“را” کا سابق سربراہ “عامل” ، آئی ایس آئی کا سابق سربراہ “معمول”
ایم آئی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی اور ’را‘ کے سابق چیف امرجیت سنگ دولت کی تصنیف Spy Chronicles کے جو اقتباسات پاکستان کے اخبارات میں شائع ہوئے تھے انہیں پڑھ کر خیال آیا کہ ’را‘ کے سابق سربراہ نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو استعمال کرکے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ لیکن 33 ابواب اور پی ڈی ایف فائل پر موجود 255 صفحات کی کتاب کو سطر بہ سطر پڑھ کر ختم کیا تو خیال آیا کہ مذکورہ تبصرہ پوری حقیقت کا احاطہ نہیں کرتا۔ پوری حقیقت یہ ہے کہ کتاب کے ہر صفحے پر را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دولت ’’عامل‘‘ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ’’معمول‘‘ نظر آتے ہیں۔ کتاب میں موجود را کے سابق سربراہ کے اپنے بیان کے مطابق Spy Chronicles لکھنے کا خیال انہی کا تھا۔ مگر انہیں یہ خیال کیوں آیا؟ اس سوال کا بلاواسطہ جواب بھی کتاب کے صفحات پر موجود ہے۔ اس جواب کے مطابق ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت پاکستان اور بھارت کے ماہرین کے جو خفیہ مذاکرات ہوتے رہے ہیں اُن میں جنرل درانی اور امرجیت سنگھ دولت کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ملاقاتوں سے را کے سابق سربراہ کو ’’اندازہ‘‘ ہوا کہ جنرل درانی گفتگو کی اچھی خاصی مشین ہیں اور وہ گفتگو کرتے ہوئے احتیاط کے بھی قائل نہیں۔ چنانچہ انہوں نے جنرل درانی پر ایک ایسی کتاب لکھنے کے لیے جال ڈالا جس کے ہر صفحے سے پاکستان کو کوئی نہ کوئی نقصان اور بھارت کو کوئی نہ کوئی فائدہ ہو۔ کہنے کو امرجیت سنگھ دولت بھی ایک پیشہ ور جاسوس ہیں اور جنرل درانی بھی، مگر امرجیت نے ہر جگہ بھارت کی تعریف کی ہے، را کی تعریف کی ہے، را کے سربراہوں اور کارکنوں کی تعریف کی ہے، بھارتی سفارت کاروں کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے نریندر مودی اور اجیت دوال جیسے شیطانوں پر تعریفوں کے پھول برسائے ہیں۔ انہوں نے جگہ جگہ مودی کو ’’مودی جی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ اس کے برعکس جنرل درانی کے تبصرے، تجزیے اور آرا ملاحظہ کرکے خیال آتا ہے کہ اس شخص کا نہ کوئی مذہب ہے نہ تہذیب، اس کی تربیت میں نہ کسی تاریخ کا کوئی کردار ہے، نہ اسے اپنے ملک سے محبت ہے۔ اس کے لیے پاکستان محض ایک ’’دکان‘‘ ہے یا ایک ’’لمیٹڈ کمپنی‘‘۔ یہاں تک کہ انہوں نے پاک فوج اور آئی ایس آئی کی بھد اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ وہ حادثاتی طور پر ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ بن گئے۔ اسی طرح وہ حادثاتی طور پر آئی ایس آئی کی سربراہی کے منصب پر فائز ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج میں اصل چیز اہلیت، صلاحیت اور پیشہ ورانہ مہارت نہیں، بلکہ ’’اتفاقات‘‘ ہیں۔ انہوں نے آئی ایس آئی کی ناکامیوں کی بھی ایک فہرست مرتب کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئی ایس آئی 1971ء میں مشرقی پاکستان پر حملے کا اندازہ نہ کرسکی۔ آئی ایس آئی یہ بھی نہ جان سکی کہ کشمیر میں برپا ہونے والی تحریک آزادی کی نئی لہر کتنی قوی ہے اور کب تک برقرار رہے گی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ لاہور سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار The Nation میں آئی ایس آئی کے کسی افسر کا مضمون بھارتی شہری کے نام سے شائع ہوا مگر اس مضمون کی زبان پر بھارتی لب ولہجے کا کوئی اثر نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اچھا ہوا آپ میں سے کسی نے وہ مضمون نہیں پڑھا۔ پڑھتے تو آپ اس پر ہنستے اور ہم سے کہتے کہ احمقو! آئو ہم بتاتے ہیں کہ ایسا مضمون کس طرح لکھا جاتا ہے (باب۔5)۔ پاک فوج 70 سال سے تاثر دے رہی ہے کہ اس کا وجود بھارت سے متعلق ہے، مگر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے صاف کہا ہے کہ پاک فوج ’’بھارت مخالف‘‘ نہیں ہے (باب 16)۔ یہ بات درست ہے تو یہ ایک ہولناک بات ہے، اور اگر یہ ایک غلط بات ہے تو بھی یہ ایک خوفناک بات ہے۔ اگر جنرل درانی کی یہ بات درست ہے کہ فوج بھارت مخالف نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ فوج ایک ادارے کی حیثیت سے اب تک یہ کہہ کر جھوٹ بول رہی ہے کہ اس کا وجود، اس کی تربیت اور اس کا بجٹ سب کچھ بھارت سے متعلق یا India Specific ہے۔ اور اگر جنرل درانی کی بات غلط ہے تو انہوں نے فوج کے 70 سالہ امیج کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ لیکن یہ Spy Chronicles میں موجود ’’چھوٹی چھوٹی باتیں‘‘ ہیں۔ کتاب کا اصل ایجنڈا کچھ اور ہے۔ مگر کیا؟ ہمت ہے تو غور سے سنیے۔ کتاب کا اصل ایجنڈا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بالآخر ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا حصہ بنانا… اور اس منصوبے کے لیے ’’فی الحال‘‘ رائے عامہ کو ’’ہموار‘‘ کرنا۔
کتاب کے اصل مقصد کے اعتبار کتاب کا عنوان “The Spy Chronicles RAW ISI and the Illusion of Peace” کے بجائے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا ہوتا تو پاکستان میں ہر طرف ہنگامہ برپا ہوجاتا۔ اس ہنگامے سے بچنے کے لیے کتاب کو Spy Chroniclesکا نام دیا گیا، اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے تصور کے لیے کتاب کا 32 واں باب مختص کیا گیا۔ کتاب کے موجودہ نام کو دیکھا جائے تو کتاب میں اکھنڈ بھارت کے تصور کے حوالے سے کوئی باب ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاسوسوں کا دائرۂ کار جاسوسی ہے، سیاست ہے، حکومت ہے، پوشیدہ اور کھلی جنگ ہے، جاسوسی کے ادارے ہیں، علاقائی حالات ہیں، بین الاقوامی معاملات ہیں، دو طرفہ تنازعات اور ان کے سلسلے میں جاسوسوں کا کردار ہے۔ قیام پاکستان یا پاکستان کا خاتمہ اور اس کی جگہ اکھنڈ بھارت کا قیام جاسوسوں یا جاسوسی اداروں کا دردِ سر نہیں ہے۔ آپ فرض کیجیے کہ Spy Chronicles میں موجود اکھنڈ بھارت کا باب اگر کتاب کا پہلا باب بھی ہوتا تو بھی ہر طرف شور مچ جاتا۔ چونکہ ابھی صرف اکھنڈ بھارت کے تصور کو پاکستانی قوم کے ذہن میں ڈالنا اور اس حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنا ہے اس لیے اکھنڈ بھارت کے باب کو کتاب کا 32واں باب بنایا گیا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ناں، کتنی دقت نظری سے ’’کام‘‘ کیا جارہا ہے؟ لیکن اکھنڈ بھارت سے متعلق باب میں ہے کیا؟
انگریزی میں اس باب کا عنوان ہے “Akhand Bharat confederation doctrine” اس باب میں درانی اور امرجیت کی گفتگو ریکارڈ کرنے والے آدیتہ سنہا نے سوال کیا ’’جنرل صاحب کیا ہم پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں گجرال کے نظریے پر بات کرسکتے ہیں؟‘‘
اس کے جواب میں جنرل درانی نے کہا:’’گجرال ڈاکٹرائن میں بڑے معنی ہیں، اگر آپ ہر ملک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں بنا سکتے تو چھوٹے ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے سے آغاز کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں نچلی سطحوں، ذیلی سطحوں پر تعلقات کو بہتر بنانے کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے، مثلاً پاکستانی اور بھارتی پنجاب کی سطحوں پر، پاکستانی اور بھارتی کشمیر کی سطح پر۔ اس کا مطلب دونوں پنجابوں اور دونوں کشمیروں کو خودمختاری دینا ہے۔ یہ علاقے آپس میں کرکٹ، ہاکی اور والی بال کھیلیں۔ آپ کے یعنی ہندوستانی پنجاب کے مہاراجا امریندر سنگھ اور ہمارے پنجاب کے شہباز شریف ایک وقت میں یہ کام کررہے تھے۔ سندھ کے اِس طرف اور اُس طرف بھی یہی کام ہوسکتا ہے۔‘‘ (دی اسپائی کرونیکلز، باب 33)
اس کے بعد سوال کیا گیا: ’’جنرل صاحب اکھنڈ بھارت کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں۔‘‘
اس پر را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ نے جو کچھ کہا ملاحظہ کیجیے:
’’اکھنڈ بھارت کا تصور پاگل پن اور ناقابلِ عمل ہے۔ یہ تصور انتہائی دائیں بازو کے لوگوں نے پیش کیا۔ ایک مرحلے پر لعل کرشن ایڈوانی نے اسے گلے لگایا، مگر واجپائی نے فروری 1999ء میں مینارِ پاکستان پر جاکر اس تصور کو غیر مؤثر کردیا، مگر اب دائیں بازو کا ایک Gang پھر اس تصور کو لے کر اٹھا ہے۔ مودی جی اور ان کے مشیر امت شاہ کو اس سلسلے میں مورد الزام نہیں ٹھیرانا چاہیے، کیونکہ قوم پرستی ایک بین الاقوامی Phenomenon بن کر ابھر رہی ہے۔‘‘ (اسپائی کرونیکلز۔ باب 32)
اس کے بعد ایم آئی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے کیا کہا، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’اکھنڈ بھارت تخیل کا کھیل یا Fantasy نہیں ہے۔ ایم اے جناح کا ناقابل سمجھوتا مقصد یا اصول پاکستان نہیں تھا بلکہ انہوں نے پاکستان کا خیال اس لیے پیش کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لیے بہترین Deal حاصل کرسکیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری کا حصول ہی بہترین فارمولا ہے، یہی بات امریکہ کے دانش ور اسٹیفن کوہن نے کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھارت کی تقسیم ناگزیر نہیں تھی۔ بعض لوگ تقسیم کو ایک غلطی کہتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ اس تقسیم سے مسلمانوں کو کیا حاصل ہوا؟ تقسیم بلکہ ہمہ جہتی تقسیم سے بنگلہ دیش اور کشمیر کے مسائل پیدا ہوئے۔ میں اب بھی اس بات پر خوش ہوتا ہوں کہ بھارت کی تقسیم کی ذمے دار کانگریس تھی۔‘‘ (اسپائی کرونیکلز۔ باب 32)
آپ نے دیکھا اس کو کہتے ہیں ’’عامل‘‘ اور ’’معمول‘‘ کا تعلق۔ عامل یعنی را کا سابق سربراہ کہہ رہا ہے کہ اکھنڈ بھارت ایک پاگل پن اور ناقابلِ عمل تصور ہے، مگر ایم آئی اور آئی ایس آئی کا سابق سربراہ جنرل درانی کہہ رہا ہے کہ اکھنڈ بھارت Fantacy نہیں ہے۔ اس کو کہتے ہیں ’’مدعی سست، گواہ چست‘‘۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ جنرل درانی نے قائداعظم کو قائداعظم کے بجائے ایم اے جناح کہا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ پاکستان تھوڑی چاہتے تھے، وہ تو مسلم اکثریتی علاقوں میں صرف زیادہ سے زیادہ خودمختاری چاہتے تھے۔
یہ مذہب اور مسلمانوں کی تہذیب و تاریخ سے غداری بھی ہے اور تہذیبی و تاریخی بے حیائی بھی۔ یہ جہالت بھی ہے اور ڈھٹائی بھی۔ جنرل درانی کو اگر اتنا بڑا دعویٰ کرنا تھا تو قائداعظم کی کسی تقریر، کسی بیان یا انٹرویو کو مثال کے طور پر پیش کرتے۔ تحریک پاکستان کے کسی رہنما کا قول سامنے لاتے۔ انہیں یاد بھی آیا تو ایک امریکی اسٹیفن کوہن، جس کو برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ مذکورہ اقتباسات سے ظاہر ہے کہ ’’گریٹر پنجاب‘‘ کا منصوبہ بھی ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا حصہ ہے، اور وہ کوئی افسانہ و افسوں نہیں، بلکہ میاں نوازشریف کے برادرِ خورد میاں شہبازشریف بھارتی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کے ساتھ مل کر گریٹر پنجاب کے ’’ابتدائی خدوخال‘‘ تخلیق کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو گریٹر پنجاب اور اکھنڈ بھارت دو، چار، دس لوگوں کا ’’کھیل‘‘ نہیں، بلکہ اس کی پشت پر ہزاروں لوگ اور بڑی قوتیں موجود ہیں۔ اس منصوبے کی پشت پر وہ ذہنیت متحرک ہے جس کے لیے اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور دو قومی نظریے جیسے تصورات بے معنی اور نسلی اور لسانی تشخص اصل چیز ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو جنرل درانی وہ سب کچھ نہ کہتے جو انہوں نے کہا۔ انہوں نے ایک ہی ہلّے میں قائداعظم کو ’’ایم اے جناح‘‘ اور پاکستان کو تاریخ کا Unwanted Child بناکر کھڑا کردیا اور صاف کہا کہ تقسیم کی ذمے دار کانگریس ہے، قائداعظم نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ کانگریس نے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت دینے سے انکار کیا، مگر تاریخی حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان پر ہندو کیا انگریز بھی آمادہ نہ تھے۔ یہ دو قومی نظریہ، قائداعظم کی قیادت اور مسلم اقلیتی صوبوں کی لازوال جدوجہد تھی جس نے پاکستان کو خواب سے حقیقت میں ڈھالا۔ لیکن جنرل درانی کے حوالے سے اکھنڈ بھارت کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت صاحب ویسے تو فرما رہے تھے کہ اکھنڈ بھارت کا تصور Fantacy ہے، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ’’معمول‘‘ نے اکھنڈ بھارت پر بھنگڑا ڈال دیا ہے تو انہوں نے فرمایا:
’’میرا اکھنڈ بھارت کا تصور مختلف ہے۔ میں جنرل درانی کی حمایت کرتے ہوئے کہوں گا کہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کے درمیان اتحاد یا فیڈریشن۔ ذرا تصور تو کیجیے مہاراجا امریندر سنگھ لاہور میں بیٹھ کر پورے پنجاب پر حکومت کررہے ہیں۔ ایک فوجی کی حیثیت سے امریندر سنگھ کا ملال یہ تھا کہ 1965ء میں بھارت نے لاہور پر قبضہ کیوں نہ کیا۔ آج وہ ’’دوسرے جذبات‘‘ اور ’’دوسرے احساساتی اسباب‘‘ کی وجہ سے لاہور کو زیرنگیں لانا چاہیں گے۔‘‘ (اسپائی کرونیکلز۔ باب 32)
ایک مرحلے پر جنرل درانی نے سوال کیا کہ ویسے بھارتیوں کا اکھنڈ بھارت ہے کیا؟ اس کے جواب میں اُن کی گفتگو ریکارڈ کرنے والے نے کہا:
’’اکھنڈ بھارت کا مطلب ہے بھارت سے فارس اور فارس سے انڈونیشیا تک کی سرزمین۔‘‘
’’را چیف: یہ تو نئی ہندوستانی خلافت ہوئی؟‘‘ (باب 32)
اکھنڈ بھارت کے مسئلے پر نظریاتی، تہذیبی اور تاریخی قے کرتے کرتے اچانک جنرل درانی کو خیال آیا کہ ’’بک بک‘‘ کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے، چنانچہ انہوں نے فرمایا:
’’فی الحال سرحدوں کی تحلیل اور متحدہ ہندوستان کا قیام ممکن نہیں۔ پاکستانی اپنی آزادی کو “Enjoy” کررہے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں وہ “Dependent” تو نہیں ہوں گے مگر آزاد بھی نہیں ہوں گے۔ بہرحال ہمیں ایسی صورتِ حال پیدا کرنی ہوگی جس میں اُن لوگوں کے مسئلے کا کوئی حل نکلے جو کہتے ہیں ’’یہ بھارت ماتا‘‘ کو کیا ہوگیا۔ ابھی خطے میں یورپی یونین کی طرح کا اتحاد نہیں ہوسکتا، مگر تاریخ کے کسی مرحلے پر ہمیں مشترکہ کرنسی، مشترکہ قوانین، جنوبی ایشیا کی یونین یا جنوبی ایشیائی کنفیڈریشن کے بارے میں سوچنا ہوگا۔‘‘ (باب 32)
ایم آئی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کو ’’بھارت ماتا‘‘ کی ’’تقسیم‘‘ کا جو دکھ ہے، صرف مذکورہ اقتباس ہی سے اس کا اظہار نہیں ہورہا۔ ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ کے آغاز میں اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے ایک فقرے کا ترجمہ بھی اس کا اظہار ہے۔ منٹو کے فقرے کا ترجمہ خود بتارہا ہے کہ کتاب میں کیا ہے اور اسے کیوں لکھا گیا ہے؟ منٹو کے فقرے کا ترجمہ ہے:
“Pointing to the horizon where the Sea and Sky are joined, he says, it is only an illusion becouse they really meet, but isn’t beautiful, this union which ins’t really there.
کتاب کے مرتب اور جنرل درانی اس طویل فقرے کے نیچے ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ اور ’’اکھنڈ بھارت زندہ باد‘‘ بھی لکھ دیتے تو اس فقرے کو لکھنے کی ’’اصل نیت‘‘ پوری طرح آشکار ہوجاتی۔ مگر اسد درانی کسی ’’مجبوری‘‘ کے سبب ایسا نہیں کرسکے ہوں گے۔
اسپائی کرونیکلز میں بھارت ماتا کی جے کی گنگا اور اکھنڈ بھارت زندہ باد کی جمنا کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، مثلاً اسد درانی نے اسامہ بن لادن کی شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ’’اسامہ کی پاکستان میں موجودگی کا ہمیں علم تھا اور ہم نے امریکہ سے کہا کہ اسے لے جائو، اور امریکی باہمی طور پر طے شدہ طریقۂ کار کے تحت آئے اور اسے لے گئے، اور ہم اس طرح بن گئے جیسے ہمیں کچھ پتا ہی نہ تھا‘‘ (اسپائی کرونیکلز۔ باب 4)۔ اتفاق سے آئی ایس آئی کے سربراہ نے 2018ء میں اسامہ کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہی بات ہم دوسرے الفاظ میں 5 مئی 2011ء کو ’’راہ ٹی وی‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں۔ اس گفتگو کا ایک حصہ یہ تھا:
’’اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں عملاً موجود تھے اور یہ بات اسٹیبلشمنٹ کے کچھ لوگوں کے علم میں تھی، اور ان کی موجودگی کو یہ سمجھتے ہوئے قبول کیا ہوا تھا کہ اسامہ تاریخ کے کسی مرحلے پر ان کے لیے Bargaining Chip کا کردار ادا کرسکتے ہیں، اس لیے کہ ہماری جو اسٹیبلشمنٹ ہے اس کے لیے ہر، ہر چیز استعمال کرنے کے لائق ہے خواہ وہ اسلام ہو، خواہ وہ کوئی نظریہ ہو، دو قومی نظریہ ہو، خواہ پاکستانیت ہو، خواہ جہاد ہو، خواہ جہادی عناصر ہوں… ان کے لیے ہر چیز قابلِ استعمال ہے۔ ایک شے جسے وہ استعمال کرتے ہیں اور پھینک دیتے ہیں۔‘‘
ہماری یہ گفتگو راہ ٹی وی کے حوالے سے یوٹیوب پر موجود ہے۔ فرق یہ ہے کہ جنرل درانی ایم آئی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کی حیثیت سے انتہائی ’’باخبر‘‘ شخص ہیں اور انہوں نے اسامہ کے بارے میں جو کچھ کہا ’’معلومات‘‘ کی بنیاد پر کہا۔ اس کے برعکس ہم نے جو کچھ کہا تجزیے اور اسٹیبلشمنٹ کی روح، مزاج اور تاریخ کے فہم کے اعتبار سے کہا۔ مگر اسپائی کرونیکلز کے حوالے سے صرف جنرل درانی ہی ہمارے کام نہیں آئے۔ را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت نے بھی ہماری بڑی مدد فرمائی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف نے امریکی صدر بش کے اتنے جوتے چاٹے کہ مغربی پریس مشرف کو ’’بشرف‘‘ کہہ کر پکارنے لگا۔ مگر مسئلہ یہ ہوا کہ ’’کارگل کا ہیرو‘‘ بھارت سے بھی مذاکرات کی بھیک مانگنے لگا۔ جنرل پرویزمشرف کو بھارت کی ہر چیز اچھی لگنے لگی، بسنت بھی۔ ان کی بھارت پرستی کے حوالے سے ہم نے اپنے ایک کالم میں انہیں ’’بشرف سنگھ بسنتی‘‘ کا نام دیا۔ اب را کے سابق سربراہ نے اسپائی کرونیکلز میں انکشاف کیا ہے کہ جنرل پرویزمشرف واقعتا ’’بشرف سنگھ بسنتی‘‘ بن چکے تھے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ را کے سابق سربراہ کے بقول را کو اطلاع ملی کہ ایک جہادی تنظیم کے لوگ پرویزمشرف پر حملہ کرنے والے ہیں۔ را نے یہ اطلاع آئی ایس آئی کو دے کر جنرل پرویزمشرف کی جان بچائی (اسپائی کرونیکلز۔ باب 7)۔ را کے سابق سربراہ نے بھارت کے ایک ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پرویزمشرف کے متعلق خبر دینے پر اُس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان نے را کے سربراہ کا شکریہ بھی اد اکیا۔ بھارت پاکستان کا اذلی دشمن ہے مگر اسے جنرل پرویز کی جان عزیز تھی۔ اس کا مطلب اِس کے سوا کیا ہے کہ جنرل پرویزمشرف واقعتا بشرف سنگھ بسنتی بنے ہوئے تھے۔ را کے سابق سربراہ اسپائی کرونیکلز میں ایک اور مقام پر ہمارے کام آئے۔ ہم نے فرائیڈے اسپیشل کے ایک حالیہ شمارے میں لکھا تھا کہ چین تنہا امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا، لیکن اگر چین روس کا تزویراتی یا Strategic اتحاد وجود میں آگیا تو پھر بھارت کو بھی سوچنا پڑے گا کہ وہ خطے میں کس کے ساتھ کھڑا ہو؟ را کے سابق سربراہ نے اسپائی کرونیکلز میں اس حوالے سے کیا کہا، انہی کے الفاط میں پڑھیے:
’’ہمارے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ہمارے امریکہ کے ساتھ تزویراتی یا Strategic تعلقات ہیں۔ ممکنہ طور پر امریکی سمجھتے ہیں کہ بھارت چین کی متوازی قوت یا چین کا Counter balance بن سکتا ہے۔ یہ خوش گمانی پر مبنی فکر ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں، ایک یہ کہ بھارت ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، دوسری یہ کہ بھارت کی کوئی بھی حکومت چین کو ایک حد سے زیادہ ناراض نہیں کرسکتی۔ بھارتی حکومتیں کسی کی آلۂ کار یا Proxyکا کردار ادا نہیں کرسکتیں۔‘‘ (اسپائی کرونیکلز۔ باب 28)
ہندو ذہن سازش اور عقل پرستی کا ملغوبہ ہے۔ چین، روس اتحاد حقیقت بن گیا تو بھارت واقعتا چین کا مقابلہ نہیں کرے گا، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو بھارت وہی کرے گا جو امریکہ چاہتا ہے۔ را کے سابق سربراہ نے چین کے حوالے سے بھارت کی جن ’’معذوریوں‘‘ کا ذکر کیا ہے ان کی پشت پر ایک ’’کہانی‘‘ موجود ہے۔ اس کہانی کا ذکر جنرل درانی نے بھی کیا ہے۔ ان کے بقول لندن میں مقیم روسی مصنفہ Polina Tikhonova نے جنرل درانی سے کہا کہ ’’دنیا میں ایک نئی سپر پاور کا ظہور ہونے والا ہے، یہ سپر پاور چین، روس اور پاکستان پر مشتمل ہوگی اور ایران بھی اس کا حصہ ہوگا۔‘‘ (اسپائی کرونیکلز۔ باب 29)
ظاہر ہے کہ بھارت کے پالیسی ساز بھی ایسی کہانیاں سن رہے ہیں۔ دنیا اصل میں کہاں جانے والی ہے اس کا علم روس، چین، امریکہ اور یورپ کے پاس نہیں تو کسی اور کے پاس کیا ہوگا! البتہ ایک بات واضح ہے، اور وہ یہ کہ انسانیت مکمل تباہی سے دوچار ہوچکی ہے۔ نبوت ختم نہ ہوچکی ہوتی تو اس فضا میں ایک یا ایک سے زیادہ نبیوں کے ظہور کی پیشگوئی آسان تھی، مگر اللہ کے آخری دین کی ہر چیز زندہ اور محفوظ ہے، اور یہ دین صرف مسلمانوں کے پاس ہے، چنانچہ اگر انسانیت داخلی اور خارجی تبدیلی کے عمل سے گزرے گی تو صرف اسلام کے ذریعے… اور دنیا داخلی اور خارجی سکون سے ہم کنار ہوگی تو صرف اسلام کے وسیلے سے۔ یہ کام کیسے ہوگا یہ کہنا دشوار ہے، مگر ہوگا یہی… آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ چنانچہ ممکن ہے کہ ہمارا خطہ اکھنڈ بھارت کے بجائے ’’اکھنڈ پاکستان‘‘ کی جانب جارہا ہو، اکھنڈ امتِ مسلمہ کی طرف جارہا ہو۔ یہ باتیں کون جان سکتا ہے؟ کیا کوئی شخص 1940ء کیا، 1946ء میں بھی کامل یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا تھا کہ پاکستان کے نام سے دنیا میں سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں آنے والی ہے؟
آئی ایس آئی اور را کے سربراہ ایک کتاب لکھنے کے لیے لمبی لمبی ملاقاتیں کریں، کبھی بینکاک میں ملیں، کبھی ترکی میں مقیم ہوں تو کسی کو بھی خیال آسکتا ہے کہ آئی ایس آئی کا سربراہ گفتگو کرتے کرتے اچانک کہے گا ’’امرجیت سنگھ صاحب معذرت، میری نماز کا وقت ہوگیا ہے، بس دس منٹ میں حاضر ہوا‘‘۔ امرجیت سنگھ یہ سنے گا اور کہے گا ’’جنرل صاحب ایک آدھ نماز تو چھوڑ دو، کیا پانچوں کی پانچوں ہی پڑھو گے؟‘‘ مگر اسپائی کرونیکلز میں جنرل درانی پانچ نمازیں تو پڑھتے ہوئے نظر نہیں آتے البتہ کتاب میں پانچ مختلف مقامات پر شراب پیتے ہوئے ضرور نظر آتے ہیں۔ کتاب میں جنرل درانی کی مذہبیت کی اس سے بھی بڑی مثال موجود ہے۔ قصہ یہ ہوا کہ 2015ء میں جنرل درانی کا بیٹا عثمان اپنی کمپنی کے کام سے بھارت کے شہر کوچی گیا۔ عثمان جرمنی میں مقیم تھا مگر پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کررہا تھا۔ کوچی میں کام مکمل کرکے اس نے سوچا کہ وہ جرمنی واپس جانے کے لیے کوچی کے بجائے ممبئی سے طیارے پر سوار ہوجائے۔ چنانچہ وہ لاعلمی میں ممبئی جا پہنچا اور پھنس گیا۔ اسے بتایا گیا کہ تمہارے پاس ممبئی کا ویزا ہی نہیں ہے تو تم یہاں کیسے پائے جا رہے ہو۔ اس صورتِ حال میں عثمان نے جنرل درانی سے رابطہ کیا، اور جنرل درانی نے پریشان ہوکر را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت سے رابطہ کیا۔ انہوں نے جنرل صاحب کو مطمئن رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس موقع پر را کے سابق سربراہ کا اہم ترین فقرہ یہ تھا:
’’آپ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مجھے واہے گرو پر کامل بھروسا ہے، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
بالآخر سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ عثمان ممبئی سے جرمنی روانہ ہوگیا۔ جنرل درانی نے شکریے کے لیے را کے سابق سربراہ کو فون کیا اور فرمایا “Your faith in waheguru helped Osman”
یعنی ’’واہے گرو پر تمہارے بھروسے نے عثمان کی مدد کی‘‘۔ مطلب یہ کہ اللہ پہ جنرل درانی کا ایمان تو کام نہ آیا البتہ واہے گرو پر دولت صاحب کا بھروسا مددگار ثابت ہوا۔ (اسپائی کرونیکلز۔ باب3)
پوری کتاب میں جنرل درانی کہیں بھی جذبے کے حامل نظر نہیں آئے۔ انہیں نہ پاکستان سے محبت ہے، نہ اسلام سے۔ یہاں تک کہ انہیں پاک فوج، ایم آئی یا آئی ایس آئی سے بھی محبت نہیں۔ ہوتی تو وہ کہیں نہ کہیں محبت، تعلق، بے تابی کی صورت میں ظاہر ہوتی۔ لیکن آپ اس سے یہ نہ سمجھیں کہ جنرل صاحب کوئی روبوٹ ہیں۔ وہ اسلام، پاکستان، دو قومی نظریے، فوج یا آئی ایس آئی کے لیے روبوٹ ہوں گے مگر اپنے بیٹے کے لیے وہ کتاب میں ’’انسان‘‘ ہی ثابت ہوئے۔ ان کا بیٹا ممبئی میں پھنسا تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ دشمن ملک کی دشمن ایجنسی کے سربراہ سے مدد مانگی، بلکہ را کے سابق سربراہ کے بقول انہوں نے ایک دن میں سات بار فون کرکے پوچھا کہ عثمان محفوظ تو ہے؟ اسے کچھ ہو تو نہیں جائے گا؟ وہ ممبئی میں رہے یا کوچی لوٹ جائے؟ (اسپائی کرونیکلز۔ باب 3) کاش اس کا دو فیصد جذبہ اسلام، دو قومی نظریے، پاکستان، فوج یا آئی ایس آئی کے لیے بھی ظاہر ہوتا۔
اسپائی کرونیکلز میں تین جگہ جماعت اسلامی کا ’’ذکرِ خیر‘‘ ہوا ہے اور تیوں جگہ را کے سابق سربراہ نے تبصرہ کیا ہے۔ کتاب کے 23 ویں باب میں را کے سابق سربراہ نے کہا ’’بھارت کا مسلمان ٹھنڈے مزاج کا مسلمان ہے، وہ عقل پسند ہے، اعتدال پسند ہے، فضول چیزوں میں ملوث ہونا اسے پسند نہیں۔ تاہم اس کے باوجود بھارت میں Radicalism بڑھ رہا ہے، شاید ہماری طاقت استعمال کرنے کی پالیسی اس کا سبب ہے۔ یقینی طور پر جماعت اسلامی فروغ پا رہی ہے۔‘‘
یہ جماعت اسلامی ہند کا ذکر ہے، اور اس کا ذکر جس ’’تناظر‘‘ میں ہوا ہے اس کا مفہوم عیاں ہے۔ کتاب کے 10 ویں باب میں جماعت اسلامی پاکستان کا ذکر ہے۔ را کے سابق سربراہ نے جنرل درانی سے مخاطب ہوکر کہا:
’’جب (مقبوضہ کشمیر میں) تحریک آزادی شروع ہوئی اور آپ کے ہاتھ سے نکلنے لگی تو آپ نے فوراً جماعت اسلامی کو جہاد کا حصہ بنا لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو ’’قابلِ بھروسا سپاہیوں‘‘ کی ضرورت تھی۔‘‘
کتاب کے تعارف یا Introduction میں را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت نے جماعت اسلامی کے حوالے سے کیا لکھا، انہی کی زبانی سنیے:
’’حال ہی میں لشکر طیبہ میں گھسے ہوئے ہمارے ایک ’’اصلاح یافتہ‘‘ عسکریت پسند نے مجھے بتایا کہ وادی میں Radicalism کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ جنوب میں نوجوان شہادت کے جذبے سے کام کررہے ہیں اور ان کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ اب وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے سپاہی ہیں اور اس کے لیے لڑ رہے ہیں۔ لشکر طیبہ میں ہمارے جاسوس نے جو اب دہشت گرد سے زیادہ پروفیسر لگتا ہے، ہمیں خبردار کیا کہ پہلے جماعت اسلامی صرف سوپور، شوپیاں، کلگام اور پلوامہ میں جڑیں رکھتی تھی مگر اب وہ کشمیر میں نوجوانوں کو انقلابی یا Radical بنانے والی سب سے نمایاں قوت ہے۔ اب اس نے حکومت اور پولیس میں بھی در کھول لیے ہیں، یہاں تک کہ سری نگر کی جیل نوجوانوں کی انقلابی تربیت کا مرکز بن گئی ہے۔ لشکر طیبہ کے نوجوان کے مطابق (مقبوضہ) کشمیر میں مسلح جدوجہد ایک کامیاب صنعت بن چکی ہے۔‘‘
ایک طرف یہ صورتِ حال ہے، دوسری طرف را کے سابق سربراہ نے کتاب میں کہا ہے کہ پاکستان میں میری پسندیدہ سیاست دان بے نظیر بھٹو تھیں۔ انہوں نے نوازشریف کو بھارت کا ’’قابلِ بھروسا آدمی‘‘ قرار دیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مودی نے میاں نوازشریف کو اپنی تقریبِ حلف برداری میں بلایا۔ اسپائی کرونیکلز کا دعویٰ ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ مودی منتخب ہوئے تو میاں نوازشریف نے خود مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی خواہش ظاہر کی۔ یہ خواہش ’’مودی جی‘‘ تک پہنچائی گئی، تب انہوں نے میاں صاحب کو تقریبِ حلف برداری میں بلایا اس شرط کے ساتھ کہ دعوت دی جائے تو میاں صاحب کو آنا ہوگا۔ را کے سابق سربراہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ را نے حملے کی اطلاع دے کر جنرل پرویزمشرف کی جان بچوائی۔ جنرل درانی اسپائی کرونیکلز میں را کے سابق سربراہ کے ’’معمول‘‘ بنے ہوئے ہیں اور اکھنڈ بھارت کا وہ مقدمہ لڑ رہے ہیں جسے ابتدا میں را کا سابق سربراہ Fantacy کہہ رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے سیاسی رہنما اور جرنیل ایسے ہیں تو پھر ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ جنرل درانی نے کتاب میں جو کچھ کہا ہے اس سے ریاست پاکستان اور اس کے اداروں بالخصوص فوجی اداروں کا کیا تعلق ہے؟