پی ٹی سی ایل کے پنشنرز کے مسائل

گزشتہ دس سال سے پی ٹی سی ایل (PTCL) کے پنشنرز اپنے جائز حق کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے مقدمات جیتنے کے باوجود مارے مارے پھر رہے ہیں، اس عرصے میں دو ہزار سے زائد پنشنرز زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، باقی ماندہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں، مگر پی ٹی سی ایل کی نام نہاد برادر اسلامی ملک سے تعلق رکھنے والی انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، نہ ہی عدالتوں کو اپنے ہی فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کی کوئی جلدی معلوم ہوتی ہے، جبکہ ملک میں حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ انہیں عوام کی کوئی پروا ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنی اپنی بولی بولتے ہیں، ورنہ دس سال میں تیسری حکومت آرہی ہے۔ اپنی ہی ایک کمپنی جسے ایک نام نہاد برادر اسلامی ملک سے تعلق رکھنے والے سرمایہ دار گروپ کو انتظامی اختیارات کے ساتھ فروخت کیاگیا تھا، سے ان کے اپنے کیے ہوئے معاہدے پر عمل درآمد کرایا جارہا ہے، نہ ہی عدالتی فیصلوں پر عمل کرنے کے لیے کہا جارہا ہے، بلکہ دونوں حکمران جماعتیں یعنی پی پی پی اور نون لیگ نے اپنے اپنے دورِ حکومت میں اس مسئلے پر کچھ نہیں کیا۔ جبکہ یہ دونوں جماعتیں بحیثیت اپوزیشن جماعتوں کے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پی ٹی سی ایل پنشنرز سے متعلق پی ٹی سی ایل انتظامیہ کو معاہدے کے مطابق اور عدالتی فیصلوں کی رو سے عمل کرکے پی ٹی سی ایل پنشنرز کو مکمل پنشن مع سابقہ بقایاجات کے، ادائیگی کرنے کا کئی مرتبہ حکم جاری کرتی رہی ہیں، لیکن ساری پارلیمنٹ پر بھاری پی ٹی سی ایل کی یہ غیر ملکی انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ یہ ہے اوقات پارلیمنٹ کی اور اس کی بالادستی کی بات کرنے والوں کی، جنہیں اپنے ہی ملک کی ایک کمپنی کی غیر ملکی انتظامیہ خاطر نہیں لاتی، اور یہ سیاسی جماعتیں جو ہر وقت عوام کے سامنے خود کو ووٹ دینے کی بھیک مانگتی رہتی ہیں اور ’’خلائی مخلوق‘‘ کا رونا روتی رہتی ہیں اور ووٹ کی عزت کی بات کرتی ہیں لیکن حکومت میں ہوتے ہوئے بااختیار ہونے کے باوجود اپنے ہی عوام کو ان کا جائز حق دلانے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ یہ ہے منافقت، دوغلا پن۔ پی ٹی سی ایل کے بوڑھے پنشنرز، بیوائیں اور یتیم میڈیا سمیت تمام انصاف پسند شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم کے خلاف ہماری مدد کریں، کیونکہ ظالم اور بے رحم حکمران، جاہل اور مکمل بدعنوان عوامی نمائندے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر عوامی مفاد کو قربان کرتے ہیں اور انہیں نہ آخرت کی کوئی پروا ہے، نہ جوابدہی کا خوف ہے۔ بس چند دن کی زندگی کے گلیمر میں مست جانوروں کی طرح وقت گزار رہے ہیں۔ اور ان کو ووٹ دینے والے پی ٹی سی ایل کے پنشنرز عدالتوں میں سرخرو ہونے کے باوجود دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔ لہٰذا خوفِ خدا کے حامل تمام صاحبِ اختیار لوگوں سے دست بستہ التماس ہے کہ اس مسئلے پر ہمدردانہ غور فرما کر اسے فوراً حل فرمائیں اور پی ٹی سی ایل پنشنرز کو ان کا جائز حق دلوائیں۔
عبدالقیوم قریشی
شاہ لطیف چوک روہڑی

ماہ رمضان المبارک اور اسلامی ریاست

ڈاکٹر اسامہ شفیق
ماہِ رمضان المبارک کو عالم اسلام میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے، اور اس ماہِ مقدس کو یہ حیثیت قرآن حکیم کی وجہ سے حاصل ہوئی کہ جب رمضان المبارک کو قرآن کا مہینہ کہا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہر مذہب کی طرح اسلام کی بھی عبادات تو باقی رہ گئیں لیکن روحِ عبادت کہیں غائب ہوگئی یا نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ آج پوری دنیا میں ماہِ رمضان المبارک کو عبادات کے اہتمام کے ساتھ گزارا تو جاتا ہے لیکن روحِ عبادت یا اس ماہِ مقدس کا مقصد اوجھل ہے۔ قرآن حکیم محض تلاوت کرنے یا ثواب کی نیت سے تراویح میں سننے کی کتاب نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات (Code of Life) ہے کہ جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس ذمے داری کے ساتھ نازل کیا گیا کہ اس کو تمام ادیانِ باطل پر غالب کردیں۔ یہی وجہ تھی کہ کفارِ مکہ سے پہلا معرکہ بدر کے میدان میں اسی ماہِ مقدس میں ہوا۔ اس معرکے کا مقصد کتاب اللہ کا غلبہ تھا۔ اس کے بعد اسی ماہِ مقدس رمضان المبارک میں فتح مکہ اس بات کا اعلان تھا کہ قرآن کے مہینے میں ہی قرآن کو ادیانِ باطل پر غلبہ نصیب ہو۔ معرکہ بدر سے شروع ہونے والی کفار کے ساتھ کشمکش کا نقطہ آغاز اور نقطہ اختتام اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ قرآن کا پیغام غلبہ ہے۔ اس کے بعد دورِ خلافتِ راشدہ کے زیریں عہد یا متفقہ خلافتِ راشدہ کا اختتام بھی 21 رمضان المبارک کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے ساتھ ہوا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر انتشار امت کا مقدر بن گیا۔ خلافتِ راشدہ کے بعد ملوکیت اور پھر آمریت کے بدترین ادوار سے گزر کر چودہ سو سال کے بعد کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر پاکستان کی تشکیل ماہِ رمضان میں ہونا محض اتفاقی واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ چودہ سو سال کے بعد اگر کوئی اسلامی ریاست وجود میں آئے گی تو اس کا دستور قرآن و سنت کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ ستّر سال کی ریاست پاکستان اِس وقت بدترین دورِ انتشار سے گزر رہی ہے کہ جہاں سیاست، دفاع اور عدلیہ تینوں شعبوں میں پستی ہمارا مقدر ہے، اور بدقسمتی سے تینوں ادارے اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ ان تینوں اداروں اور خاص طور پر پاکستان کے عوام کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اس ملک کی بقا، سلامتی اور استحکام کا دارو مدار اس ریاست کے مقصد کی جانب پلٹنے میں ہے، اور وہ مقصد قرآن و سنت کی بالادستی کے سوا کچھ نہیں۔ آئندہ آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتیں ووٹ مانگنے کے لیے نت نئے نعرے لے کر آپ کے پاس آنے والی ہیں۔ آپ کا ووٹ کوئی ترقی کے نام پر حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، تو کوئی کرپشن کے خلاف… لیکن یاد رکھیں ترقی آزادی کی مکمل ضمانت نہیں ہے، ورنہ مادی ترقی کے بام عروج پر موجود جاپان ہی سپرپاور ہوتا۔ کرپشن کے خاتمے کی بات اور نعرے دلفریب ہیں، لیکن محض کرپشن فری معاشرے کا وجود کیا روایتی کرپٹ سیاست دانوں کی بدولت ممکن ہے؟
اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کا مستقبل بھی اسلام سے ہی وابستہ ہے۔ اگر کوئی چیز پاکستان کے استحکام، سلامتی و ترقی کی ضامن ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اور یہ بات سیاست، دفاع اور عدلیہ کے سرکردہ افراد کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی سمجھنا ہوگی اور اپنا حق رائے دہی سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہوگا۔

بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تُو مصطفوی ہے