاتی مفادات کا تحفظ۔ لیکن ان محرکات کے تحت لکھنے کا عمل ایسا ہی ہے، جیسے کعبے میں بت رکھ دیے جائیں۔ لکھنے کا عمل اگر زندہ رہنے کے ہم معنی نہیں تو اس کا کوئی مفہوم نہیں۔ ایک مسلمان کی زندگی شعور سے زندگی بنتی ہے اور شعور کا تعلق تناظر سے ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ ایک مسلمان کا زاویۂ نظر اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے مسلمات کے سوا کہیں سے نہیں آسکتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو لکھنے کا مطلب اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے زاویۂ نظر کا حامل ہونا ہے۔ اگر مسلم معاشرے کے کسی لکھنے والے کی تحریروں میں تناظر کی یہ صورتیں موجود نہیں تو ان تحریروں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی میرے شوہر پر مہربانی ہے کہ انہوں نے گزشتہ 27 سال میں جو کچھ بھی لکھا ہے اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے تناظر میں لکھا ہے۔
کتابوں کی اشاعت ممکن ہونے کا قصہ یہ ہے کہ شاہ نواز صاحب کی تحریروں کو پڑھنے والوں میں ایک صاحب اللہ داد نظامی بھی تھے، ان کا تعلق پنجاب کے علاقے ڈھوک نواز سے تھا۔ وہ جماعت اسلامی کے رکن اور علاقے کی ایک اہم تحریکی شخصیت تھے۔ ان کالموں پر تبصرہ کرنے کے لیے اکثر فون کرتے۔ کبھی کبھار جب فون میں نے اٹھالیا تو ان کالموں کی بہت تعریف کرتے، کبھی یہ تعریف کسی شعر کی صورت میں ہوتی۔ انہوں نے کئی دفعہ میرے والد سلیم احمد مرحوم کے شعر کالم پر تبصرے کے طور پر سنائے۔ ایک دن ان کے پاس اللہ داد نظامی صاحب کا فون آیا تو کہنے لگے کہ عرصے سے آپ کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔ جب انہوں نے ناشر کے دستیاب نہ ہونے کا بتایا تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس ایک دو نہیں کئی ناشر ہیں۔ آپ اپنی دس بارہ کتب تیار کریں، ناشر کا بندوبست میں کرتا ہوں۔ چند روز بعد انہوں نے اسلامک پبلی کیشنز کے منیجنگ ڈائریکٹر طارق محمود صاحب سے رابطے کی ہدایت کی۔ تاہم ان کی ہدایت پر عمل سے قبل سانحہ یہ ہوا کہ اللہ داد نظامی اچانک حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے۔ بہرحال کچھ دن بعد طارق محمود صاحب سے رابطہ ہوا تو انہوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ اللہ داد نظامی صاحب سے کتابوں کی اشاعت پر اصولی بات ہوئی تھی۔ قصۂ کوتاہ، طارق محمود صاحب کو دس کتب کے مسودے تیار کرکے ارسال کردیے گئے، جن پر کام شروع ہوگیا۔
ان کتابوں کا بیشتر مواد اُن کالموں پر مشتمل ہے جن کا تعلق مستقل فکری، علمی، تہذیبی، ادبی اور سماجی مسائل سے ہے۔ البتہ ان کتب میں آپ کو کچھ کالم سیاسی موضوعات کے حوالے سے بھی پڑھنے کو ملیں گے۔ ان کالموں کی شمولیت کی وجہ یہ ہے کہ قارئین بالخصوص تحریک اسلامی سے وابستہ قارئین قومی و سیاسی زندگی کے ان اہم واقعات اور پہلوئوں کو بھی اپنے شعور کا حصہ بنا سکیں جن کی اہمیت تاریخی ہے۔
یہ کتابیں آپ تک پہنچانے کے سلسلے میں اللہ داد نظامی مرحوم اور طارق محمود صاحب کا کردار بنیادی ہے۔‘‘
کتاب کا نام ’’دستک‘‘ شاہ نواز صاحب کے ایک شعر سے ماخوذ ہے:
اس حال کی دستک ہے مرے دل پہ کہ جس میں
ہونا بھی ہے دشوار، نہ ہونا بھی ہے دشوار
کتاب کا مقدمہ جناب یحییٰ بن زکریا مدیر ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی نے تحریر کیا ہے، فرماتے ہیں:
’’صحافت کی آمد نے علمی و ادبی اسلوبِ اظہار میں ’’کالم نگاری‘‘ کی صنف کو متعارف کروایا ہے، کالم نگاری کو اخبار نویسی میں بلند مقام حاصل ہے۔ کالم نگاری کو یہ مقام اس لیے حاصل ہے کہ وہ ذہنی رہنمائی کرتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے صحافت ایک بہت بڑی قوت ہے، وہ تعمیری رہنمائی بھی کرسکتی ہے اور معاشرے اور ملک کی تخریب کا سبب بھی بن سکتی ہے، اگر رائے عامہ کی درست رہنمائی کرے تو صحافت کا کردار مثبت ہوسکتا ہے۔ اس تناظر میں اخبارات کے کالم نگار کا کردار قائدانہ ہوتا ہے۔ اب تو صحافت ابلاغ عامہ بن کر علم و ادب کی دیگر اصناف کو کھاتی جارہی ہے، اس کے باوجود اخبار کی طرح ایک کالم کی زندگی بھی ایک دن کی ہوتی ہے، موضوعات بدل جاتے ہیں، کالم کا مواد قاری کے حافظے سے محو ہوجاتا ہے، اس طرح ایک جدید مگر مؤثر صنف غیر مؤثر بھی ہوجاتی ہے۔ اگر کالم نگار ذہنی طور پر پختہ ہو تو اس کے کالم قاری کے ذہنوں سے فراموش ہونے کا خطرہ کم کردیتے ہیں۔ بہرحال کالم نگاری اپنی مختصر سی زندگی کے باوجود ایک مقبول اور مؤثر صنف ہے۔ عربی اسلوبِ بیان کا معیار یہ ہے کہ ’’ماقلّ ود‘لَّ‘‘ یعنی جوبات مختصر اور مدلل ہو، وہ معیاری اور مؤثر ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے اخبار کی محدود جگہ پر کالم نگار کو اپنی بات کہنی ہوتی ہے۔ مختصر الفاظ اور جملوں میں مکمل اور مؤثر بات کہنا ایک کامیاب کالم نگار کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ اس حوالے سے بہت کم کالم نگار ایسے ہیں جنہوں نے اس مؤثر ’’میڈیم‘‘ کا کامیاب استعمال کیا ہو۔ خاص طور پر رائے عامہ کی رہنمائی کے نقطۂ نظر سے یہ شعبہ قحط الرجال کا منطر پیش کررہا ہے۔ بہت کم کالم نگار ایسے ہیں جن کے کالم وقت گزرنے کے بعد بھی قابلِ مطالعہ اور قابلِ استفادہ ہوتے ہیں۔ اس مستثنیٰ فہرست میں ایک نام شاہ نواز فاروقی کا بھی ہے۔ انہوں نے 1990ء کے عشرے سے کالم نگاری کا آغاز کیا، اور حالاتِ حاضرہ پر اپنے فکر انگیز تجزیوں اور دل کش اسلوبِ تحریر سے قارئین اور اہلِ نظر کی توجہ حاصل کرلی۔ شاہ نواز فاروقی نے کالم نگاری کا آغاز روزنامہ ’’جسارت‘‘ اور ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ سے کیا اور بڑے بڑے ابلاغی اداروں سے پیش کش کے باوجود محدود اشاعت رکھنے والے لیکن سماج اور معاشرے کو بدلنے کی جدوجہد میں مصروف اہلِ نظر قارئین سے اپنا رشتہ توڑنا گوارا نہیں کیا۔ اس کا ایک سبب آزادانہ اظہارِ رائے اور مصلحت اور مداہنت سے گریز کو ہر مادی مفاد پر فوقیت دینا ہے۔ یہ طرزِ زیست وہی اختیار کرتا ہے جو فکرو عمل کے باہمی رشتے اور اس کے تقاضوں سے آگاہ ہو۔ شاہ نواز فاروقی کے کالموں کے تین مجموعے یعنی ’’کاغذ کے سپاہی‘‘، ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ اور ’’اسلام اور مغرب‘‘ اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ کالموں کے ان تین مجموعوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی رواں سیاسی واقعے پر لکھے گئے کالم بھی ہر وقت تازہ رہتے ہیں، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کالم نگاری ان کا شوق نہیں بلکہ مقصدِ زندگی کا اظہار ہے۔ وہ ادیب اور شاعر کے طرزِ احساس کے ساتھ ابلاغ عامہ کی تعلیم اور عامل صحافی کی حیثیت سے عصرِ حاضر کی سیاست اور امورِ مملکت اور بین الاقوامی سیاست کی پیچیدگیوں کا فہم رکھتے ہیں۔ ادبیاتِ عالم اور قدیم وجدید علوم پر وسیع نگاہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک صحافی کی معاملہ فہمی کی نظر ہے، اس کا اظہار ان کے ہر کالم سے ہوتا ہے۔ آپ ان کے کالموں کے موضوعات سے اندازہ لگائیں گے کہ مقامی، قومی اور بین الاقوامی سمیت کوئی اہم موضوع ان کی گرفت سے نہیں بچا۔ انہوں نے خالص علم و ادب اور فلسفے کے امور کا رشتہ معاصر سیاست سے جوڑ کر دکھایا ہے، اس وجہ سے ہر ذہنی سطح کے قاری ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ اسالیب اظہار کی تخلیق پر قدرت نے ابلاغ کو ممکن اور قاری کا محبوب بنایا ہے۔
شاہ نواز فاروقی نے جس وقت عملی صحافت میں قدم رکھا اور کالم نگاری کا آغاز کیا وہ زمانہ قومی اور عالمی سطح پر پُرآشوب تھا۔ وہ اس بات کا فہم رکھتے ہیں کہ معاصر سیاست میں پیش آنے والا ہر واقعہ حق و باطل اور خیر و شر کے ابدی رزم نامے کا حصہ ہے، وہ معرکۂ حق و باطل اور خیر و شر کی کشمکش کے غیر جانب دار ناظر یا مبصر نہیں ہیں، بلکہ وہ حق اور خیر کی صفوں کا حصہ ہیں، اس لیے اس کشمکش کا حصہ بن کر کالم نگاری کرنا انتہائی ذمے داری کا کام ہے اور یہ کام جگر کو خون کیے بغیر ممکن نہیں۔ عہدِ حاضر نوآبادیاتی دور کا تسلسل ہے، اس نے مسلم معاشرے میں جو فساد پیدا کیا ہے اس کی تفصیلات کا اندازہ بھی اکثر دانشوروں کو نہیں ہے۔ نوآبادیاتی دور کو صرف سیاسی اور اقتصادی غلامی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے جب کہ ذہنی و فکری غلامی عقیدے، ایمان اور کردار کو بھی کھا جاتی ہے۔ چونکہ شاہ نواز فاروقی کو زندگی اور نظام کی کلیت کا شعور ہے، اس لیے ان کی تحریروں میں ہر مسئلہ مرکزی مسئلے سے جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ’’جدیدیت، عہدِ حاضر کا بتِ اکبر‘‘ ہے اور ’’عیارِ عقل‘‘ نے سو بھیس بناکر قلبِ مومن کو مریض بنا دیا ہے۔ یہ وہ روحانی بیماری ہے جس کے مظاہر سیاست، معیشت، سماج اور فرد کی زندگی میں نظر آرہے ہیں، اس احساس نے اضطراب کی شکل اختیار کرلی ہے جس نے شاہ نواز فاروقی کی تحریروں کے اثر کو بڑھا دیا ہے۔ یہ شاہ نواز فاروقی کے فکری اساتذہ اور رہنمائوں کا فیض ہے جن میں ابتدا میں اکبر، اقبال، مودودی اور بعد میں محمد حسن عسکری اور سلیم احمد شامل ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ادب اور صحافت کے محاذ پر ملت کی نشاۃ ثانیہ کی جو تحریک اٹھی تھی شاہ نواز فاروقی کے کالم اس کا تسلسل ہیں۔ برصغیر میں اردو صحافت کا آغاز عالموں اور ادیبوں نے ملّی شعور کی بیداری کے لیے کیا تھا، آج بدقسمتی سے صحافت کا رشتہ مذہب، ادب اور علم سے ٹوٹ گیا ہے، اس لیے ذرائع ابلاغ میں موجود آوازوں کا شور فکری آلودگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ابلاغ کی ’’چکاچوند تاریکی‘‘ میں علم، ادب، ایمان، سیاست اور معیشت کو ایک کلیت کی صورت میں بیان کرنا ہی اصل ’’دانش‘‘ ہے۔ فی زمانہ ’’دانشور‘‘ ایک طنزیہ اصطلاح بن گئی ہے، اس پس منظر میں شاہ نواز کے کالموں کا مجموعہ فکری یکسوئی فراہم کرے گا۔‘‘
مناسب تو یہی تھا کہ ہم ان کالموں کے اقتباسات اور عنوانات بھی قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے، مگر جگہ کی قلت مانع آرہی ہے۔
٭٭٭
نام کتاب: مصرف
مصنف: شاہنواز فاروقی
صفحات: 232 قیمت:260 روپے
ناشر: اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ منصورہ ملتان روڈ لاہور
فون نمبر: 042-35252501-2
فیکس: 042-35252503
ای میل: islamicpak@gmail.com
ویب سائٹ: www.islamicpak.com.pk
تلک عشرہ کاملہ میں سے دوسری کتاب نہایت عمدہ مضامین پر مشتمل مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا نام بھی شاہ نواز فاروقی صاحب کے شعر سے ماخوذ ہے، شعر ہے:
سنا ہے کہ میرا بھی ایک مصرف ہے
میں خواب دیکھتا ہوں اور سوال کرتا ہوں
شاہ نواز فاروقی صاحب کا ایک شعری مجموعہ بھی چھپ چکا ہے، ’’کتابِ دل‘‘ اس کا نام ہے۔ جناب سید منور حسن حفظہ اللہ سابق امیر جماعتِ اسلامی کتاب کے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مغربی اور غیر اسلامی دنیا نے اسلامی تحاریک اور اسلامی ضابطۂ حیات کے بارے میں ایک طویل عرصے سے نہایت منفی پروپیگنڈہ کر رکھا ہے۔ اچھے بھلے سمجھ دار تعلیم یافتہ طبقات بھی بعض اوقات اس کا شکار ہوکر ذہنی کشمکش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ مغربی استعمار اسی لابی کے ذریعے پوری دنیا میں اسلام کو دہشت گرد قرار دینے کے درپے ہے۔ ان کی یہ بھی کوشش ہے کہ غلط فہمی پیدا کرکے اس کو یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کریں تاکہ امتِ مسلمہ کو شکست و ریخت سے نہ صرف دوچار کیا جائے بلکہ اس میں ایسے فاسد مادے کو بھی شامل کیا جائے کہ مسلمان خود سوال کرنا شروع کردیں۔ ہماری روح، علم، تحقیق، محراب و منبر اور جہاد فی سبیل اللہ کو بھی سوالات کا سامنا ہو۔ اسلامی سماج بھائی چارے، اخوت، محبت اور ایثار سے مزین ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ظلم و ستم، زیادتی، سماجی و معاشی استحصال سے پاک معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور ظلم و بربریت اور سماجی ناانصافیوں کے بارے میں جس قدر ہوسکے آواز بلند کریں۔
ایسے میں کسی نظریاتی اساس کے مالک مصنف کے لیے کوئی بہت آسان کام نہیں ہے کہ وہ اپنے دین، معاشرے اور سماج کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا مقابلہ بھی کرے اور اپنی تحقیق، علم اور جستجو کے ذریعے صحیح پیغام کو عوام الناس تک پہنچانے کی سعی بھی کرتا رہے۔ صحافی، مصنف، ادیب، شاعر اور کالم نگار ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوئی تامل نہیں برتتے۔ نہایت تربیت یافتہ، راسخ العقیدہ، پیشہ ور اہل قلم اور بالخصوص صحافی اپنی تحریروں، تجزیوں اور مشاہدات کو قاری تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ بین الاقوامی واقعات، ان کا پس منظر، مقاصد، مفہوم اگر قاری تک بروقت اور ایمان دارانہ طریقے سے پہنچتا رہے اور مغربی دنیا کے توڑ مروڑ کر دیے ہوئے واقعات کو حقائق کے ساتھ پیش کردیا جائے تو ان کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔
تحریر اہلِ قلم کی شخصیت کا عکس بھی ہوتی ہے اور اس کے ذہنی لگائو کا اندازہ لگانے میں مدد دیتی ہے، کیوں کہ کسی بھی ادیب، صحافی، قلم کار، مصنف کا اسلوب، طرزِ فکر و تحریر اس کی اپنی شخصیت اور افکار کی بھی غمازی کرتی ہے۔ اگر تحریر کا اسلوب جان دار اور اچھوتا ہو تو قاری کو تشنگی نہیں رہتی۔ برادرم شاہ نواز فاروقی کا اسلوبِ تحقیق اور واقعات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت قاری میں ذہنی تشنگی کو باقی نہیں رہنے دیتی۔ آپ نئے لکھنے والوں کے لیے ایک مثال بھی ہیں۔ شاہنواز فاروقی کا حوالہ نظریاتی، انقلابی اور آفاقی ہے۔ ان کا قلم سوچ و فکر کو مہمیز دیتا ہے۔ سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں سمیٹے نظر آتا ہے۔
تاریخ کے اس لمحے جو معرکۂ خیر و شر بپا ہے۔ بظاہر مغرب کی غالب تہذیب ڈیزی کٹر اور کلسٹر بموں سے لیس دنیا کو فتح کرنے نکلی ہے، لیکن وہ استدلال، فلسفہ، نظریہ اور دلوں کو فتح کرنے کی صلاحیت سے عاری اور محروم تہذیب ہے اور اس کا مقابلہ ہر جگہ اسلامی نظریہ، عقیدہ اور تصورات کررہے ہیں۔ بظاہر بے سروسامانی کا عالم ہے لیکن ایمان، یقین اور اللہ کی تائید و نصرت پر بھروسا ہے۔ بصیرت و بصارت کی گواہی ہے کہ کامیابی اور مسلسل پیش رفت جاری ہے۔ مغربی تہذیب ڈھلان پر ہے۔ سمتِ معکوس میں سفر کررہی ہے۔ محض ڈس انفارمیشن اور طفل تسلیوں پر تکیہ کیے ہوئے ہے اور ’’کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں‘‘ کا عنوان بن گئی ہے۔
اس کشمکش کو شاہ نواز فاروقی کے قلم نے خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ سنجیدہ اپروچ، استدلال اور تجزیاتی اسلوب، ذہن و دل کی دنیا میں ارتعاش پیدا کرنے والے سارے عوامل ان کے قلم کی زد میں ہیں۔ میں ذاتی طور پر فنِ کالم نگاری کا مداح ہوں۔ مختصر پیرایہ اور مکمل بات۔ اکثر یہ ہوتا رہا ہے کہ بعض کالم نگاروں کو ان کی کاوش پر میں داد دیتا ہوں… لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہے جب واقعی اور کبھی کبھار ان سے ایک اچھا کالم ’’سرزد‘‘ ہو… شاہ نواز کی ’’خرابی‘‘ یہ ہے کہ ان کا ہر کالم نئے افق لے کر طلوع ہوتا ہے، سوچ کی نئی جہتیں اور پرتیں کھولتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے جھاگ کے نیچے جو کچھ ہے، اس کا ادراک اور شعور بھی عطا کرتا اور اس کی حقیقت کو طشت ازبام کرتا ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا کہ بڑے بڑے شعرا کے جب دیوان یا شعری مجموعے چھپ کر سامنے آئے تو جن اشعار یا کلام کے حوالے سے ان کی شہرت تھی، وہ ماند پڑ گئی، کیونکہ بہتات اور فراوانی میں معیار برقرار رہنا کم کم نظر آتا ہے اور طبیعت پر گراں گزرتا ہے… لیکن مجھے یقین ہے کہ شاہ نواز فاروقی کے کالموں کا ہر البم نہ صرف ان کی سوچ سے پوری طرح آگاہی دے گا، کچھ کرنے اور کر گزرنے کا داعیہ پیدا کرے گا بلکہ پوری امت کو درپیش مسائل کا ایجنڈا بھی دوٹوک سامنے لے آئے گا۔ نیز تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر ماضی سے اپنے رشتوں کی استواری کی نوید عام کرے گا۔ ان شاء اللہ!
میرے نزدیک ایک کتاب ضبطِ تحریر میں لانا کوئی آسان کام نہیں، مگر درجن بھرکتب کا تحریر کرنا شاہ نواز فاروقی کی علم دوستی، جستجو اور پیغام آگے بڑھانے کا عزم بہت خوب ہے۔
کتاب تنہائی کی بہترین دوست اور ساتھی ہوتی ہے اور اگر کتب بامقصد ہوں تو بہت ہی خوب۔ بہترین انداز تحریر، الفاظ کا انتخاب، جملوں کی بندش اور واقعات کی تلخ یادیں بھی اگر متاثر کررہی ہوں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تحریر کتنی مؤثر اور بامقصد ہے۔
میری ربِ ذوالجلال سے دعا ہے کہ شاہ نواز فاروقی کے قلم میں مزید طاقت عطا فرمائے اور یہ اپنی کتب، کالم اور اشعار کے ذریعے پیغام محبت کو فروغ دیتے رہیں، آمین۔
دونوں کتابیں سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہیں۔