اسلام آباد: پانی کی قلت ‘جماعت اسلامی کا د ھرنا

اسلام آباد میں پینے کے پانی کی قلت مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے، اور ٹینکر مافیا نے شہریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ شہری ہاتھوں میں پیسے لیے پھرتے ہیں مگر انہیں پینے کا پانی میسر نہیں ہورہا۔ شدید ترین گرمی اور رمضان المبارک کے باعث پانی کی قلت نے بحران کھڑا کردیا ہے۔ پینے کے پانی کی قلت کا مسئلہ پاکستان کے ہر بڑے شہر کا ہے لیکن اسلام آباد میں جنگل مسلسل کاٹے جارہے ہیں، عمارتیں کھڑی کی جارہی ہیں، سی ڈی اے مافیا بھتہ لے رہا ہے اور منی لانڈرنگ مافیا سرگرم ہے۔ اس مافیا نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اب طاقت صرف پیسہ ہے، اس کے بل پر جو چاہو کرلو۔ اسلام آباد میں پانی کا مسئلہ ناقابلِ یقین حد تک سنگین صورت اختیار کرچکا ہے، جس طرح یہ مسئلہ اب سر اٹھا رہا ہے اگر یہ حل نہ ہوا تو آئندہ چند برسوں میں اسلام آباد کا سارا سنگھاسن زمین بوس ہوجائے گا۔ جماعت اسلامی اسلام آباد کے زیراہتمام اسلام آباد میں پانی کی بدترین قلت اور ٹینکر اور بورنگ مافیا کے خلاف میئر اسلام آباد کے آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا گیا جس کی قیادت نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان وسابق رکن قومی اسمبلی میاں محمد اسلم نے کی۔ اس موقع پر متحدہ مجلس عمل اسلام آباد کے صدر مولانا عبدالرؤف، سیکرٹری جنرل محمد کاشف چودھری، جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل زبیر صفدر اور مفتی عبداللہ نے بھی خطاب کیا۔ اس احتجاجی دھرنے میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ احتجاجی دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے میاں محمد اسلم نے کہا کہ ملک کا دارالحکومت کربلا کا منظر پیش کررہا ہے، شہری اور دیہی علاقوں میں مرد و خواتین اور بچے دن بھر پانی کی تلا ش میں سرگرداں نظر آتے ہیں، حکومت اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے اسلام آباد کے شہریوں کو ٹینکر اور بورنگ مافیا کے حوالے کردیا ہے، اسلام آباد کے شہری روزانہ کی بنیاد پر 86 لاکھ روپے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام آباد کے شہریوں کو یومیہ 120 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے جبکہ اسلام آباد میں 59 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے، اس ساری صورت حال میں شہری تین ہزار روپے میں پانی کا ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں، جبکہ اجتماعی طور پر بورنگ بھی مہنگے داموں کروانے پر مجبور ہیں۔ میاں محمد اسلم نے کہا کہ اسلام آباد میں 197ٹیوب ویل ہیں جن سے شہر کو پانی کی سپلائی ہوتی ہے، ان میں سے 157خراب ہوچکے ہیں جبکہ سملی ڈیم اور خانپور ڈیم سے بھی پانی کی سپلائی کم ہوچکی ہے، سی ڈی اے کے ہر شکایات سیل میں روزانہ 200 افراد پانی کی کمی کی شکایات کرتے ہیں جبکہ صرف 20 افراد کو پانی فراہم کیا جاتا ہے وہ بھی آدھا ٹینکر، ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ سی ڈی اے کے عملے نے ٹینکر اور ٹیوب ویل کیوں ٹھیک نہیں کروائے؟ انھوں نے کہا کہ میں نے 2005ء میں بطور ایم این اے غازی بروتھا ڈیم سے اسلام آباد کے لیے پانی کی اسکیم منظور کروائی تھی، مگر اس کے بعد اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ سی ڈی اے کے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں اسلام آباد میں پانی کی اسکیموں کے لیے 50کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ اس رقم کو بڑھایا جائے اور اس کا درست استعمال یقینی بنایا جائے۔ میاں محمد اسلم نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا شکریہ بھی ادا کیا جنھوں نے اسلام آباد کے اس سلگتے ہوئے مسئلے پر سوموٹو ایکشن لیا ہے۔ میاں محمد اسلم نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسلام آباد کو سملی ڈیم سے پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا جائے، پانی کی چوری روکی جائے اور لائنوں کی مرمت کرکے پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، اور اسلام آباد میں نصب تمام ٹیوب ویلوں اور ان کی موٹروں کو ٹھیک کرکے چلایا جائے تاکہ شہر بھر میں پانی کا بحران ختم ہوسکے، اور ٹیوب ویلوں کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تاکہ شہریوں کو پانی کی فراہمی بلا تعطل جاری رہ سکے۔ انھوں نے کہا کہ حکمرانوں نے 2013ء کے انتخابات میں توانائی بحران پر قابو پانے اور لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے، مگر پانچ سال گزرنے کے بعد بھی حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کرسکی، اور پورے ملک کی طرح اسلام آباد کے شہری بھی بدترین لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں۔