اے ارضِ فلسطین

امجد اسلام امجد

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا

غزہ میں اسرائیل کی حالیہ دہشت گردی اور یوم یکجہتیِ فلسطین کے سرکاری اعلانیے کی گونج میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کی مشہور حمد کا یہ شعر جس میں دعا اور التجا یک جان ہوگئے ہیں، بہت یاد آرہا ہے، کہ انھی کی تحریک اور سید محمد کاظم کی اعانت سے تقریباً 43 برس قبل میں نے عرب دنیا کے کچھ شاعروں کی فلسطین کے بارے میں لکھی گئی مختلف نظموں کے منظوم تراجم کا سلسلہ شروع کیا تھا جن میں محمود درویش، نزار قبانی، سمیع القاسم، فدویٰ توقان اور عبدالوہاب البیاتی کے ساتھ ایک نام ’’نازک الملائکہ‘‘ بھی تھا۔
اگرچہ یہ سب کی سب پُراثر اور زبردست نظمیں 1967ء کی جنگ حزیران میں فلسطینیوں کی شکست، جلاوطنی اور جذبۂ انتقام کے حوالے سے لکھی گئی تھیں، مگر جس انداز میں نازک الملائکہ نے اس صورتِ حال کو دیکھا، محسوس کیا اور قلم بند کیا تھا وہ بہت مختلف بھی تھا اور دل کو چھونے والا بھی۔ اس نظم کا عربی عنوان ’’الضیف‘‘ تھا، جب کہ میں نے اس کا اردو ترجمہ ’’مہمان‘‘ کے نام سے کیا۔
اس وقت فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے اُس کے تناظر میں اس نظم کی تاثیر کئی گنا بڑھ گئی ہے کہ اب اس میں گزرے ہوئے درمیانی 43 برس بھی شامل ہوگئے ہیں۔ اپنے فلسطینی بھائیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے میرے پاس اس نظم سے بہتر الفاظ نہیں ہیں۔ سو ہم سب کے اجتماعی ضمیر اور استنبول میں جمع ہونے والے او آئی سی میٹنگ میں شامل سربراہان کے نام فلسطین کی بیٹی نازک الملائکہ کا یہ خودکفیل پیغام۔ ایک بار پھر… مہمان

اُس کی دستک کے سمے وقفِ تحیر ہم لوگ
دشتِ غفلت میں کھڑے دیکھتے تھے
بے سحر رات کی بے فاصلہ پنہائی کو
خاک سے تابہ فلک کھلتے چلے جاتے تھے
لشکر غم کے علم
اس کی دستک کی صدا سن کے کوئی کہنے لگا
آخرکار کوئی آیا ہے
وہ چمن جس کو غنیموں نے خزاں بخت کیا
اس کے بارے میں کوئی اچھی خبر لایا ہے
قاصدِ اہلِ وطن آیا ہے
شاید اُس کے پاس کوئی اچھی خبر ہو جو ہمیں
غم کے بے نام الاؤ سے رہائی دے دے
نطق خاموش کو پھر نغمہ سرائی دے دے
ہم نے روتی ہوئی آنکھوں سے اٹھائیں پلکیں
اور امید بھرے دل سے کہا
اے گئی رات کے مہمان، بتا کون ہے تُو؟
اُس نے کہا
میں مسرت ہوں مرے ساتھ ہیں روشن نغمے
انبساط اور خوشی
کھلتے پھولوں کی مہک، پھوٹتی کلیوں کی ہنسی
اپنے دروازے سے آنکھوں کی گزرگاہوں تک
ہم نے مہمان کو رستہ نہ دیا، عطر کو پھینک دیا
اور کھولے ہوئے دروازے کے پٹ بھیڑ دیئے
پھر وہی ہم تھے وہی ارضِ فلسطین تھی وہی درد کا جال
وہی سرگوشیاں کانوں میں، وہی شامِ ملال
شوق کے کربِ مسلسل میں گرفتار خیال
اُسی خاموش خرابے میں گراں گام تھے ہم
پھر صدا گونجی کسی دستک کی
اس گھڑی گھر کے در و بام پہ غم لکھا تھا
قصۂ عہدِ ستم لکھا تھا
ہم اٹھے اور کہا
کون اس خانۂ ویراں کا سکوں لوٹنے آنکلا ہے
دھند میں ڈوبی ہوئی رات کی سرحد سے اُدھر
کون بے فیض خموشی میں چلا آیا ہے؟
دکھ بھری رات کے مہماں بتا کون ہے تُو؟
اُس نے کہا
میں گل سبز کی خوشبو میں بسی خواہش ہوں
دیکھ یہ مہکا ہوا شہد مرے ہاتھ میں ہے
ہم نے دروازے کے پٹ بھیڑ دیئے اور کہا
دکھ بھری رات کے مہمان ہمیں تنگ نہ کر
ہاں پلٹ جا کہ ہمیں تجھ سے کوئی کام نہیں
جب تلک قوم کی یہ دربدری باقی ہے
خواہشیں ہم کو نہیں ہیں جائز
ہم نے دشمن کو ابھی اپنی تباہی کا بدل دینا ہے
اُس کو پیغام اجل دینا ہے
جب تلک ہاری ہوئی قوم کو ہم
اس کی لوٹی ہوئی توقیر نہیں لوٹاتے
خواہشیں ہم کو نہیں ہیں جائز
ایک دن صبح سے پھر کوئی دستک گونجی
اس قدر تیز کہ یوں لگتا تھا
جیسے مہمان کے ہاتھوں میں ہو طوفان کا ہاتھ
دشتِ غفلت میں چھناکے سے ہوئے
اور آنکھوں میں چمک سی اتری
ہم نے بے تابی سے دروازے کی طرف جا کے کہا
اے نئی صبح کے مہمان بتا کون ہے تُو؟
تیری دستک میں یہ طوفان کا عالم کیوں ہے؟
اُس نے کہا
’’میں غضب ہوں، اشتعال اور تلاطم ہے نشانی میری
میرے ہاتھوں میں ہیں شعلوں کے چھلکتے پیالے
ہم نے دروازے کے پٹ کھول دیئے
اپنے مہمان کے قدموں میں جھکے
اور آنکھوں سے اٹھا کر اس کو دل کی محبوب تہوں میں رکھا
اور پھر غیظ میں اٹھ کر چیخے
’’اے نئی صبح کے مہمان، ہمیں تیری قسم
تُو اگر آگ ہے ہم لوگ ہیں ایندھن تیرا
اے غضب جوش میں آ
رات کا عہد ستارے کی طرح ٹوٹ کے گمنام ہوا
سالہاسال کی رسوائی بھری خاموشی اور برداشت کا غم ختم ہوا
اے چمکتی ہوئی پیشانی کے مالک مہمان
دیکھ ان ریت کے ٹیلوں میں بھٹکتی ہوئی اس قوم کا دل
آگ کا زخم ہوا
ہو وہ یافا کہ جنین
اپنی چھوڑی ہوئی مٹی کا ہر اک ذرۂ پاک
دستِ دشمن سے ہمیں لینا ہے
انتقام اور غضب کے شعلے اور بھڑک
ہم عرب لوگ ہیں انگار ترے
ہم ترے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے تیرے
اور بھڑک!
انتقام اور غضب کے شعلے اور بھڑک!
اور بھڑک – اور بھڑک-