چین برصغیر کی کشیدگی کا پسِ پردہ کھلاڑی؟

پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پش کش

چین کی طرف سے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش سامنے آئی ہے، مگر اب کی بار اِس پیشکش میں چین کی روایتی ملائمت اور نرمی شامل نہیں بلکہ لہجہ قدرے درشت اور ترش ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اِس بار چین دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی بھیک مانگتا ہوا اور ایک دبی ہوئی خواہش کا اظہار کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا، نہ ثالثی اور سہولت کاری کے لیے اقوام متحدہ اور امریکہ کی طرح دونوں ملکوں کی متفقہ درخواست کی شرط عائد کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے، بلکہ چین ایک مجبوری کے طور پر پاک بھارت معاملات کے خیمے میں سر دیتا محسوس ہورہا ہے۔ یہ مجبوری چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان جنگ شوانگ کی زبانی یوں بیان کی گئی ہے:
’’کشمیر کی کشیدہ صورتِ حال نے بین الاقوامی برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے۔ لہٰذا چین کشمیر کی صورتِ حال کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ کنٹرول لائن پر جو کشیدگی بڑھ رہی ہے وہ نہ صرف پاکستان اور بھارت کے امن کو غارت کرسکتی ہے بلکہ اس سے پڑوسی ممالک بھی متاثر ہوسکتے ہیں، اس لیے چین کشمیر کی صورتِ حال کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔‘‘
یہ قطعی اور غیر مبہم اندازِ بیاں ہے جو دوسرے ملکوں کے معاملات میں چین کی طرف سے کم ہی اپنایا جاتا ہے۔ چین کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش مختلف مواقع پر کی جاتی رہی ہے، مگر حالیہ پیشکش میں خواہش اور مجبوری کا رنگ نمایاں ہے، یعنی یہ کہ چار وناچار چین کو اس معاملے میں مداخلت کرنا پڑے گی۔ عمومی طور پر یہی سمجھا جارہا ہے کہ چین اِس وقت پاکستان اور بھارت کے مابین اُلجھائو کا شکار مسئلہ کشمیر کے معاملے میں سہولت کاری کی سب سے بہترین پوزیشن میں ہے، اور یہ سہولت امریکہ کو بھی حاصل نہیں رہی ۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچے ہوئے ہیں اور یہ گراوٹ بدستور جاری ہے۔ امریکہ پاکستان کو اور پاکستان امریکہ کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، اور کبھی اس میں دشمنی کا رنگ بھی شامل ہوجاتا ہے، کیونکہ دونوں کے عالمی اور علاقائی تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) میلانات دو الگ سمتوں میں سفر کررہے ہیں۔ اس کے برعکس چین پاکستان کا سب سے بااعتماد اور قریبی اتحادی ہے۔ چین بھارت کے ساتھ ڈوکلام جیسا تنازع خوش اسلوبی سے حل کرچکا ہے، اور دونوں کے درمیان تزویراتی امور پر اختلافات تو ہیں مگر تجارتی تعلقات عروج کی طرف جارہے ہیں۔ بھارت جنوبی چین کے جزیروں میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ کے چین کے ساتھ ممکنہ تصادم میں غیر جانب دار رہنے کا اعلان کرکے چین کو مفاہمت کا پیغام دے چکا ہے۔ چین اس خطے میں سی پیک اور بجلی کی پیداوار کے منصوبوں پر بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے، اور اس سرمایہ کاری کو فائدہ مند بنانے کے لیے امن کی فضا ناگزیر ہے، وگرنہ یہ سب کچھ اکارت جا سکتا ہے۔ چین افغانستان میں ایک وسیع مفاہمت کے لیے بھی سہولت کاری کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ یہ امریکہ کی فوجی حل کی افغان پالیسی کے متوازی اور مخالف اندازِ فکر و عمل ہے۔ اس مشکل کام میں چین کو پاکستان کا اعتماد بھی حاصل ہے، اور یہ وہ سہولت ہے جو امریکہ کو حاصل نہیں رہی، اور وہ سولہ برس سے افغانستان میں فتح کی تلاش میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھر رہا ہے۔ اس پس منظر میں چین کی طرف سے ثالثی اور سہولت کاری کی خواہش کا اظہار خوش آئند ہے۔ آثار وقرائن بتاتے ہیں کہ اس معاملے میں چین کے پسِ پردہ کردار کا آغاز بھی ہوچکا ہو۔
کنٹرول لائن پر کشیدگی کا یہ عالم ہے کہ بھارتی حکام کے مطابق رواں سال جنوری سے مئی کے تیسرے ہفتے تک پاکستان کی
جانب سے کنٹرول لائن کی گیارہ سو مرتبہ خلاف ورزی ہوئی جس میں اکتالیس افراد مارے گئے۔ پاکستان کے مطابق اسی مدت میں بھارت نے ایک ہزار مرتبہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی اور ان واقعات میں پچیس افراد جاں بحق ہوئے۔ وادی کے اندر موجود کشیدگی اور وہاں انسانی جانوں کا اتلاف اس کے علاوہ ہے۔ ان حالات میں عوامی جمہوریہ چین کو استقامت کے ساتھ آگے بڑھ کر مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اب دونوں ملکوں کی مشترکہ دعوت کا مضحکہ خیز اور تصوراتی مؤقف اپنانا خودفریبی ہے جس میں مدتوں امریکہ مبتلا رہا، مگر اس کا نتیجہ کبھی مثبت برآمد نہ ہوسکا۔
چین کی طرف سے تازہ پیشکش سے پہلے بھی کچھ اہم واقعات رونما ہورہے تھے جن میں ایک اہم واقعہ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کی طرف سے کنٹرول لائن پر جنگ بندی برقرار رکھنے اور اس حوالے سے 2003ء کے معاہدے کی پاسداری کا فیصلہ بھی تھا۔ دونوں کے درمیان ہاٹ لائن پر ہونے والے رابطے اور گفتگو میں کشیدگی کو کم کرنے سمیت کئی خوش کن وعدے وعید بھی ہوئے ہوں گے۔ ڈی جی ایم اوز کے درمیان اس رابطے کے دوسرے روز ہی چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوئی چن ینگ نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا اور توقع ظاہر کی تھی کہ دونوں ملک پُرامن انداز سے اپنے مسائل حل کریں گے۔
پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان کشمیر کو تقسیم کرنے والی 776کلومیٹر طویل کنٹرول لائن گزشتہ کئی برس سے میدانِ کارزار بن کر رہ گئی ہے۔ بھارتی فوج نے کشمیر کے اندر چلنے والی تحریکِ آزادی کے ردعمل میں کنٹرول لائن کو میدانِ جنگ بنادیا، اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد جاں بحق، زخمی اور بے گھر ہوئے۔ بھارت نے ایک منظم حکمت عملی کے تحت کنٹرول لائن کا محاذ گرم کررکھا تھا، اس کا بنیادی خیال پاک فوج کو سرحدی علاقوں میں مسلسل مصروف رکھنا تھا۔ بھارت کے ایک فوجی جنرل نے اس حکمت عملی کا برملا اعتراف بھی یہ کہہ کر کیا تھا کہ جس طرح ہم کشمیر میں تشدد اور کنٹرول لائن پر دراندازی کی وجہ سے مصروف ہیں اسی طرح کنٹرول لائن پر گولہ باری کے ذریعے ہم نے پاکستانی فوج کو جواب کے طور پر مصروف کردیا ہے۔ اس حکمت عملی سے بھارت کا کچھ نقصان بھی نہیں ہورہا تھا۔ دونوں طرف سے فائرنگ کی زد عام آبادی پر پڑتی تھی اور دونوں طرف مسلمان اور کشمیری آبادی ہے۔ جو بھارت وادی کے اندر کشمیریوں کی نسل کُشی کررہا تھا اُسے کنٹرول لائن کے عوام کی جانیں بچانے کی فکر کیوں کر ہوسکتی تھی! اس کے برعکس پاکستان کے لیے کنٹرول لائن کے محاذ کو گرم رکھنا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ دونوں طرف مسلمان آبادی کا ہونا پاکستان کی کمزوری ہے، اور بھارت اسی کمزوری کا فائدہ اُٹھاتا چلا آرہا ہے۔ اسی دوران بھارت نے کنٹرول لائن پر سرجیکل اسٹرائیکس کا ڈراما کھیل کر وادی میں اپنی ہزیمت کا بدلہ لینے کی کوشش کی تھی، مگر یہ فلم باکس آفس پر ہی فلاپ ہوگئی اور زیادہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس طرح دونوں طرف سے ہونے والی سرگرمیوں کے باعث جنگ بندی کا معاہدہ ہوائوں میں تحلیل ہوکر رہ گیا تھا۔ اب دونوں طرف کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کی طرف سے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری اور اس پر چین کا فوری ردعمل یہ بتا رہا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے کوئی نادیدہ طاقت ضرور موجود ہے، اور اِس بار یہ نادیدہ طاقت امریکہ نہیں چین ہے۔ چین جس قدر بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے اس کے پیش نظر وہ علاقے میں ایک پٹاخہ پھٹنے کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کا سماں ہو اور گولیوں کا تبادلہ ہمہ وقت جاری رہتا ہو۔ اس لحاظ سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چین کا قطعیت پر مبنی اندازِ فکر خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
چین تاریخ کے اس پیچیدہ ترین اور اُلجھے ہوئے کھیل میں کسی حد تک شریک تو ہوگیا ہے، مگر ایک قابلِ عمل حل کے لیے اسے جانگسل مراحل سے گزرنا ہوگا، کیونکہ اپنے وقت کی ایک عالمی طاقت برطانیہ کے پیدا کردہ اس مسئلے کو وقت کی دو عالمی طاقتیں سوویت یونین اور امریکہ حل کرانے میں ناکام ہوتے رہے ہیں۔ سوویت یونین نے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے باہمی معاہدے کی تاشقند میں میزبانی کی تھی، اور امریکہ تو مسلسل دونوں ملکوں کو ٹریک ٹو اور دوسرے ناموں سے سہولت کاری کے لیے پردے کے پیچھے موجود رہا، مگر ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اب ستّر برس بعد چین ایک تیسری عالمی طاقت کے طور پر اس مسئلے میں دخیل ہورہا ہے تو سب کو اچھی امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں۔