سید مودودیؒ سے سوال، سید مودودیؒ کا جواب!

ایک صاحب نے میرے پاس ایک سوال بھیجا ہے جو خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اُن کا سوال اور اس کا جواب درج ذیل ہے:
سوال: بعض سرکاری حلقوں کی طرف سے ایک سرکلر پھیلایا جارہا ہے، جس میں آپ کی 6 فروری 1977ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مولانا مودودی صاحب نے اس الیکشن کو جہاد کے مترادف قرار دیا ہے، مگر ہم جانتے ہیں کہ جہاد کسے کہتے ہیں۔ الیکشن کو جہاد کہنا غلط ہے۔ کیا اس بارے میں آپ کوئی وضاحت فرمائیں گے؟
جواب: جن حلقوں کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہ اگر برا نہ مانیں تو میں صاف صاف عرض کروں کہ ایسے لوگوں کے دین و ایمان کا مرکز ان کا دل نہیں، بلکہ ان کا معدہ ہوتا ہے۔ اور مزید ستم یہ ہے کہ جہالت کے باوجود ان کو علم کا زعم بھی ہے۔ اس جہلِ مرکب میں جو لوگ مبتلا ہیں ان کے ضمیر کو آئینہ دکھاکر آخر میں کیسے انہیں بتائوں کہ ظالموں کے ظلم میں مددگار بننے والوں کے منہ پر جہاد کے معنی جاننے کا دعویٰ کسی طرح نہیں سجتا۔ ان کا یہ دعویٰ اگر صحیح ہو، تو یزید کے عہد سے لے کر انگریزی امپیریلزم کے دور تک کے سب لشکر مجاہد تھے اور اُس وقت سے آج تک کے سب اہلِ حق اور اہلِ جہاد، جہاد کے معنی سے ناواقف تھے۔
جاہلوں کے منہ لگنا تو بہرحال میرا شیوہ نہیں، البتہ آپ چونکہ میری بات کی وضاحت چاہتے ہیں، اس لیے آپ کو میں بتاتا ہوں کہ جہاد اور قتال ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔ قتال صرف ہتھیاروں سے لڑنے کا نام ہے، لیکن لفظ جہاد اسلامی اصطلاح میں ہر اُس جدوجہد کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کرنے کے لیے کی جائے، خواہ وہ ہتھیاروں سے ہو، یا زبان و قلم سے، یا کسی دوسری ایسی تدبیر سے جو غیر دینی نظام کی جگہ دینی نظام کو عملاً برسراقتدار لانے کے لیے کارگر ہو۔ الیکشن بھی اگر اس غرض سے ہو کہ رائے عامہ کی تائید حاصل کرکے ووٹ کی طاقت سے ایک غیر اسلامی اقتدار کو شکست دی جائے اور اس کے مقابلے میں اسلام کو غالب کیا جائے، تو اس کے جہاد ہونے میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ انتخابات میں جس اقتدار کو شکست دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ غیر اسلامی ہے یا نہیں؟ اور ملک کے مسلم عوام کی عظیم اکثریت، جس نے ان لوگوں کا ساتھ دیا وہ اسلام کی حامی تھی یا غیر اسلام کی؟… تو سچی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں صحیح رائے قائم کرنے کے اہل وہ لوگ ہرگز نہیں ہوسکتے جن کے لیے اصل مسئلہ صرف اپنی تنخواہوں اور ترقیوں کا ہے اور جو ہر صاحب ِاقتدار کی خدمت گزاری کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ دین اور اخلاق کے لحاظ سے اس کا مقام کیا ہے وہ اپنی تنخواہوں اور ترقیوں کی خیر مناتے رہیں۔ ان کی یہ حیثیت کب سے ہوگئی کہ وہ کسی جدوجہد کے جہاد ہونے کی بحث میں عالمانہ فیصلہ صادر فرمائیں! ایاز قدرِ خود شناس۔
ابوالاعلیٰ