کتاب: محسناتِ شعراقبال
مصنفہ : ڈاکٹر بصیرہ عنبرین
ایسو سی ایٹ پروفیسر شعبہ اردوپنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور
صفحات : 416
قیمت:
فون نمبر: 042-373005010300-8898639
تفہیم و تحسینِ شعرِ اقبال پر اتنا لکھا گیا ہے کہ اب کتب خانے بھر گئے ہیں لیکن فنی بحث و مباحثے کے کئی میدان علم و تحقیق کے شہسواروں کے منتظر ہیں۔ ان شاء اللہ اہلِ علم ان گوشوں کی طرف بھی ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کی طرح متوجہ ہوں گے۔ زیر نظر کتاب تفہیم اقبال کے سلسلے میں بطور مآخذ مستعمل ہوگی۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے خوبصورت الفاظ میں مصنفہ اور ان کی تصانیف کی جائز توصیف و توقیر کی ہے۔’’اقبالیات میں ایک یادگار تحقیق‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’گزشتہ کئی برسوں سے اقبال کا مطالعہ ہمارے مصنفین اور محققین مختلف موضوعات پر کرتے آئے ہیں، اور اس طرح اقبالیات کے اس قدر گوشے سمیٹے جا چکے ہیں کہ اس کی مثال مشرقی ادبیات کی کسی شخصیت کے حوالے سے کم ہی تلاش کی جا سکتی ہے۔ قریب و دُور کا شاید ہی کوئی پہلو اقبالیات میں اب ایسا رہا ہو جس کی طرف یکسر کوئی توجہ نہ دی گئی ہو۔ اقبال کی زندگی، عہد، فکر، شاعری اور اسالیب کا کوئی گوشہ غالباً اب ایسا نہیں جسے کسی نے نقد و تحقیق کے لیے اپنا موضوع نہ بنایا ہو۔ ایسے موضوعات میں فکر، عہد اور شاعری سے قطع نظر، کہ جن میں دل چسپی کے پہلو زیادہ رہتے ہیں اور مصنفین انھیں نسبتاً اپنا موضوع بھی خوب خوب بناتے ہیں، اسالیب، فن اور لسانی و فنی محاسن اپنی خشکی اور عمومی بے کیفی کے سبب کم ہی موضوع بنے ہیں۔ ایسے ہی موضوعات میں صنائع بدائع، عروض اور لسانی تشکیلات کا مطالعہ بھی شامل ہے جس کی طرف کم ہی توجہ دی گئی ہے، کیونکہ اس کے تقاضے دشوار گزار چوٹیوں کو سرکرنے کے مترادف ہیں اور بہت کم لکھنے والے ان چوٹیوں کو سرکرنے کی ہمت کرپاتے ہیں… لیکن بصیرہ عنبرین نے ایسی چوٹیاں کئی بار سر کی ہیں۔
تعجب ہے کہ بصیرہ اپنے مطالعے کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کرتی ہیں کہ جنہیں بالعموم چھونے سے بھی لوگ احتراز کرتے ہیں۔ تضمین اور پھر اقبال کی رباعی اور دوبیتی کے حوالے سے بہت کم ہی کچھ کسی اور نے لکھا ہے یا اس میدان میں داخل ہونے کی جسارت کی ہے۔ بصیرہ نے یہ دونوں میدان سر کیے ہیں اور اقبالیات کے ان اچھوتے موضوعات کو اپنے تحقیقی اور تنقیدی مطالعے کا موضوع بناکر ایک قابلِ تحسین اور قابلِ رشک مثال قائم کی ہے۔ اس دوسری تصنیف میں بصیرہ اپنی تنقیدی صلاحیتوں سے بڑھ کر اختلافِ نسخ اور ترمیمات و باقیات کی ترتیب و تدوین کی اپنی استعداد اور صلاحیتوں کے توسط سے اپنے تحقیقی مزاج اور منہاج کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
کلام اقبال کے اسالیب اور بیان و بدیع کے محاسن پر چھوٹے بڑے چند کام ہی ہوئے ہیں، لیکن ایک تخصیصی مطالعہ، جو بیان و بدیع کے تمام متعلقہ اور مباحث کا احاطہ کرتا ہے میرے علم میں نہیں۔ پھر تنقید ، تحقیق اور تجرباتی عمل کے ذریعے ان محاسن کے تعین کی کوئی جامع کوشش بھی ایسی نہیں جیسی اب اس زیر نظر تصنیف میں دیکھی جا سکتی ہے ۔بصیرہ عنبرین کو شعر ی کوشش بھی ایسی نہیں جیسی اب اس زیر نظر تصنیف میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بصیرہ عنبرین کو شعری محاسن، صنائع بدائع اور پھر فارسی اور اردو شاعری کی طویل ترروایات سے خاصی واقفیت ہے، جس کا ثبوت ان کی سابقہ تصانیف اور مقالات میں موجود ہے۔ ان کی زیر نظر تصنیف اپنے موضع پر اب ایک مستقل کام بلکہ ایک ماخذ کی حثیت رکھتی ہے۔ مصنفہ نے اپنے اس کام میں علم بیان اور علم بدیع کے بنیادی مباحث کی روشنی میں اقبال کے شعری محاسن کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ کیا ہے اور اس مطالعہ کے دوران محض بیان و بدیع کے عناصر کی جمع آوری تک ہی اپنے کام کو محدود نہیں رکھا بلکہ ان محاسن کے لسانی اور فنی اجزا کے استخراج کو اپنے مطالعے کا جزو لازم بھی بنادیاہے۔ اس اعتبار سے ان کایہ کام اپنی نوعیت اور اپنے معیار کے لحاظ سے ایک ایسی کوشش سے متصف ہے۔ جس کی کوئی اور مثال کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔ بصیرہ کا یہ مثالی کام محض ایک سرسری مطالعہ نہیں بلکہ اس موضوع کے تعلق سے مطالعے کی وست اور تنقید ت تجزیہ کی گہرائی و گیرا اور پھر موضوع کے فنی مباحث کا جامعہ طورپ راحاطہ بھی کرتاہے۔ اپنے اس مطالعے کے ضمن میں متعلقہ تمام اہم اور ناگزیر مآخزان کے پیش نظر رہے اور ان مآخذ اور معاون کتب سے انہوں نے بھر پور اسفادہ بھی کیا ہے اور پھر اقبال کے اردو کلام کو، صاف ظاہر تاہے کہ ، لفظاً لفظاً انہوں نے اپنے استخراج نتائج کے لیے پیش نظر رکھا ہے۔ اپنے اس مطالعے کے ضمن میں انہوں نے محض فنی محاسن کا تعین ہی نہیں کیا بلکہ تلازمات کو بھی اخز کرنے اور ان کا تجزیہ کا تجزیہ کرنے کی بھی ایک جامع کوشش کی ہے۔ ان کا یہ کام اس حوالے سے اور اس سطح پر ایک ایسی انفرادیت کا حامل ہے جس کی کوئی اس جیسی جامع اور مبسوط نظر میرے علم میں نہیں ہے۔
اقبال پر مختلف فکری اور فنی حوالوں سے متنوع کام ہوئے ہیں اور معیاری کاموں کی بھی کوئی کمی نہیں، لیکن ایسے مثالی کاموں میں ، جو یادگار بھی رہیں گے، یقین ہے کہ بصیرہ عنبرین کییہ تصنیف بھی ان میں شامل رہے گی۔ گویا اقبال پر ہونے والے مثالی اور یادگار کاموں میں ان کے اس زیر نظر کام کو فراموش نہ کیاجاسکے گا۔ اقبالیات کی دنیا میں بصیرہ کی آمد اور ان کے کیے ہوئے کام خوش آیند ہیں اور ایسے مزید بہتر امکانات کی نوید بھی دیتے ہیں۔،،
کتاب دو حصوں میں منقسم ہے پہلا حصہ محاسن شعر اقبال علم بیان کی رو سے اس میں اقبال کا تشبیہی نظام،اقبال کا استعارتی نظام شعر اقبال میں مجاز مرسل کے قرینے اور اقبال کنائی اسلوب کے عنوانات کے تحت سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، دوسر احصہ محاسن شعر اقبال علم بدیع کی روز سے اس حصے میں شعر اقبال میں تلمیحات اور دیگر ضائع بدائع لفظی و معنوی ۔ شعر اقبال میں، عنوانات کے تحت تحقیق پیش کی گئی ہے۔
جیسے کہا جاتاہے تصنیف رامصنف نیکو کند بیان ڈاکٹر صاحبہ تحریر فرماتی ہیں۔
پیش نظر کتاب: محسنات شعرِ اقبال( شعرِ اقبال میں علم بیان اور علم بدیع کے محاسن) ذخیرۂ اقبالیات میں شامل کی جارہی ہے۔ اپنی اولین حیثیت میں یہ راقمہ کے پی ایچ ڈی کے مقالے: اقبال کی اردو شاعری۔ فنی محاسن کا تحقیقی و لسانی مطالعہ کا ابتدائی نصف حصہ ہے جس میں تحسین شعری کے مشرقی و کلاسکی مباحث اور محاسن کی روشنی میں شعرِ اقبال کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ کیاگیا ہے۔ اس حصے میں کل سات اجزا پیش ہیں اور یہ مشرقی شعریات کے علوم بیان و بدیع سے متعلق بنیادی محاسن کی رو سے اقبال کی شاعری کا مرتبہ متعین کرتے ہیں۔‘‘
جہاں تک اس کتاب کا دوسرا حصہ ’’ محاسنِ اقبال : علم ِ بدیع کی رو سے ‘‘ کے مشمولات کا تعلق ہے ، یہ بنیادی طورپر تین ہیں اور تنقیدی طرز کے اعتبار سے یہاں بھی متذکرہ بالا روش کو اپناتے ہوئے کلام اقبال کے تنقیدی وفنی مطالعات رقم ہوئے ہیں۔ ویسے تو اقبال کی شاعری میں بعض استثنائی صورتوں سے ہٹ کر تمام کے تمام معروف اور مستعمل محسنات لفظیہ و معنویہ بھر پور شعری رچاؤ اور تخلیقی حسن کے ساتھ پیوند کلام ہوئے ہیں لیکن ’تلمیح ‘ اور ’ تضمین‘ کے باب میں انہوں نے جو حیرت انگیز تخلیقی استعداد دکھائی ہے اس کا تفصیلی تذکرہ ناگزیر تھا۔ چنانچہ اس حوالے سے دو مفصل اجزا کے تحت اقبال کے اردو کلام کی کم و بیش تمام تلمیحات تضمینات زیر بحث ہیں۔ میں نے شعر اقبال کا تلمیحاتی مطالعہ کرتے ہوئے اقبال پر اس حوالے سے کیے گئے گزشتہ تحقیقی رویوں کے برعکس محض شعری مثالوں کی جمع آوری اور متعلقہ تلمیحوں کی نشان دہی کے بجائے یہ کوشش کی ہے کہ تمام تر تلمیحات کو موضوعاتی تقسیم کے تحت فکر یات اقبال کی روشنی میں تجزیاتی صورت میں ڈھالا جائے تاکہ ہر موضوع کی نسبت سے اقبال کی پیش کردہ تلمیحات کے زاویے نمایاں ہو سکیں۔۔۔ تضمیناتِ اقبال کے سلسلے میں یہ ذکر ضروری ہے کہ راقمہ ایک کتاب تضمیناتِ اقبال چوں کہ اس موضوع پر شائع ہو چکی ہے اور یہاں بھی صنائع بدائع کے تذکرے میں علامہ کے اس کلیدی فن سے صرفِ نظر کرنا درست نہیں چنانچہ میں نے اس تصنیف میں اقبال کی تضمینوں کے مطالعے کو ایک نیا انداز دے دیا ہے یعنی یہاں کلام اقبال(اردو) کی تضمینات کو ایک جدول کی صورت میں تمام تر حوالوں اور شعرا کے انتساب کے ساتھ یک جا کردیا ہے۔ اس طرح یہ مطالعہ اپنی نئی صورت میں تحقیقی ذوق کی تشفی کا سامان برنگِ دگرکرتاہے۔۔۔۔ اس دوسرے حصے کے تیسرے جز میں اقبال کے دیگر تمام لفظی و معنوی صناعانہ پہلوؤں کو احاطہ تحریر میں لایاگیا ہے۔ یہ لفظی و معنوی محسنات دو مزید حصوں میں زیر بحث ٓئے ہیں اور یہاں بھی کوشش یہی رہی ہے کہ محض شعری مثالوں کو یک جا کرنے کے بجائے اطلاقی و تجزیاتی پہلو فائق رہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس تحقیق کے نتیجے میں کم و بیش تمام لفظی و معنوی صنعتیں اقبال کے زیر استعمال نظرآتی ہیں اور کہیں بھی تصنع کا شائبہ تک نہیں، آوردکا گمان نہیں۔۔۔ ہر جگہ بے ساختگی ہے، روانی اور برجستگی ہے !۔۔۔ اس قدرے مفصل حصے سے یہ ثابت ہے کہ قلمرو بدیع کے مختلف محسنات سے اقبال کی غیر معمولی دل چسپی رہی جو کہ اس مفکر شاعر کی شاعرانہ گرفت کا ایک حیرت انگیز مظہر ہے۔
یہ اقبال کا امتیاز خاص ہے کہ ان کے ہاں شعوری کاوشوں پر مبنی یہ دونوں علوم شعری کمال درجے کی بے ساختگی سے برتے گئے ہیں۔ یہاں اس حد تک روانی اور قادر الکلامی کا احساس ہوتاہے کہ اکثر مقامات پر ان محاسن شعرکی دریافت ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ بسا اوقات تو کئی کئی بار کسی شعر پارے کی قرأت کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ شاعر نے کن وسائل شعری سے استفادہ کرکے بلاغت و معنویت کا حصول کیاہے۔ اقبال وہ نادر روزگار شاعر ہیں جنہوں نے انتہا درجے کی ذہانت و فطانت اور مشاقی فن سے شعری محاسن کو محض وسائل تزئین و آرائش ، قیاس کرنے کے بجائے ترسیل و ابلاغ کا موثر وسیلہ بنایا ہے۔ ان کے ہاں تمام محسنات شعری بھر پور رچاؤ کے ساتھ ان کیپیش کردہ معانی و مطالب میں پیوست و پیوند ہوگئے ہیں۔ اس تفصیلی مطالعے سے ظاہر ہے کہ شعری خوبی کو ئی بھی ہو اقبال نے اسے روایتی استعداد کے ساتھ اپنا کر چیز ے دگر بنادیاہے۔ یہاں یہ محض شعری و فنی محاسن ہی نہیں رہے بلکہ ترسیلِ معنی کا موزوں و متناسب ذریعہ اظہار بن گئے ہیں۔ ہر جگہ معنی افضل ، ترغیب عمل مستحسن اور اصلاح احوال مقدم ہے۔۔۔۔ تشبیہات و استعارات ہوں یا کنایہ و مجاز مرسل کے مختلف انداز، تلمیحات و تضمینات ہوں یا ضائع بدائع لفظی و معنوی کی متنوع صورتیں۔۔۔ اقبال ہر جگہ ممتاز ہیں ہر مقام پر باکمال ہیں۔