پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر ووٹر کو اندھیرے میں رکھنے کی حکمت عملی
عمومی طور پر پارلیمنٹ عوام کے مفادات کو سامنے رکھ کر اپنا کردار ادا کرتی ہے، اور اس کی نظر میں سب سے نمایاں حیثیت عوامی مفادات سے جڑی سیاست کی ہوتی ہے،کیونکہ بنیادی طور پر کوئی بھی سیاسی نظام اخلاقی اور قانونی ساکھ کی بنیاد پر ہی اپنی حیثیت کو منواتا ہے۔ سیاسی نظام میں اگر شفافیت اور جوابدہی کا تصور موجود نہ ہو تو اس طرز کا نظام نظام تو رہتا ہے مگر اس کی افادیت غیر اہم ہوجاتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور جمہوری نظام کا المیہ یہ ہے کہ اس میں سب کچھ ہے، اگر نہیں ہے تو شفافیت اور جوابدہی پر مبنی نظام نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی نظام سے جڑے ہوئے افراد یا فریقین جمہوریت کی پاسداری اور جمہوری اداروں کی بالادستی کی دہائی تو بہت دیتے ہیں، مگر اُن تمام سیاسی، قانونی اور اخلاقی جمہوری اصولوں کو خود پر لاگو کرنے سے گریز کرتے ہیں، اور ان کو جمہوری نظام میں خطرات لاحق نظر آتے ہیں، اور وہ اس نظام کی اصلاح کی کوششوں کو سازشوں سے جوڑتے ہیں، لیکن یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ کچھ غلطیاں ان سے بھی ہورہی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت سے جڑے ہوئے مسائل پر لاتعداد کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، لیکن یہاں جو مسئلہ زیر بحث ہے وہ ارکانِ پارلیمنٹ کی شرائط کا ہے۔ یعنی جو بھی فرد جماعتی یا انفرادی حیثیت میں اسمبلی کا رکن بننا چاہتا ہے اس کی شرائط کیا ہونی چاہئیں۔ یاد رہے کہ رکن پارلیمنٹ نہ صرف اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ وہ قومی سطح پر پارلیمنٹ یعنی قانون ساز اسمبلی کا رکن بھی ہوتا ہے جو قوم کی نمائندگی کا حق رکھتا ہے۔ ایسے افراد کے چنائو میں اصولی طور پر دو ہی اہم نکتے ہیں۔ اول: سیاسی جماعتیں پارٹی ٹکٹ دیتے وقت اپنے داخلی نظام میں نگرانی کا ایسا نظام وضع کریں جو شفافیت کے تمام معیارات کو برقرار رکھ سکے، تاکہ کوئی بھی ایسا فرد اسمبلی کے انتخاب میں پارٹی ٹکٹ حاصل نہ کرسکے جو کسی بھی طرز کے جرائم کا مرتکب ہو۔ دوئم: اگر سیاسی جماعتیں کمزوری دکھائیں تو الیکشن کمیشن کا جانچ پڑتال کا نظام اس قدر مضبوط ہو کہ ایسے افراد کو انتخاب لڑنے سے روکا جاسکے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ ہم نے اپنے نظام کی اصلاح نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی اور انتخابی نظام اصلاح کی طرف بڑھنے کے بجائے تسلسل کے ساتھ بگاڑ کی جانب بڑھ رہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کے داخلی نظام میں موجود کمزوریوں کے باعث یہ ادارے ادارے نہیں بن سکے، جس سے شفافیت کا عمل متاثر ہوا۔ یہ شکایت عام ہے کہ ہمارے ارکان اسمبلی اپنی اور اپنے خاندان یا بچوں سے متعلق ذاتی، سماجی، معاشی یا کاروباری معلومات چھپاکر خود کو قانون کے دائرۂ کار میں لانے سے گریز کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں پارلیمنٹ نے امیدوار کے انتخاب لڑنے کے حوالے سے انتخابی اصلاحات 2017 کے تحت فارم ترتیب دیا تھا۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک نے اس فارم کو کالعدم قرار دیا اورکہا کہ پارلیمنٹ کو اگرچہ نامزدگی فارم ترتیب دینے کا اختیار ہے، مگر آئین کی شق 62۔63 کو نامزدگی فارم سے حذف نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا آئین کی شق 62۔63 کے تقاضے پورے کرکے دوبارہ فارم کا حصہ بنایا جائے۔ اگرچہ اس عدالتی فیصلے پر بہت زیادہ شور سننے کو ملا اور ہمارے جمہوری طبقے کے بقول اس سے پارلیمنٹ کی حیثیت متاثر ہوئی ہے اور جمہوری نظام اور انتخابات کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی سمیت نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے بھی اس عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ خود سپریم کورٹ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرکے پرانے فارم کے تحت ہی الیکشن کمیشن کو پابند کیا کہ وہ انتخابات کو بروقت یقینی بنائے۔ البتہ اعلیٰ عدالت نے اس کا جائزہ لینے کے لیے باقاعدہ بینچ تشکیل دے دیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس پر قانونی پہلو سے بحث ہوگی اور پھر تفصیلی فیصلہ بھی سامنے آجائے گا۔ البتہ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ مذکورہ معلومات موجودہ فارم کے ساتھ بھی انتخاب لڑنے والوں کو دینا ہوگی اور اِس بار امیدواروں کی اسکروٹنی کا عمل زیادہ مؤثر ہوگا۔
اب ذرا ملاحظہ کیجیے کہ پارلیمنٹ نے کن بنیادی نکات کو حذف کیا ہے جو انتخاب لڑنے والے کو فارم میں درج کرنا تھے۔ ان نکات میں نامزدگی فارم میں غیر ملکی آمدن، زیر کفالت افراد کی تفصیلات، ٹیکس، یوٹیلٹی بلز نادہندگی، قرض نادہندگی، دہری شہریت، پاسپورٹ کی نوعیت، مقدمات کا ریکارڈ اور مجرمانہ سرگرمیوں کو چھپانے کا اقدام، جیسے امور شامل ہیں۔ عدالتی حکم کے بعد اب کوئی ٹیکس نادہندہ، فوجداری مقدمات میں ملوث فرد اور دہری شہریت والا فرد انتخاب میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ اب اگر ان پر معلومات نہیں دینی تو پھر انتخاب لڑنے والے کی شفافیت کو کیسے جانچا جاسکے گا! بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تمام جماعتوں پر مشتمل ارکانِ پارلیمنٹ نے ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت اپنے حق میں اس فارم کو بنیاد بنا کر ایسی ترمیم کی جس کا مقصد محض ذاتی سیاست کو تحفظ دینا تھا تاکہ ان کے اور ان کے خاندان کے مفادات کا ٹکرائو نہ ہو۔
سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس عدالتی فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بناکر اسے جمہوری نظام کے خلاف قرار دے رہے ہیں کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایسے افراد کو بھی انتخاب لڑنے کا حق دے دیا جائے جو آئین کی شق 62 اور 63 سمیت یہ بنیادی معلومات دینے سے انکار کریں؟ اگر انتخاب لڑنے والا شفاف ہے اور اس کے ایسے کوئی معاملات نہیں جو قانون کی زد میں آتے ہیں تو اس کو یہ معلومات دینے میں کیا ڈر ہے؟ یہ سوال بھی سمجھنا ہوگا کہ ہماری پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کو اس فارم میں یہ تبدیلیاں کیوں کرنی پڑیں؟ کیا عوام کو یہ حق نہیں کہ وہ قوم کے منتخب نمائندوں کی شفافیت کے معیارات اور شواہد کو جان سکیں! حالانکہ جمہوری معاشروں میں یہ حق ووٹرز کے پاس ہوتا ہے کہ وہ اپنے امیدوارو ں کو ووٹ دینے سے قبل ان کے بارے میں جانچ سکیں کہ ان کی اور ان کے خاندان کی کیا معلومات ہیں تاکہ وہ ان کو شفافیت کی بنیاد پر پرکھ سکیں۔ لیکن یہاں ووٹر کو اس کے بنیادی حق سے محروم کرکے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ہم جمہوری عمل کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ صرف ووٹ کی اہمیت ہے اور اسے انتخاب لڑنے سے نہیں روکا جاسکتا، اگر یہ منطق مان لی جائے تو پھر ہمیں اصولی طور پر تمام قانونی اداروں کو بند کردینا چاہیے اور تمام معاملات کو محض ووٹ تک محدود کردینا چاہیے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں یہ بدنیتی موجود ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو ہتھیار بناکر عوامی مفادات کے مقابلے میں ذاتی مفادات کو بالادست رکھ کر قانون بنانا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ اگر اس پر کوئی سوال اٹھائے تو اسے جمہوریت دشمن کا طعنہ سننا پڑتا ہے۔
یہ معاملہ شاید سامنے نہ آتا اور انہی مسائل کے اندر انتخاب کا عمل بھی ہوجاتا، لیکن ہمارے صحافی دوست حبیب اکرم نے اس مجوزہ فارم کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ اس کا مقصد بنیادی طور پر پارلیمنٹ میں ایسے کرپٹ، بدعنوان، جھوٹے اور معاملات کو چھپانے والے افراد کا راستہ روکنا ہے جو سیاست، جمہوریت اور قانون سمیت پارلیمنٹ کی بالادستی اور شفاف و منصفانہ سیاست میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے کئی جرائم پیشہ اور کرپٹ افراد ووٹ کو ہتھیار بناکر پارلیمنٹ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ نے بنیادی طور پر مجوزہ فارم میں جو تبدیلی کی اُس کا مقصد اسمبلی میں کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کا راستہ کھولنا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے، لیکن اس کی قانون سازی پر بالخصوص جس کا تعلق بنیادی حقوق سے ہے، نظرثانی کرنا عدلیہ کا حق ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف سینہ زوری کرکے ہم اپنی مرضی کا قانون بناکر قانون سازی کا مذاق اڑاتے ہیں، تو دوسری طرف پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو رد کرنے کا عدلیہ کا حق بھی چھیننا چاہتے ہیں۔اگر عدلیہ ایسا کرتی ہے تو اسے بھی یہاں جمہوریت دشمن ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور لوگوں کو باور کروایا جاتا ہے کہ ہماری عدلیہ اور جج بھی جمہوریت مخالف سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔
پاکستان میں جمہوری افراد یا فریقین جمہوریت پر باتیں تو بہت کرتے ہیں، لیکن جو کام جمہوریت کے نام پر پارلیمنٹ کرتی ہے اس کا احتساب کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یاد رکھیں، پارلیمنٹ عوام کی منتخب کردہ ہوتی ہے اور اس میں عوامی مفاد سے ٹکرائو پر مبنی قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔ خدارا لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر جسے بعض لوگ پارلیمنٹ سے ٹکرائو سے تشبیہ دے رہے ہیں، غور کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ سیاسی قوتیں ایک خاص مفاد کے تحت پارلیمنٹ کی بالادستی کا غلط تصور پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ پاکستان کے معروضی حالات کے تحت جو فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے دیا ہے وہ بہت حد تک ہمارے سیاسی نظام کی اصلاح میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، وگرنہ ہماری سیاست تماشا ہی رہے گی۔ کیونکہ سیاسی، عدالتی یا قانونی اصلاحات کے نتیجے میں ہی جمہوری نظام کو مضبوط بنایا جاتا ہے تاکہ جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اس جرم میں صرف مسلم لیگ(ن) ہی نہیں، بلکہ دیگر بڑی اور چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہیں۔کیونکہ جس وقت وزیراعظم نوازشریف کو نااہل کیا گیا اور ان کو پارٹی سربراہی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تو انہیں دوبارہ صدر بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات بل 2017 منظور کیا گیا۔ حکومتی جماعت نے بنیادی طور پر اپنی قیادت کے جرائم چھپانے کے لیے اس مجوزہ فارم میں تبدیلی کی اور دیگر جماعتوں نے بھی اس پر سمجھوتہ کیا۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں عدالتیں ہر کام میں مداخلت کرتی ہیں، اس کی وجہ بھی کمزور اور عوامی مفادات کے برعکس قانون سازی ہے۔
ووٹر کا یہ بنیادی حق ہے کہ جو شحض بھی عوامی نمائندگی کے لیے انتخاب لڑتا ہے اُس کے بارے میں اسے پوری معلومات ہونی چاہیے۔ لیکن ہم بنیادی نوعیت کی ان معلومات کو چھپا کر ووٹ ڈالنے والے کو بھی اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس عدالتی فیصلے سے ہٹ کر پاکستان کے سنجیدہ افراد کو جو واقعی اس ملک میں حقیقی اور شفاف جمہوریت کے حامی ہیں، اس مسئلے پر خاموش بیٹھنے کے بجائے بھرپور مزاحمت کرنی چاہیے اور دبائو ڈالنا چاہیے تاکہ ایسے لوگ جو مالیاتی کرپشن یا حقائق چھپانے کے جرم میں شامل ہیں ان کو انتخاب لڑنے سے روکا جاسکے، اسی میں جمہوریت کی مضبوطی اور شفاف حکمرانی کا راز پنہاں ہے۔