علامہ یوسف القرضاوی
ترجمہ وتلخیص: ارشاد الرحمن
اہلِ اسلام کی دو عیدیں ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی، اور ہر عید کسی بڑی عبادت یا کسی بڑے فرض کے بعد آتی ہے۔ عیدالاضحی فریضۂ حج، اور عیدالفطر ماہِ رمضان کے بعد آتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان فرائض و عبادات کی ادائیگی کے بعد تم اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمھیں اس ادائیگی کی توفیق و رہنمائی عنایت فرمائی۔ عیدالفطر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی توفیق و عنایت پر اس کا شکر ادا کرنے کا ایک اظہار یہ ہے کہ مسلمان عید کی اس خوشی سے تنہا محظوظ نہ ہو، بلکہ فقیروں اور مسکینوں کو بھی اس میں شریک کرنے کی کوشش کرے۔ رمضان کی زکوٰۃ ’فطرانہ‘ اسی لیے فرض کیا گیا ہے۔ مسلمان یہ زکوٰۃ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے ادا کرتا ہے۔ یہ ایک معمولی سی مقدار ہے جو ہر اُس شخص پر واجب ہے جو عید کے دن اور رات کے کھانے کے علاوہ کچھ اپنے پاس رکھتا ہو۔ جمہور علما کے نزدیک اس شخص کی ملکیت کا نصاب کو پہنچنا ضروری نہیں۔ دراصل اسلام مسلمان کو خوشی غمی کے ہر موقع پر انفاق کا عادی بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس صدقۂ فطر کی ادائیگی کرتا ہے خواہ وہ فقیر ہی ہو۔ اگر وہ فقیر ہو تو ایک طرف وہ خود صدقہ ادا کرتا ہے اور دوسری طرف اسے دوسروں سے موصول ہورہا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: اس روز انھیں [فقرا و مساکین کو] کوچہ و بازار میں نکل کر مانگنے سے بے نیاز کردو۔ برادرانِ اسلام! عید کا دن وعید کے دن سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں: وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ o ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ o وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَۃٌ o تَرْہَقُھَا قَتَرَۃٌ o (عبس ۸۰: ۳۸-۴۱) ’’کچھ چہرے اُس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے، اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اُڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی‘‘۔ تروتازہ اور خوش باش چہروں والے ہی تو ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے صیام و قیام کی نعمت مکمل فرمائی۔ لہٰذا آج کے دن وہ خوش ہوں گے اور یقینا اُن کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں۔ دوسری طرف وہ چہرے جن پر کلونس چھائی ہوگی، یہی وہ چہرے ہوں گے جنھوں نے اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی اور قیام و صیام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی پروا نہ کی۔ ان کے لیے عید کا دن وعید کی حیثیت رکھتا ہے۔ برادرانِ اسلام! ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیسا کہ بعض قوموں اور ملکوں کا وتیرہ ہے کہ اُن کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔ اللہ کی کبریائی۔۔۔۔ تکبیر، ہم مسلمانوں کی عیدوں کی شان ہے۔ یہ تکبیر۔۔۔۔ اللہ اکبر، مسلمانوں کا شعار ہے۔ مسلمان روزانہ پانچ وقت اپنی نماز میں اسی عظیم کلمے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز کے لیے کیا جانے والا اعلان ’اذان‘ اسی کلمے سے شروع ہوتی ہے۔ نماز کی اقامت کا آغاز اسی کلمے سے ہوتا ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت مسلمان اسی کلمے کو ادا کرتا ہے۔ یہ بہت عظیم کلمہ ہے۔۔۔۔ اللہ اکبر! ’اللہ اکبر‘ ہر موقع پر مسلمانوں کا شعار ہوتا ہے۔ مسلمان میدانِ جہاد کے معرکے میں داخل ہو تو اللہ اکبر۔۔۔۔ یہ نعرئہ تکبیر دشمن کے دل میں خوف و دہشت طاری کردیتا ہے۔ اللہ اکبر عید کی شان ہے۔ اسی لیے یہ تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جائو: اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لا الٰہ الا اللّٰہ ، واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، وللّٰہ الحمد۔ برادرانِ اسلام! رمضان متقین کا موسم ہے، صالحین کا بازار ہے، اور بازار میں کاروبار کرنے والا تاجر خاص موسم میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کرتا ہے، لیکن وہ دکان کو اس خاص موسم کے بعد بند نہیں کردیتا۔ رمضان وہ موسم ہے جس میں ہم اپنے دلوں کو تقویٰ و ایمان کے مفہوم و معانی سے بھر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلوں کو اُس چیز کے حصول کی ترغیب دلاتے ہیں جو اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کی خوشنودی اور نعمتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ رمضان کی عبادتوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ انسان رمضان کے بعد بھی اللہ کی رسّی کو پکڑے رکھے۔ وہ اپنے رب کے ساتھ استوار ہونے والے تعلق کو ٹوٹنے نہ دے۔ بعض اسلاف تو یہ کہتے ہیں کہ بہت بُرے ہیں وہ لوگ جو اللہ کو صرف رمضان ہی میں پہچانتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ مسلمانو! ربانی بنو، رمضانی نہ بنو۔ ایسے موسمی نہ بنو جو اللہ تعالیٰ کو سال میں صرف ایک مہینے کے لیے پہچانتے ہیں۔ پھر اِس کے بعد اُس کی عبادت و اطاعت کا سلسلہ توڑ دیتے ہیں۔ عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اُسے کبھی فنا نہیں! جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی! اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے: وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَھُمْ ہُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوٰھُمْ o (محمد ۴۷:۱۷) اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔ نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری رہنا ہے، اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔ لہٰذا میرے مسلمان بھائیو! اللہ کے ساتھ دائمی تعلق استوار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اطاعت ہمیشہ کے لیے فرض کی ہے۔ وہ نافرمانی کو بھی ہمیشہ کے لیے ناپسند کرتا ہے۔اگر رمضان کا رب وہ ہے تو شوال، ذوالقعدہ اور دیگر مہینوں کا رب بھی وہی ہے۔ اللہ کی معیت میں چلنا ہے تو دائمی چلو، اس سے ہرجگہ ڈرو، خواہ کسی بھی زمانے میں ہو، اور کسی بھی حال میں ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ برادرانِ اسلام! ہر اُمت کا ایک امتیاز ہوتا ہے، اور ہر امتیاز کی ایک کلید ہوتی ہے۔ جب آپ کسی قفل کو کلید کے بغیر کھولیں گے تو وہ ہرگز نہیں کھلے گا۔ اسی طرح اس اُمت کا بھی ایک امتیاز ہے، اور اس امتیاز کی کلید ’ایمان‘ ہے۔ اسے ’ایمان‘ کے ذریعے متحرک کیجیے، یہ حرکت میں آجائے گی۔ ایمان کے ذریعے اس کی قیادت کیجیے، یہ پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان کے جذبات کے ذریعے حرکت دی جائے تو ایک بہترین اُمت تیار ہوسکتی ہے۔ یہ بڑی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرلیتی ہے، مشکل ترین اہداف کو حاصل کرلیتی ہے، اور بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ یہ خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کا دور واپس لاسکتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے اس اُمت کے دشمن خائف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ اُمت اسلام کی بنیاد پر متحرک نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کے بعد دوسری رکاوٹ کھڑی کردیتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کا چہرہ مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے دنیا کو ڈراتے ہیں۔ ان کی دعوت سے متنفر کرتے ہیں۔ اُن کے بارے میں افواہوں کا جال پھیلا دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان تحریکوں سے زیادہ صاف و شفاف کوئی تحریک نہیں۔ اپنے اسلوب، طریقِ کار، قیادت و کارکنان کے اعتبار سے یہ مثالی تحریکیں ہیں۔ یہاں ہرچیز شفاف اور ہرعمل میں اخلاص ہے۔ ہر کام میں ایمانی جھلک موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس پر اہلِ ایمان فرحت محسوس کرتے ہیں۔
(علامہ یوسف القرضاوی کے طویل مضمون سے اقتباس)