ملک میں ایک مرتبہ پھر روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے اور انٹر بینک میں امریکی ڈالر ’ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح‘ 121 روپے پر پہنچ گیا ہے، تاہم اوپن مارکیٹ میں ڈالر اب بھی 120 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ پیر کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کے مابین ڈالر کے لین دین کے لیے طے کردہ انٹر بینک نرخ میں اچانک اضافہ کردیا گیا جس کے بعد انٹر بینک تبادلے میں ڈالر تقریباً چار روپے مہنگا ہوگیا، اور اب بینک ڈالر 119 روپے میں خرید رہے ہیں اور انٹر بینک میں ڈالر 121 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 115 روپے 60 پیسے تھی جو اب بڑھ گئی ہے۔
انٹر بینک میں قیمت بڑھنے کے بعد اس کا اثر اوپن مارکیٹ میں بھی دیکھا گیا۔ فاریکس ڈیلرز کا کہنا ہے کہ پیر کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر 120 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ ڈیلر 119 روپے میں ڈالر خرید رہے ہیں۔ اس سے پہلے گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر 118 روپے 50 پیسے میں فروخت ہو رہا تھا۔ پاکستان میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آرہی ہے اور اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 10 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب جون میں حکومت کو قرضوں کی ادائیگیوں کی مد میں ساڑھے تین ارب سے چار ارب ڈالر کی اقساط دینی ہیں۔ ڈالر کی طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی کی وجہ سے انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بڑھی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِِ ذکر ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے کیے گئے وعدے کے مطابق پاکستان کرنسی کی قدر میں بتدریج کمی کررہا ہے۔ موجود نگراں حکومت میں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر ماضی میں اسٹیٹ بینک کی گورنر رہی ہیں اور اُن کے دور میں بھی ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کیے جانے کے بجائے اوپن مارکیٹ میں طلب و رسد کی بنیاد پر قیمت طے کیے جانے پر زیادہ زور دیا گیا۔
کویت میں ’’تحریف شدہ‘‘ اذان نے ہنگامہ کھڑا کر دیا
کویت میں ایک مسجد کے چوکیدار نے تحریف شدہ اذان دے کر ہنگامہ کھڑا کردیا۔ الاحمدی صوبے کی مسجد البوص میں مذکورہ شخص نے اذان میں ’’اللہ اکبر‘‘ کے بجائے ’’اللہ کویت اکبر‘ُ کے الفاظ ادا کیے۔
اذان کے وقت سڑک پر گزرنے والے بعض راہ گیروں نے اس واقعے کی وڈیو بناکر سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی۔ اس کے نتیجے میں عوامی حلقوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مقامی میڈیا نے بتایا کہ واقعے کا ذمے دار چوکیدار بنگلہ دیشی شہریت رکھتا ہے۔ وزارتِ اوقاف نے اسے حراست میں لے کر پوچھ گچھ کے لیے پیش کردیا ہے۔کویتی وزارتِ اوقاف میں الاحمدی صوبے کی مساجد کے انتظامی سربراہ ڈاکٹر احمد العتیبی کے مطابق یہ واقعہ مسجد کے نئے چوکیدار کی اپنی جدت طرازی کے سبب پیش آیا۔ العتیبی نے بتایا کہ مسجد البوص رہائشی علاقوں سے دور واقع ہے جو مذبح اور مویشی منڈی کے لوگوں کے لیے استعمال میں آتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ نئے چوکیدار نے یہ گمان کیا کہ مسجد کا مؤذن غیر حاضر ہے اور اس نے مسجد میں نمازیوں کے نہ ہونے کے باوجود بھی خود بڑھ کر اذان دے دی۔
بھارت: واٹس ایپ پر ’’بچہ اغوا‘‘ کی افواہیں اور شک کی بنیاد پر ہجومی قتل
بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں واٹس ایپ پر بچوں کے اغوا کی افواہ پھیلنے کے بعد ایک جتھے نے دو افراد کو تشدد کا نشانہ بناکر جان سے مار دیا۔
تشدد کا یہ اندوہناک واقعہ گوہاٹی شہر میں پیش آیا ہے۔ وہاں ایک آڈیو انجینئر میلو تپال داس اور ڈیجیٹل آرٹسٹ ابجیت ناتھ نے مبینہ طور پر رک کر لوگوں سے اپنی جائے منزل کا راستہ پوچھا تھا۔ بس پھر کیا تھا، ایک ہجوم ان پر پِل پڑا اور انھیں تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس طرح کسی ازدحامی حملے کا صرف وہی نشانہ نہیں بنے ہیں بلکہ ان سے پہلے اس ماہ کے دوران میں بھارت کے مختلف علاقوں میں چھے افراد کو اسی طرح لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مار پیٹ کر ہلاک کیا جا چکا ہے۔ بھارت میں واٹس ایپ پر بچوں کے اغوا کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں اور پھر محض شک کی بنیاد پر مشتعل جتھے آنے جانے والے انجان لوگوں کو پکڑ کر مار پیٹ رہے ہیں۔ بھارت کے ایک سینئر پولیس افسر مکیش اگروال نے بی بی سی ہندی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جب سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلنا شروع ہوتی ہیں تو پھر انھیں مکمل طور پر رکنے میں کچھ وقت لگتا ہے‘‘۔ مذکورہ دونوں افراد کی ہلاکت کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوچکی ہے اور علاقے کے مکینوں نے اتوار کو اس واقعے کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں افراد بے گناہ تھے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ بچوں کے اغوا کی افواہیں واٹس ایپ پر کیسے پھیلنا شروع ہوئی تھیں اور آیا حالیہ دنوں میں بچوں کے اغوا کی کوئی واردات ہوئی بھی ہے یا نہیں؟ بھارت میں اس طرح ازدحامی حملوں کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہندو بلوائیوں کے جتھے دسیوں مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے یا گائے کا گوشت کھانے کی پاداش میں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بناکر موت کی نیند سلا چکے ہیں۔
بحر ہند میں چین کی بحریہ کا جزیرہ
انتہائی معتبر ذرائع سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ
China is trying to establish in the Indian Ocean Island Country.
واضح رہے کہ مذکورہ بالا اس خبر کی ابھی تصدیق نہیں ہوئی، لیکن اس نے امریکہ اور بھارت کے لیے بے حد پریشان کن صورت حال پیدا کردی ہے۔ امریکی حکام اس خبر کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس خبر یا اطلاع کو ایک مفروضہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کرسکتے کہ نہ جانے چین اپنی بحریہ کا یہ جزیرہ کس جگہ بنائے گا؟ اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا، یا یہ ناممکن ہے تو ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ چین نے اپنے سمندروں کے جنوبی حصوں میں اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کئی مصنوعی جزیرے بنا رکھے ہیں، جہاں وہ ہر قسم کے اسلحہ سے لیس بیٹھا ہوا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی اطلاع کے مطا بق چین نے اپنے سمندروں کے متنازع جنوبی حصوں میں بنائے گئے ان جزیروں میں دُور مارکرنے والے اور تباہ کن میزائل بھی نصب کررکھے ہیں۔ CNBC کی رپورٹ کے مطابق چین نے جہاز شکن اور فضا سے فضا تک مار کرنے والے میزائل نصب کرتے ہوئے ویت نام اور فلپائن کے لیے خطرے کے الارم بجا دیئے ہیں۔ اس اطلاع پر چین کے وزیر خارجہ سے جب اس خبر کی صحت کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کی تردید یا تائید کرنے سے انکار کردیا۔ امریکہ کی شہ پر برونائی، فلپائن، ویت نام اور ملائشیا کے جنوبی چین کی سمندری حدود میں اپنے شپنگ حقوق کے لیے ایک عرصے سے چینی حکومت سے اختلافات چلے آ رہے ہیں، لیکن جس دن ان میں سے کسی ایک بھی حکومت اور اس کے عوام نے امریکی تسلط سے آزاد ہوکر چین سے خلوصِ نیت سے ہاتھ ملایا، ان کے تمام خدشات دور ہوسکتے ہیں۔ اور اگر امریکی اتحادی بن کر اس کی شہ پر چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، تو اس پر چین کا ردعمل قدرتی امر ہے۔
بھارت جو کل تک سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ چین جس کا2011ء تک مالدیپ میں سفارت خانہ بھی نہیں تھا، وہاں یہ نوبت آجائے گی کہ مالدیپ حکومت کی ایک آئینی ترمیم کے ذریعے چینی شہری مالدیپ میں کسی بھی قسم کی جائداد خرید سکیں گے۔ اس وقت مالدیپ کے متعدد ترقیاتی اور تعمیری پراجیکٹ چین کو دیئے جا چکے ہیں، جن پر تیزی سے کام ہورہا ہے، اور چین مالدیپ کی جغرافیائی حدود کے ذریعے بحرہند میں بھارت کی خواہشوں کا گلا گھونٹنے میں لگا ہوا ہے۔
)منیر احمد بلوچ۔11جون2018ٔ)
ایک اہم کتاب
تیسری نہایت اہم کتاب، سوانح حیات بنام ’’سچ تو یہ ہے‘‘ جناب چودھری شجاعت حسین کی تحریر کردہ ہے۔ چودھری صاحب کا سیاسی اور سماجی کردار کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ آپ کے والد مشہور سیاست دان چودھری ظہورالٰہی تھے جن کو ملک دشمن لوگوں نے لاہور میں شہید کردیا تھا۔ چودھری صاحب اور ان کے کزن چودھری پرویزالٰہی نے پنجاب اور ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چودھری شجاعت پاکستان کے وزیر صنعت، وزیر اطلاعات اور سابق وزیراعظم رہے ہیں، نہایت ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ رحم دل، نرم مزاج، نرم گفتار، پُرمزاح انسان ہیں۔ میرے اُن سے تقریباً 35 سال سے اچھے تعلقات ہیں۔ اکثر مجھے صبح دفتر جانے سے پہلے ناشتے کے لیے بلا لیتے تھے۔ آپ کی یہ کتاب ایک سیاسی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ آپ نے اپنے خاندان کے تعارف کے بعد ایوب خان کی صدارت سے لے کر تمام وزرائے اعظم کے ادوارِ حکومت کے واقعات، نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتیں اور برخاستگی، مشرف کا حکومت پر ناجائز قبضہ اور اس کے سیاہ دور کی تفصیل، این آر او، لال مسجد، کارگل پر احمقانہ ایکشن، نواب اکبربگٹی کا بہیمانہ قتل، امریکہ کی ایک فون پر غلامی، اور میرے ساتھ شرمناک سلوک اور وعدہ خلافی وغیرہ پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ امریکی صدر بش اور سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینیٹ (George Tenet) کے احکام کی تابعداری اور خوشنودی کی کوشش وغیرہ شامل ہیں۔ مجھ سے جھوٹا بیان ٹی وی پر پڑھوانے اور پھر وعدے سے پھرنے کی تفصیل ہے۔ میرے بیان پڑھنے کے بعد جو حرکتیں کی گئیں وہ آج بھی جاری ہیں۔ سیاسی حکمران غلاموں کی طرح ایک آمر کے جاری کردہ احکامات پر عمل کررہے ہیں۔ جس دن (4 فروری 2004ء کو) میں نے وہ لکھا ہوا، تھمایا ہوا بیان پڑھا ہم پر زندگی تنگ کردی گئی۔ اُسی روز چودھری شجاعت نے (جو اس تمام دوران مشرف سے اور مجھ سے رابطے میں تھے) ان کے ساتھ جناب ایم ایم ظفر بھی تھے مگر بعد میں اس نے ظفر کو علیحدہ کردیا کہ وہ مجھے مشورہ دے رہے تھے کہ میں ہرگز اس ڈکٹیٹر کی کسی بات اور وعدے پر اعتبار نہ کروں۔ وہ بالکل صحیح ثابت ہوئے۔ چودھری شجاعت نے کراچی کے ایک انگریزی اخبار کو طویل انٹرویو دیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے کوئی غلط کام نہیں کیا، انھوں نے یہ الزام اپنے سر لے کر بہت بڑی قربانی دی ہے اور ملک کو ایک اور بار تباہی سے بچا لیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے ایک روپیہ کی کرپشن یا بے ایمانی نہیں کی۔ اگر میں حقائق بیان کرتا تو ملک کو بہت نقصان پہنچتا۔ اپنی سوانح حیات میں آپ نے یہ بتلایا ہے کہ جب وہ مجھ سے آکر ملے تو میں نے صاف طور پر کہا ’’چودھری صاحب مجھ پر یہ الزام سراسر جھوٹ ہے، میں نے کوئی چیز فروخت نہیں کی (اور کیسے کرتا، میری ٹیکنالوجی دو ارب ڈالر کی تھی اور میں نے مفت دی تھی) اور نہ کسی سے کوئی رقم لی ہے، یہ فرنیچر جو میرے گھر میں آپ دیکھ رہے ہیں یہ بھی میری بیگم کے جہیز کا فرنیچر ہے۔ میں تو نیا فرنیچر نہیں خرید سکتا۔ یہ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں‘‘۔ بہرحال میری درخواست پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک و قوم کی خاطر ٹی وی پر آکر سارا الزام اپنے سر لے لیا۔ اس پر میں نے ایک بیان جاری کیا جس کا متن یہ ہے ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے اور قومی مفاد میں ساری ذمہ داری اپنے سر لی ہے، انھوں نے ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی، نہ ہی تفتیش کاروں کو کوئی بیان دیا ہے، میں نے گزشتہ روز ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات میں ملک میں پیدا ہونے والے بحران کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کی استدعا کی تھی، انھوں نے تمام ذمہ داری اپنے سر لے کر ملک و قوم کے لیے پہلے سے بڑھ کر کام کیا ہے جس سے ملک میں ابہام کا خاتمہ ہوا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کمزور سمجھ کر بیرونی دنیا ہم پر پریشر ڈال رہی ہے‘‘۔ ’’میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اُس وقت ڈاکٹر صاحب نے معاملے کی ساری ذمہ داری اپنے سر لے کر پاکستان کو ایک انتہائی مشکل صورت حال سے نکالا تھا اور یہ کوئی معمولی قربانی نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے اس ایثار و قربانی سے میرے دل میں اُن کی عزت مزید بڑھ گئی ہے‘‘۔ چودھری صاحب کی سفارش پر وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے میری بیگم (جن کی مدد اور قربانی سے پاکستان ایٹمی قوت بنا) کو 14 اگست 2003ء کو ہلال امتیازکا اعزاز دیا۔ 23 مارچ 2004ء کو مشرف نے ان کو یہ انعام وصول کرنے سے روک دیا اور بعض بے ضمیر سیاست دانوں نے بھی اس بدمعاشی کا ازالہ نہیں کیا۔ آمر تو آمر بعض سیاست دان بھی نہایت احسان فراموش ہیں۔ کاش چودھری صاحب چشم دید گواہ کے طور پر مشرف اور اسلم سکھیرا کے تعلقات پر روشنی ڈال دیتے جس سے مشرف کے کردار کا پول کھل جاتا۔ ٹی وی پر میرے بیان پڑھنے کے بعد گلف نیوز نے خبر لگائی کہ میرے اس اقدام نے میرا قد بلند کردیا ہے اور عزت بڑھا دی ہے۔
دنیا کے لاتعداد اخبارات اور ملک میں لاکھوں لوگوں کے بھی یہی تاثرات تھے۔ چودھری صاحب کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے عوام کو حقیقت سے آگاہ کردیا ہے۔
(ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔11جون2018)