بلوچستان اسمبلی کا آخری اجلاس،انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد

۔31 مئی2018ء کو بلوچستان اسمبلی نے بدمزگی، بداخلاقی اور بدتمیزی کے ماحول میں پانچ سال پورے کرلیے۔ سچی بات یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد اسمبلی فی الواقع بے وزن، بے توقیر بلکہ پُتلی تماشا بن کر رہ گئی۔ یہی حال وزیراعلیٰ ہائوس کا رہا۔ چند لوگ صوبے کے بادشاہ گر بن گئے تھے۔ 30 مئی کے اجلاس میں غل غپاڑے کا ماحول تھا۔ پشتون خوا میپ کے رکن نصراللہ اور سرفراز بگٹی آپس میں اُلجھ پڑے۔ سرفراز بگٹی نے تو حد ہی کردی کہ مارنے پیٹنے پر اُتر آئے۔ جھگڑا سبی یونیورسٹی کے نام پر ہوا جسے ’’میر چاکر خان رند یونیورسٹی‘‘ کا نام دینے کے لیے ایوان میں مسودۂ قانون پیش کیا گیا تھا۔ پشتون خوا میپ چاہ رہی تھی کہ نام ’’سبی یونیورسٹی‘‘ ہی رہنے دیا جائے۔ بل پاس ہونے پر میر خالد لانگو، سرفراز چاکر ڈومکی اور دوسرے ارکان نے فاتحانہ انداز میں ہاتھ اٹھا لیے۔ یونیورسٹی میر چاکر رند یا سبی کے نام سے منسوب ہو، بات ایک ہی ہے۔ میر چاکر رند بلوچ تھے اور سبی بھی بلوچستان کا حصہ ہے۔ پھر سبی نام سے اتنی پرخاش کیوں؟
عبدالقدوس بزنجو کی حکومت نے لہڑی ضلع کو پھر سے سبی میں ضم کردیا، جبکہ سبی کے عوام اس انضمام کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ پشتون خوا میپ کے ارکان نے حکومت کو متعصب اور نسل پرست کے القابات سے مخاطب کیا۔ تعصب اور نسل پرستی کے طعنے کسی قوم پرست جماعت کی طرف سے اچھے نہیں لگتے۔ بلوچستان کی سبھی قوم پرست جماعتیں قومی، علاقائی اور نسلی تعصبات میں گُندھی ہوئی ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جانب سے ایک تماشا 17 مئی کے بجٹ اجلاس میں ہوا۔ جے یو آئی کی شاہدہ رؤف پینل آف چیئرمین کی رکن کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت کررہی تھیں۔ کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ جب حکومتی ارکان آئے تو شاہدہ رؤف نے اجلاس دوبارہ شروع کردیا۔ اس پر پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی نے شدید احتجاج کیا، کہ ملتوی ہونے کے بعد اجلاس دوبارہ شروع کرنا خلافِ قانون ہے۔ پشتون خوا میپ کے تمام ارکان اسپیکر کی چیئر کے سامنے آکر شاہدہ رئوف پر چیخے چلاّئے۔ کسی نے اس خاتون کو منافق کہا، کسی نے لعنت بھیجی، تو کسی نے پنجابی کہہ کر پکارا۔ اس سلوک پر پشتون خوا میپ کے چار ارکان نصراللہ، عبیداللہ بابت، سردار مصطفی ترین اور لیاقت آغا کی اسمبلی اجلاس میں شرکت پر پابندی عائد کی گئی۔ عبیداللہ بابت اگلے روز احتجاجاً اسمبلی عمارت کی راہداریوں میں بیٹھ کر اسپیکر راحیلہ درانی پر تنقید کے نشتر برساتے رہے۔ راحیلہ درانی ایک کمزور اور وہمی قسم کی خاتون ہیں۔ جان جمالی کو ہٹانے کے بعد انہیں حکم کی بجاآوری کے لیے ہی اسپیکر بنایا گیا۔ ایک بار نواب زہری جب وزیراعلیٰ تھے، وہ اجلاس کے دوران ہی ان پر برس پڑے۔ سردار عبدالرحمان کھیتران نے بھی بداخلاقی کی انتہا کردی۔ انہوں نے رقیہ ہاشمی کے ساتھ اسمبلی عمارت کے احاطے میں ہتک آمیز رویہ اپنایا۔ انہوں نے جو الفاظ استعمال کیے وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ رقیہ ہاشمی نے اس رویّے کے خلاف وزیراعلیٰ کے مشیر خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، مگر ان کے احتجاج کی کوئی شنوائی نہ ہوئی،کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔ سردار عبدالرحمان کھیتران اس وقت تک جے یو آئی کے رکن تھے مگر بالواسطہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) میں بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے اورنگزیب کھیتران کو ’’باپ‘‘ میں داخل کرایا ہے۔ اورنگزیب عبدالقدوس بزنجو کے زکوٰۃ و مذہبی امور کے اسپیشل اسسٹنٹ بھی مقرر تھے۔
سرفراز بگٹی 31 مئی کے اجلاس میں انتخابات اگست کے آخر تک ملتوی کرانے کی قرارداد لے آئے۔ پشتون خوا میپ کے ارکان نے بالخصوص اور نیشنل پارٹی کے ارکان نے بالعموم اس قرارداد کی مخالفت کی۔ سرفراز بگٹی نے عجیب توجیہ پیش کی کہ جولائی میں لوگ حج پر گئے ہوں گے۔ اور پھر قرارداد کا متن تبدیل کرکے گرمی اور مون سون کی منطق اُنڈیل دی۔ بہرحال یہ قرارداد بڑی آسانی سے پاس ہوگئی۔ اسمبلی میں آئین اور قانون کو سمجھنے والے یا اپنی رائے رکھنے والے ارکان ہوتے تو شاید قرارداد منظور نہ ہوتی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) تو ہر بار کمال کرتی ہے۔ اس نے انتخابات اگست میں کرانے کی قرارداد کی بھی حمایت کردی، یعنی پارٹی کے فیصلے اور مؤقف کے برعکس قدم اُٹھایا۔ اس شرمناک عمل میں اے این پی کے زمرک اچکزئی نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا۔ سوچا کہ شاید انتخابات کا اگست تک التوا جے یو آئی (ف) کا ہی فیصلہ ہوگا، چناں چہ ملک سکندر ایڈووکیٹ کو فون کیا جو جے یو آئی کے صوبائی سیکریٹری جنرل ہیں اور انتہائی شریف، با کردار وبے داغ آدمی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی جماعت الیکشن جولائی میں کرانے کی حامی ہے اور اس قرارداد کی جے یو آئی حمایت نہیں کرتی۔ لازمی بات ہے کہ جے یو آئی کے اندر دھڑے بندی ہورہی ہے۔خاص کرمو لانا شیرانی کا دھڑا خود کو پارٹی فیصلوں اور نظم کا پابند ہی نہیں سمجھتا۔ ایسا نہ ہوتا تو شاید مولانا عبدالواسع اور دوسرے ارکان جنہوں نے جماعتی فیصلے اور عزت کو روند ڈالا، کی بنیادی رکنیت نہ رہتی۔
2 مئی کو اسلام آباد میں ایم ایم اے کے قومی کنونشن میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پس پردہ قوتیں مصروف ہیں کہ مذہبی جماعتوں کو منتشر کرکے نیا اتحاد لایا جائے۔ مولانا نے ان مذہبی جماعتوں کو مخاطب کیا کہ وہ ایجنسیوں کی بات نہ مانیں۔ مولانا محمد خان شیرانی بھی کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں آئندہ کی مخلوط حکومت اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر بنے گی۔ مولانا عبدالواسع مولانا شیرانی کے پیروکار ہیں۔ مولانا شیرانی کی سیاست کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ جیسے بھی ہو عہدے اور مناصب حاصل کرو اور حکومتوں کا حصہ بنے رہو۔ انتخابات کے التواء کا مطالبہ ملک کی چھوٹی بڑی جماعتوں کا نہیں ہے۔ یقینی طور پر مولانا عبدالواسع نے قرارداد لانے والوں کی اطاعت کی تاکہ آئندہ حکومت میں ان پر انعامات و عنایات ہوں۔ گویا مولانا عبدالواسع اپنا ہی ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان میں عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کی اور چند دن پہلے کہہ دیا کہ بلوچستان میں جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹا گیا۔ اب اس سیاست کو کیا نام دیا جائے؟
زقند سردار اختر مینگل کی جماعت نے بھی ماری ہے، جس نے انتخابات میں تاخیر کی قرارداد کو جمہوریت کے منافی اقدام قرار دیا اور کہا کہ بی این پی ایسے فیصلوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے کہ جس سے جمہوریت کو خطرہ ہو۔ انتخابات کا بروقت اور شفاف انعقاد ہونا چاہیے، اور تاخیری حربے جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں(31 مئی 2018ء)۔ بی این پی کو یاد رہنا چاہیے کہ یہ قرارداد اُن مہروں نے پاس کرائی ہے جنہیں آپ، جے یو آئی، بی این پی عوامی اور اے این پی نے پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی کی عداوت اور نادیدہ لوگوں کی مروت میں مسلط کیا۔ عدم اعتماد کی تحریک میں تو سردار اختر مینگل کوئٹہ آکر بیٹھ گئے اور حکومت گرانے کی پوشیدہ اور نمایاں نشستوں میں شریک رہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت صوبے کا مقدر ٹھیری ہے۔ اس مقدر کو بنانے والوں میں جے یو آئی (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی شامل ہیں۔