۔70 فلسطینی بچوں کے ایک گروپ نے ارجنٹائن کے فٹ بالر لیونل میسی کو ایک خط لکھا ہے جس میں اُن سے اسرائیل کے خلاف کھیلے جانے والے دوستانہ میچ میں شرکت نہ کرنے کی استدعا کی ہے۔
خیال رہے کہ ارجنٹائن اور اسرائیل کے درمیان یہ دوستانہ میچ یروشلم کے جنوب میں ٹیڈی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا جو 70 برس پہلے عرب اسرائیل جنگ میں تباہ ہوگیا تھا۔ فلسطینی بچوں کی جانب سے لکھے جانے والے خط کے متن کے مطابق ’’جیسا کہ ہمیں بتایا گیا ہے، آپ ہمارے تباہ شدہ گاؤں پر تعمیر کردہ اسٹیڈیم میں اپنے دوستوں کے ساتھ میچ کھیلنا چاہتے ہیں‘‘۔ فلسطینی بچوں نے خط میں میسی سے پوچھا ’’لیکن ہماری خوشی اُس وقت آنسوؤں میں بدل گئی اور ہمارے دل ٹوٹ گئے کہ میسی، ہمارا ہیرو، ہمارے آباو اجداد کی قبروں پر تعمیر ہونے والے اسٹیڈیم میں کھیلنے جارہا ہے؟‘‘ فلسطینی بچوں نے خط کا اختتام ان الفاظ پر کیا ’’ہم اپنے دوستوں کے ذریعے خدا سے دعا کریں گے کہ میسی ہمارے دلوں کو نہ توڑیں‘‘۔ واضح رہے کہ ارجنٹائن اور اسرائیل کے درمیان یہ دوستانہ میچ اُس وقت کھیلا جائے گا جب حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں اور اسرائیلی افواج کے درمیان جنگ میں تیزی آئی ہے۔ فلسطین فٹبال فیڈریشن کے صدر جبرئیل نے گزشتہ پیر کو اپنے ارجنٹائن کے ہم منصب کے علاوہ جنوبی امریکہ فٹبال فیڈریشن اور فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کو ایک احتجاجی خط لکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’’اسرائیل کی حکومت اس میچ کو یروشلم میں منعقد کرواکر سیاسی معنی دینے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘
بشارالاسد کا دورۂ شمالی کوریا
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کے مطابق شام کے صدر بشارالاسد کم جونگ ان کی دعوت پر جلد دارالحکومت پیانگ یانگ کا دورہ کریں گے۔ ابھی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اگر ایسا ہوا تو بشارالاسد کم جونگ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شمالی کوریا کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی سربراہِ حکومت ہوں گے۔ 2011ء میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے کم جونگ نے یہ اعزاز اپنے جگری دوست چین کو بھی نہیں عطا کیا۔ چین کے بعد شام شمالی کوریا کا قریب ترین دوست ہے اور مغربی ممالک الزام لگارہے ہیں کہ شمالی کوریا شام کو کیمیاوی ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ دوسری طرف مغرب کے سراغ رساں اداروں کا خیال ہے کہ بشارالاسد اپنے لوگوں سے لڑ کر تنگ آگئے ہیں اور وہ امریکہ سے مل کر اس تنازعے کو پُرامن طور پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس دورے میں وہ کم جونگ سے امریکہ کے لیے ثالثی کی درخواست کریں گے۔
اسرائیلی فائرنگ میں شہید ہونے والی رضا کار فلسطینی نرس
ایک فلسطینی طبی اہلکار نے کہا کہ جمعہ کو جب 21 سالہ رزان النجار ایک زخمی شخص کی مدد کے لیے سرحد پر لگی باڑ کی جانب دوڑیں تو ان کو بندوق سے نشانہ بنایا گیا۔ غزہ اسرائیل کی سرحد پر کئی ہفتوں سے جاری پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں رزان النجار کی موت واقع ہوئی ہے۔ فلسطینی مہاجرین کو اپنی آبائی زمینوں پر جو اب اسرائیل کا حصہ ہیں، واپس آنے کی اجازت دینے کے مطالبے کے لیے جاری مظاہروں میں اب تک 100 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ ہفتے کے دن رزان النجار کے جنازے کو فلسطینی پرچم میں لپیٹ کر غزہ کی گلیوں سے لے جایا گیا۔ ان کے والد نے ان کی خون آلود طبی جیکٹ اٹھا رکھی تھی جبکہ دوسرے سوگوار بدلے کا مطالبہ کررہے تھے۔ فلسطینی طبی ریلیف سوسائٹی نے کہا کہ رزان النجار ایک زخمی مظاہرہ کرنے والے تک پہنچنے کی کوشش کررہی تھیں کہ خان یونس قصبے کے قریب ان کو گولی مار دی گئی۔
افغانستان میں بچوں کی تقریباً نصف آبادی اسکول نہیں جاتی
شائع کی گئی ایک تحقیق کے مطابق افغانستان میں سات سے سترہ سال کی عمر کے 37 لاکھ یعنی تقریباً 44 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بچوں کی تقریباً نصف آبادی اسکول نہیں جاتی جس کی وجوہات میں شورش اور غربت شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف اور یو ایس ایڈ کی جانب سے پیش کردہ مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سن 2002ء کے بعد پہلی مرتبہ بڑھ رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں جاری کشیدگی کی وجہ سے اسکول بند ہورہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے آنے والی تھوڑی سی بہتری بھی رائیگاں جائے گی۔
انتخابات 1979ء ـــــــ—– 2018ء
مجھے اکتوبر 1979ء کی وہ شام اب تک یاد ہے جب مرحوم ائیر مارشل اصغر خان راولپنڈی میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کرکے تحریک استقلال کے رہنما کرنل تصدق حسین کی اقامت گاہ پر آئے، جہاں انہوں نے پریس کانفرنس کی۔ کرنل تصدق حسین کی کوٹھی راولپنڈی کینٹ کی مشہور ’’پنج سڑکی‘‘ پر واقع تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اسی سال چار اپریل کو پھانسی دی جا چکی تھی۔ مارشل لا حکومت نے اکتوبر میں انتخابات کرانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ پیپلز پارٹی اور اس کے مخالف اتحاد پی این اے میں شامل جماعتیں انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔ بھٹو کو پھانسی دئیے جانے کے بعد اُس وقت پاکستان میں عمومی تاثر یہ تھا کہ اگلے وزیراعظم ائیر مارشل اصغر خان ہوں گے۔ اصغر خان نے تھری پیس سوٹ اور ٹائی کا استعمال شروع کردیا تھا۔ یہ تاثر بھی بڑھ رہا تھا کہ بھٹو کے بعد اُن کے سب سے بڑے سیاسی حریف ایئر مارشل اصغر خان کو امریکہ پاکستان میں وزیراعظم بنوانا چاہتا ہے۔ اسی زمانے میں اصغر خان اپنی ایبٹ آباد کی اقامت گاہ سے اسلام آباد آتے ہوئے اچانک ہری پور کے سول ہسپتال چلے گئے جہاں انہوں نے ہسپتال کا معائنہ کیا۔ ائیر مارشل نے ہسپتال کے ایم ایس کو ڈانٹ پلائی کہ ہسپتال کی حالت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ ائیر مارشل کے ہسپتال دورے کی خبر کے شائع ہونے سے اس تاثر کو اور بھی تقویت ملی کہ اصغر خان اگلے وزیراعظم ہوں گے۔
بات ہورہی تھی اصغر خان اور جنرل ضیاء الحق کی ملاقات، اور اس کے بعد کرنل تصدق کے گھر اصغر خان کی پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس کو جن صحافیوں نے کور کیا تھا اُن میں سے سینئر صحافی سعود ساحر ماشاء اللہ اب بھی حیات ہیں۔ ایک اور سینئر صحافی اشرف ہاشمی اس دنیا میں اب نہیں۔ اشرف ہاشمی نے اصغر خان سے سوال کیا کہ ائیر مارشل صاحب کیا آپ کو یقین ہے کہ جنرل ضیاء الحق بروقت انتخابات کرا کے اقتدار منتخب نمائندوں کو سونپ دیں گے؟ تو ائیر مارشل نے جواباً کہا: مجھے پورا یقین ہے کہ جنرل ضیاء الحق انتخابات کرائیں گے۔ انہوں نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے کر کہا: “It is a soldier’s promise to a soldier” یہ ایک سپاہی کا دوسرے سپاہی سے وعدہ ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ انتخابات ضرور ہوں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ائیر مارشل صاحب کی اس پریس کانفرنس کے چند دنوں بعد جنرل ضیاء الحق نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے انتخابات منسوخ کرنے، سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے اور اخبارات پر سنسر شپ لگانے کا اعلان کردیا۔ ائیر مارشل اصغر خان کو ایبٹ آباد میں ان کی اقامت گاہ پر نظربند کردیا جہاں وہ 1985ء تک نظربند رہے۔ یہ 2018ء ہے، اس وقت کوئی ایسا خدشہ نظر نہیں آرہا۔ چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر، نگران وزیراعظم جسٹس(ر) ناصرالملک سب نے اعلان کیا ہوا ہے کہ انتخابات 25 جولائی کو ہوں گے۔ اتفاق کی بات ہے کہ پاکستان میں گزشتہ پچاس برس میں جتنے انتخابات ہوئے ہیں وہ موسمِ بہار، موسم ِخزاں یا موسمِ سرما میں ہوئے۔ مون سون یا برسات کے موسم میں یہاں انتخابات نہیں ہوئے۔ انتخابات کے لیے ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر یا فروری،مارچ نہایت مناسب موسم خیال کیا جاتا ہے۔ اس وقت اہم ملکی اداروں اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ انتخابات 25 جولائی کو ہی ہونے چاہئیں، اس کے باوجود ایک انجانا خدشہ موجود ہے کہ شاید انتخابات بروقت نہ ہو سکیں۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ بھی معطل کر دیا ہے جس میں لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے نامزدگی فارم کو مسترد کر کے نیا نامزدگی فارم بنانے کی ہدایت کی تھی۔ نیا نامزدگی فارم بنانے میں وقت لگ سکتا تھا، اس لیے یہ خدشہ تھا کہ الیکشن بروقت نہیں ہوں گے۔
(جاوید صدیقی۔نوائے وقت،4جون2018ء)
معاشرتی تربیت اور عادات و خصائل
ایک نہایت سادہ سی مثال یاد آرہی ہے جو میرے مشاہدے کی آسان وضاحت کردے گی۔ تعلیم کا عام تصور نصابی کتابیں پڑھنا، امتحانات پاس کرنا اور ڈگریاں ہاتھوں میں سجانا ہے، لیکن میرا تجربہ یہ ہے کہ اس تعلیم سے اس تربیت کا پہلو تشنہ رہ جاتا ہے جو استاد، والدین اور سب سے بڑھ کر معاشرہ انسان کی کرتا ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اور اسی سے معاشرتی کلچر پروان چڑھتا ہے اور عادات و خصائل سانچے میں ڈھلتے ہیں۔ معاشرے کا دبائو یا اخلاقی دبائو انسان کو خاصی حد تک ایسی حرکتوں سے روکتا ہے جنہیں ہم ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔ تربیت رویے کو پختہ بنانے اور عادات کو شخصیت کا حصہ بنانے میں اہم کردار انجام دیتی ہے۔ مثلاً میں گزشتہ چالیس دنوں سے امریکہ کے ایک قصبے میں سیاحت کے مزے لوٹ رہا ہوں۔ یہ قصبہ لاکھوں کی آبادی پر مشتمل ہے اور لاتعداد قصبوں سے جڑا ہوا ہے۔ چنانچہ آپ ایک ٹائون سے دوسرے ٹائون میں چلے جائیں تو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ اپنے قصبے سے دوسرے شہر میں آگئے ہیں۔ میں نے یہاں لاتعداد آبادیاں، محلے، سڑکیں، مارکیٹیں، پلازے، بڑے بڑے مال، اسکول، کالج، ہسپتال وغیرہ وغیرہ دیکھے ہیں اور حلفیہ بیان دے سکتا ہوں کہ کسی سڑک، گلی، محلے، مارکیٹ، ہوٹل یا ہسپتال میں کہیں بھی کوئی کاغذ کا ٹکڑا، لفافہ، پلاسٹک کا بیگ، سگریٹ کا ٹکڑا، خالی بوتل وغیرہ وغیرہ نہیں دیکھیں۔ حسرت ہی رہی کہ لوگ کھا پی کر خالی لفافے، بوتلیں یا خوراک کے ٹکڑے سڑکوں یا فٹ پاتھوں پر پھینکیں، لیکن تربیت اور معاشرتی دبائو کا یہ عالم ہے کہ ’’گند‘‘ صرف مخصوص ڈبوں یا ڈرموں میں ہی پھینکا جاتا ہے۔ حسرت ہی رہی کہ لوگ فٹ پاتھوں پر گاڑیاں کھڑی کرکے غائب ہوجائیں، سڑکوں کے کنارے غیر مجاز جگہوں پر گاڑیاں پارک کرکے ٹریفک کے بہائو کا راستہ روک دیں، لیکن میری یہ حسرتیں پوری نہ ہوسکیں اور انہی ادھوری حسرتوں کا سامان لے کر وطن واپس لوٹوں گا جہاں سڑکوں، گلیوں، محلوں، مارکیٹوں وغیرہ میں ہر طرف گند اور کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔
(ڈاکٹرصفدر محمود-29مئی2018ء)
ریحام کے پیچھے کون ہیں….؟
ریحام خان کی کتاب جس کی’’ٹائمنگ‘‘ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اس کے پیچھے بھی وہی لوگ ہیں جنہوں نے جمائما خان کو ٹائلز کی ’’اسمگلنگ‘‘ کے حوالے سے اسکینڈلائز کرنے کی قابلِ نفرت کوشش کی تھی۔ رہ گئیں ریحام خان، تو ضیا شاہد جیسا سینئر صحافی، جید دانش ور اور کئی کتابوں کا مصنف اپنی کتاب ’’باتیں سیاستدانوں کی‘‘ کے صفحات 365,364میں لکھتا ہے: ’’جنرل (ر) حمیدگل خاصے پریشان تھے۔ دو بار انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ اسلام آباد آئیں۔ عمران روزانہ ایک بار کنٹینر سے اتر کر بنی گالہ اپنے گھر جاتا ہے۔ آپ ان سے ملیں اور سمجھائیں کہ ہرگزہرگز اس عورت (ریحام خان) کے چکر میں نہ پڑے۔ مجھے نہیں معلوم حمید گل کی معلومات کا ذریعہ کیا تھا کیونکہ فون پر انہوں نے مجھے نہیں بتایا لیکن ان کے بیٹے عبداللہ گل نے باپ کی وفات کے بعد لاہور آکر میرے دفتر میں مجھے تفصیل بیان کی کہ ریحام خان شادی سے پہلے میرے والد حمیدگل سے ملنے ہمارے گھر آئی تھیں۔ میرے والد نے مجھ سمیت تمام لوگوں کو کمرے سے نکال کر علیحدگی میں ریحام سے بات کی۔ ملاقات ختم ہوئی اور ریحام جانے لگیں تو وہ بہت پریشان تھیں اور میرے پوچھنے پر میرے والد نے بتایا تھا کہ میں نے ریحام سے کہا ’’میں آپ کو نہیں جانتا لیکن کیا آپ فلاں فلاں شخص کو جانتی ہیں، اور کیا فلاں ادارے سے آپ کا تعلق نہیں رہا، اور کیا آپ کو پاکستان بھجوانے اور عمران سے ملانے میں فلاں فلاں اشخاص سرگرم نہیں رہے؟‘‘ عزیزم عبداللہ گل کے بقول ریحام خان اس پر اپ سیٹ ہوگئیں۔ عبداللہ گل کو یقین تھا کہ ریحام خان کو پتا چل گیا تھا کہ میرے والد اُن کی حقیقت کو پہچان گئے ہیں۔‘‘
(حسن نثار۔ 5جون2018ء)