متحدہ مجلس عمل کے منشور کا اعلان

۔2018ء کے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوچکا۔ مختلف نوعیت کے خدشات سامنے آنے کے بعد نگران وزیراعظم اور الیکشن کمیشن کی یقین دہانیوں اور عدالتِ عظمیٰ کے دوٹوک فیصلوں کے بعد اب یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ کوئی انہونی نہ ہوئی تو یہ انتخابات شیڈول کے مطابق 25 جولائی ہی کو ہوں گے۔ انتخابات کی ایک اہم ضرورت سیاسی جماعتوں کا منشور ہوا کرتا ہے جس میں وہ آئندہ انتخابی مدت کے لیے اپنے عزائم و ارادوں کا اظہار کرتی ہیں، اور یہی منشور دراصل ان کی کارکردگی جانچنے کا حقیقی پیمانہ ہوا کرتا ہے۔ مگر گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے ملک کی سیاست اس حد تک شخصیات کے گرد گھومنے لگی ہے کہ منشور سمیت دیگر ساری چیزیں ثانوی حیثیت اختیار کرگئی ہیں اور شخصیات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی جماعتیں منشور کی تیاری کو ایک رسمی کارروائی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتیں، اور نہ ہی انتخابات کے بعد منشور کا عمل دخل جیتنے والی سیاسی جماعت کی کارگزاری میں کہیں دیکھنے میں آتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اِس بار انتخابی عمل کا باقاعدہ آغاز ہوچکنے کے باوجود بڑی کہلانے والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے منشور کا ذکر تک سننے میں نہیں آیا۔ متحدہ مجلس عمل نے البتہ 5 جون کو وفاقی دارالحکومت میں ایک بھرپور پریس کانفرنس میں بارش کا پہلا قطرہ بنتے ہوئے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کردیا ہے۔ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے دیگر رہنمائوں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق، سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، علامہ ساجد علی نقوی، پیر اعجاز ہاشمی، شاہ اویس نورانی، علامہ عارف واحدی، مولانا عبدالغفور حیدری، اکرم خان درانی، میاں محمد اسلم اور دیگر قائدین کے ہمراہ منشور کے اہم نکات بیان کیے
مجلس عمل کے 12 نکاتی منشور میں ملک میں نظام مصطفی کے نفاذ کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا گیا ہے۔ منشور کے نمایاں نکات بیان کرتے ہوئے مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے واضح کیا کہ ملک میں نظام مصطفی کا نفاذ اور آئینِ پاکستان میں موجود اسلامی دفعات کا تحفظ ہمارے منشور کی پہلی ترجیح ہے۔ باوقار اور آزاد خارجہ پالیسی اور تمام ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کریں گے۔ تعلیم اور علاج کی سہولتیں سب کے لیے یکساں ہوں گی۔ اتفاقِ رائے سے نئے ڈیموں کی تعمیر کریں گے اور بجلی کی ترسیل کا مؤثر نظام بنایا جائے گا۔ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا مؤثر تدارک کیا جائے گا۔ سی پیک سے مقامی آبادی کے لیے روزگار مہیا کیا جائے گا۔ چھوٹی صنعتوں اور دستکاریوں کا اجراء ہوگا اور قومی صنعتوں کو بحال کیا جائے گا۔ ملکی ترقی میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کا کردار نہایت اہم ہے، ایم ایم اے اوورسیز پاکستانیوں کے بھجوائے گئے زرمبادلہ کی حفاظت کرے گی، ان کو ووٹ کا حق دیا جائے گا اور
بیرونِ ملک درپیش مسائل کے حل کی طرف خصوصی توجہ دی جائے گی۔ ایم ایم اے اقلیتوں کو مکمل تحفظ دے گی، ان کے لیے تعلیم، علاج، روزگار اور شرعی حقوق کے تحفظ کا پورا خیال رکھا جائے گا اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے احترام اور تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 38 ایف کے مطابق ملک سے سود اور سودی معیشت کا خاتمہ کرکے زکوٰۃ و عشر کا پاکیزہ معاشی نظام قائم کیا جائے گا۔ بااختیار عدلیہ اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنائیں گے اور غریب اور امیر کے لیے ایک قانون ہوگا۔
اس طرح تعلیم، روزگار کی فراہمی، غیر ضروری ٹیکسوں کا خاتمہ اور ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں کمی، نئے ڈیموں کی تعمیر، بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا مؤثر نظم، مقامی آبادی کو روزگار اور انفرااسٹرکچر کو ترجیح، چھوٹی صنعتوں کا فروغ اور کسانوں، مزدوروں کے لیے سودمند پالیسی کا اجرا، بے زمین کسانوں کو بلامعاوضہ زمین اور بلا سود زرعی قرضے، ٹیکسوں کی کم شرح پر مبنی زرعی اصلاحات، تحصیل و ضلعی سطح پر اپ گریڈیشن اور دل، گردے، جگر کے ساتھ ساتھ پانچ مہلک بیماریوں کا مفت علاج، عورتوں کا استحصال اور عدم مساوات کے رویوں کا خاتمہ، غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی، تعلیم کے بجٹ میں اضافہ، خواتین کے لیے انقلابی اقدامات کے عزائم بھی منشور کا حصہ ہیں۔
مجلس عمل نے اگرچہ اپنے منشور کے اعلان میں دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پہل کی ہے، اور یوں اسے اس میدان میں سبقت اور اوّلیت کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے، تاہم اس منشور کا جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک روایتی سا منشور ہے جس میں عوام کے مسائل کے حل کے دعوے اس طرح کیے گئے ہیں جس طرح دیگر تمام جماعتیں کرتی ہیں، جن کے منشور ابھی تک سامنے نہیں آئے، تاہم اب تک کے تجربات کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک آدھ امتیازی نکتے کے سوا سبھی جماعتوں کے منشور میں کم و بیش یہی کچھ درج ہوگا جس کا اعلان مجلس عمل کی طرف سے جاری کردہ منشور میں کیا گیا ہے۔
مجلس عمل کے منشور کا امتیاز البتہ وہ ہے جسے مجلس کی اوّلین ترجیح قرار دیا گیا ہے، اور دینی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہونے کی حیثیت سے یہی مجلس کی سب سے بڑی ذمے داری بھی ہے۔ مصورِ پاکستان علامہ اقبال نے پاکستان کا جو تصور پیش کیا اُس میں بڑا واضح پیغام یہ دیا گیا کہ ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘… مگر پاکستان کے قیام کے ستّر برس بعد آج یہاں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ سیاست میں دین کا نام لینا باقاعدہ ایک جرم قرار دے دیا جائے، حالانکہ خود بانیٔ پاکستان نے تحریکِ پاکستان اور اپنی سیاست کی بنیاد مذہب پر رکھی، اور مذہب کی بنا پر ہی دو قومی نظریہ تشکیل پایا۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے تحریک قیام پاکستان کے دوران جب پوچھا گیا کہ پاکستان نامی نئی ریاست کا دستور کن نکات پر استوار ہوگا؟ تو ان کا دوٹوک جواب تھا کہ ہمارا دستور ’’قرآن‘‘ ہوگا۔
بانیانِ پاکستان کے انہی واضح تصورات کے پیش نظر ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے عنوان سے جو دستاویز آئین کے آغاز ہی میں شامل کی گئی ہے اُس میں لگی لپٹی رکھے بغیر اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے اور صاف الفاظ میں سرِتسلیم خم کیا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین کی تمام دفعات پر عمل درآمد اور ان کی تشریح اسلام یعنی قرآن و سنت کے تابع رہ کر کی جائے گی… مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آئین میں تو یہ سب کچھ درج کردیا گیا مگر عملاً اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا رہا۔ کچھ عرصہ پہلے تک سیاسی جماعتیں علامتی طور پر ہی سہی، آئین کے اس تقاضے پر عمل درآمد کو اپنے منشور کا حصہ بناتی رہیں، مگر اب آہستہ آہستہ الفاظ کی حد تک بھی اس کا ذکر غیر ضروری قرار پا گیا ہے۔
متحدہ مجلس عمل کا منشور اس لحاظ سے خوش آئند اور قابلِ ستائش ہے کہ اس میں اسلامی نظام کے نفاذ کو اپنی اولین ترجیح ٹھیرایا گیا ہے اور قوم کو وہ بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی گئی ہے جس کی خاطر اس مملکت کا وجود عمل میں لایا گیا تھا، اور جس پر عمل درآمد کے بغیر یہ وجود بے مقصد اور لا یعنی قرار پاتا ہے۔ اسے ہماری سیاسی جماعتوں کی دین بیزاری قرار دیا جائے یا خودغرضی و مفاد پرستی یا مختلف بین الاقوامی اداروں کے دبائو کا نتیجہ کہ گزشتہ دس پندرہ برس کے دوران ہم نے سفر معکوس کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور ہمارے برسراقتدار رہنے والے حکمرانوں نے نفاذِ اسلام کی جانب مزید پیش رفت کے بجائے آئین و قانون میں پہلے سے موجود اسلامی دفعات کو بھی آئین سے مختلف حیلوں بہانوں سے خارج کیا جارہا ہے… ایسے میں متحدہ مجلس عمل کا یہ اعلان کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ اس کی ترجیحِ اوّلین ہے اور اس کے ساتھ ہی آئین میں پہلے سے موجود اسلامی دفعات کے تحفظ کا عزم بھی یقینا ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ اسی طرح اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود ملک کی معیشت پر قابض سودی معاشی اور بینکاری نظام سے نجات حاصل کرکے اس کی جگہ اسلام کا زکوٰۃ و عشر کا پاکیزہ نظام رائج کرنے کا اعلان بھی قابلِ ستائش ہے۔
جہاں تک مجلس عمل کی قیادت کا تعلق ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں کوئی سرمایہ دار، جاگیردار، صنعت کار اور مافیا قسم کی مخلوق سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد بھی شامل نہیں، یہ قیادت یقینا فرشتوں پر مشتمل نہیں، لیکن بڑی حد تک کرپشن اور بددیانتی کے الزامات سے محفوظ ہے، بلکہ مجلس عمل کے سینئر نائب صدر سینیٹر سراج الحق کو تو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُن کے بارے میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے کہ اگر آئین کی دفعات 62 اور 63 پر عمل درآمد کیا جائے تو صرف سراج الحق ہی ان پر پورا اتریں گے۔ ایم ایم اے کی قیادت کی غالب اکثریت عوام میں سے ہے، ان کا رہن سہن بھی عوامی ہے اور وہ عوام میں رہتے ہوئے عوام کے مسائل سے بھی اُن رہنمائوں سے کہیں زیادہ بہتر طور پر آگاہ ہیں جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور پدرم سلطان بود کے جواز پر پیدائشی طور پر خود کو رہنمائی کے منصب کا حق دار سمجھتے ہیں، یعنی قیادت انہیں وراثت میں منتقل ہوتی ہے۔
توقع کی جانی چاہیے کہ 25 جولائی کے عام انتخابات میں رائے دہندگان سوچ سمجھ کر اپنی رائے کا حق ذمے داری سے استعمال کریں گے اور ایسے نمائندوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجیں گے جو خود عوام میں سے ہوں، عوام کے مسائل سے آگاہ ہوں اور ان کے حل کے جذبے اور صلاحیت سے بھی بہرہ ور ہوں… جو صرف اسلام کا نام ہی نہ لیتے ہوں بلکہ اسلام پر چلنا بھی جانتے ہوں… تاکہ اس ملک کو اس کی حقیقی منزل ’’اسلامی انقلاب‘‘ سے روشناس کراکے اسلامی، فلاحی اور خوشحال پاکستان بنایا جا سکے، کہ اسی میں ہماری دنیا اور آخرت کی فلاح ہے۔