علامہ مشرقی کا 1953ء میں پاکستان کے دریاؤں کے رخ بدلنے کا فکر انگیز انتباہ!

پیشکش: ابوسعدی
یاد رکھو! کشمیر آزاد نہ ہوا تو پانی کے قطرے قطرے کو ترس جائو گے!
کروڑوں انسان پانی کے ایک ایک گھونٹ اور روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہوں گے!
کشمیر کے پہاڑوں میں بڑی خاموشی سے پانچ دریاؤں کے رخ بدلے جا رہے ہیں اور مغربی پاکستان کو سیراب کرنے والے ان دریائوں کا پانی جے پور، جودھ پور اورجیسلمیر جیسے صدیوں کے بنجر علاقوں کو آباد کرنے پر منتقل کیا جارہا ہے، میں نے اس سلسلے میں تعمیر ہونے والے ہیڈ ورکس کی پوری تفصیل منظر عام پر رکھ دی۔ میرا خیال تھا کہ یہ انکشاف پاکستان کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردے گا، میں یہ چیخ چیخ کر تھک گیا کہ آنکھیں کھولو اور پاکستان کو موت سے بچا لو، لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، الٹا میرے صورِ اسرافیل سے تنگ آکر مجھے میانوالی جیل خانے میں پہنچا دیا گیا۔ اگر مجھے جیل بھیجنے سے پاکستان کی جان بچ سکتی ہے، اگر میری نظربندی سے بھارت کے منصوبے مٹی میں ملائے جا سکتے ہیں، اگر میری قید سے یہ بھارتی سازش ناکام ہوسکتی ہے تو یہ ڈیڑھ سال کیا میں عمر بھر جیل کی کوٹھڑی قبول کرنے کو خوشی سے تیار ہوں، لیکن حکومت کا یہ ردعمل تو صاف گواہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنی میٹھی نیند میں خلل گوارا کرنے کو تیار نہیں، اور اس کی آنکھ اُس دن کھلے گی جب سارا مغربی پاکستان ویران ہوچکا ہوگا۔ کروڑوں انسان پانی کے ایک ایک گھونٹ اور روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہوں گے۔
لیکن یاد رکھو کہ اس دن جاگ اٹھنے سے اس قیامت کا ٹلنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے ابھی وقت ہے آنکھیں کھولو، دماغی عیاشی کے کھیل کو کچھ مدت کے لیے بھول جاؤ اور اس موت سے بچنے کا چارہ کرو جو دریائوں کے رخ بدلنے سے پورے ملک میں جھومتی ہوئی بہاروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ تم پانی کے ایک ایک قطرے کو ترس جاؤ گے، تمہارے لہلہاتے ہوئے کھیت بنجر زمینوں میں تبدیل ہوجائیں گے اور اُس وقت تمہاری یہ علمی اور سیاسی بحثیں کچھ کام نہ دیں گی۔
(علامہ عنایت اللہ خان المشرقی)
خطاب جیکب آباد… 4 مارچ 1953ء

راجستھان میں عید کی سویّوں کی گھریلو صنعت

عیدالفطر کا تصور سویوں کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ انڈیا کی ریاست راجستھان میں منصوری خاندان کا ہر فرد سویاں بناکر اپنی عید کی خوشیاں دوبالا کرتا ہے۔ شہر جے پور کے ایک منصوری خاندان کے بچے اور خواتین عیدالفطر کی آمد آمد پر اپنے گھر کے احاطے میں سویّاں تیار کرتے ہیں جنھیں وہ مقامی رام گنج بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ سویّوں کو سُکھانے کے لیے انھیں ہاتھوں سے باری باری رسیوں پر لٹکایا جاتا ہے۔ ہر رسّی کے درمیان اتنا فاصلہ ہونا چاہیے کہ ہوا گزر سکے اور یہ جلد خشک ہوجائیں۔ سویاں بنانے میں گھر کی خواتین کے علاوہ بچے بھی شامل ہوتے ہیں، گھر کے چھوٹے بڑے سبھی سویاں بنانے کے عمل میں صفائی کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جب سویاں خشک ہوکر تیار ہوجاتی ہیں تو گھر کے مرد انھیں جے پور کے مقامی بازار رام گنج میں فروخت کرنے کے لیے لے جاتے ہیں۔ بڑی عمر کی خواتین سویوں کی کوالٹی کے بارے میں ایک ایک قطار پر نظر رکھتی ہیں۔ منصوری خاندان کی عید کی خوشیاں سویوں کی اچھی قیمت پر فروخت سے دوبالا ہوجاتی ہیں۔

عامل کی شکایت

ایک دفعہ خراسان کا ایک وفد امیر خراسان کی شکایت لے کر مامون الرشید (833-813ء) کی خدمت میں پہنچا۔ مامون کہنے لگا: وہ امیر تو بڑا فیاض، عادل اور رحم دل ہے، نہ جانے آپ کو کیسے شکایت پیدا ہوئی؟ ایک بوڑھا بول اٹھا: اے امیر المومنین! اگر وہ عادل ہے تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ آپ عادل نہیں۔ مامون نے حیرت سے پوچھا: وہ کیسے؟ کہا: کیا یہ ظلم نہیں کہ ایسے امیر کے فیض، عدل اور رحم دلی سے سلطنت کے باقی صوبوں کو محروم رکھا جائے۔ یہ سن کر مامون دیر تک ہنستا رہا اور اس امیر کو بدل دیا۔
٭ ٭ ٭

اپنی خوشیاں بھول جا سب کا درد خرید
سیفیؔ تب جا کر کہیں تیری ہو گی عید
سیفی سرونجی
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
ظفر اقبال

 

ہر شخص کو خوش کرنا؟

ایک کسان اپنے گدھے کو بیچنے جارہا تھا، ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا۔ گائوں سے نکلا ہی تھا کہ کسی نے کہا: تم لوگ بڑے بے وقوف ہو کہ گدھے سے کام نہیں لیتے، اس پر بچے ہی کو سوار کرلو۔ یہ سن کر کسان نے بچے کو سوار کردیا۔ ذرا آگے گئے تو ایک اور آواز آئی: حیرت ہے کہ جوان لڑکا تو سوار ہے اور بڑھا پیدل جارہا ہے، اس لڑکے کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ اس پر لڑکا نیچے اتر آیا اور باپ کو سوار کردیا۔ کچھ دیر کے بعد پاس کے کھیت سے ایک آدمی نے آوازی دی : یہ بوڑھا کس قدر بے رحم ہے کہ خود تو سوار ہے اور چھوٹے سے لڑکے کو پیدل چلارہ اہے۔ یہ سن کر باپ نے بیٹے کو بھی اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ ذرا اور آگے گئے تو کسی نے کہا: یہ گدھا چوری کا معلوم ہوتا ہے ورنہ یہ دونوں اس پر اکھٹے سوار نہ ہوتے۔ اس پر دونوں اتر پڑے اور پوچھنے لگے کہ ہم اس گناہ کی تلافی کیسے کریں۔ کسی نے کہا کہ اگر اس مظلوم گدھے کی دعا لینا چاہتے ہو تو تھوڑی سی دیر کے لیے اسے کندھوں پر اٹھا لو۔ کسان کو یہ بات پسند آگئی۔ اس نے گدھے کو لٹا کر چاروں ٹانگوں کو رسی سے باندھا اور درمیان میں بانس ڈال کر دونوں نے اٹھا لیا۔ آگے ایک پل آگیا، اسے عبور کررہے تھے کہ گدھا تکلیف سے تڑپنے لگا۔ یہ دونوں اسے سنبھال نہ سکے اور وہ دریا میں گر کر ڈوب گیا۔

ایک لطیفہ

ایک چور ایک کھیت میں جا گھسا۔ گاجروں، مولیوں اور دیگر سبزیوں سے بوری بھر چکا تھا کہ اوپر سے مالی آگیا۔
مالی: تم کون ہو؟
چور: میں ایک مسافر ہوں۔
مالی: یہاں کھیت میں کیوں آئے؟
چور: میں باہر سڑک ر جارہا تھا کہ ایک خوفناک بگولہ اٹھا اور اس نے مجھے اٹھا کر یہاں پھینک دیا۔
مالی: اور یہ سبزی کس نے توڑی؟
چور: وہ یوں ہوا کہ بگولہ کچھ دیر تک مجھے زمین کے قریب گھماتا رہا، میں نے ان پودوں کا سہارا لیا اور یہ اکھڑ گئے۔
مالی: بہت خوب اور یہ پودے ان بوریوں میں کیسے پہنچ گئے؟
چور: یہی بات میں سوچ رہا تھا کہ آپ آگئے۔