ابو سعدی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تنہا بیل کسی گائوں میں ایک چھوٹے سے باڑے میں رہتا تھا۔ باڑے میں گھاس زیادہ نہیں اگتی تھی۔ باڑے کے گرد باڑ بہت پرانی اور گرنے کے قریب ہوچکی تھی۔ ہر روز بیل اپنے باڑے کے پار دیکھتا اور خواہش کرتا، کاش وہ کھل کر چراگاہ میں چل پھر سکتا اور تازہ گھاس چرسکتا۔ پھر وہ باڑ کو برا بھلا کہتا اور سوچتا کہ باڑ نہ ہوتی تو وہ اپنی مرضی سے ہر کام میں آزاد ہوتا۔ وہ خیال کرتا کہ اس میں صلاحیت اور استعداد ہے، لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ اصل مسئلہ باڑ نہیں۔ بیل کا وجود مضبوط تھا، جبکہ باڑ خستہ حال ہوچکی تھی۔ وہ اس کے کسی حصے کو توڑ کر باہر نکل سکتا تھا اور تنگ جگہ سے خود کو آزاد کرا سکتا تھا۔
جب وہ نوجوانی میں قدم رکھ رہا تھا، تو اتنا طاقت ور نہیں تھا۔ اُس وقت باڑ نئی اور مضبوط تھی۔ کئی سال پہلے اس نے اسے توڑنے کی کوشش کی تھی جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکا تھا۔ تب سے وہ خود سے کہتا:
’’کاش کہ باڑ نہ ہوتی، تو زندگی بہت آسان ہوتی۔‘‘
کاش، وہ اب ایک اور بار باڑ کو توڑنے کی کوشش کرتا تو اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوتا۔ اس نے کوشش نہیں کی اور وہ تنہائی میں ہی مر گیا۔ وہ اپنے محدود خیال کے باعث اپنی خواہش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ یہ وہم اس نے اپنی اوائل عمر میں ذہن میں بٹھا لیا تھا کہ اب وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
ہماری صورتِ حال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ہم اپنے ذہن میں اس قسم کے مفروضے گھڑ لیتے ہیں:
٭’’تم کبھی خود کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔‘‘
٭ ’’تم نے جوانی میں کوشش کی اور کامیاب نہ ہوسکے۔ اب کیسے ہوسکتے ہو!‘‘
٭ ’’ناکام لوگوں کی لمبی لائن میں تم بھی ایک ہو۔‘‘
٭ ’’یہ رکاوٹ کا قصور ہے، جس کے باعث تم کامیاب نہیں ہوئے۔‘‘
٭ ’’زندگی میں بس مایوسیوں اور ناکامیوں کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
٭ ’’تمہارے پاس ناکامی کے تمام جواز موجود ہیں۔ سو کوشش کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
شاید یہ وقت ہے کہ آپ باڑ کے ساتھ ایک بار پھر زور آزمائی کریں،
شاید یہ وقت ہے کہ آپ ماضی سے پیچھا چھڑا لیں،
شاید یہ وقت ہے کہ آپ اپنی استعداد کو استعمال کریں۔ بجائے اس کے کہ باقی ماندہ زندگی روتے رہیں اور حالات کا ماتم کرتے رہیں۔
صلہ
یہی کیا وفاداریوں کے صلے ہیں
تمنا تھی پھولوں کی، کانٹے ملے ہیں
بہار چمن پر نہ یوں مطمئن ہو
کچھ ایسے بھی غنچے ہیں جو بِن کھلے ہیں
کریں کس سے اپنی تباہی کا شکوہ
کہ خود رہنما رہزنوں سے ملے ہیں
(ابو المجاہد زاہد)
علم
علم ہی ہے جس کے باعث انسان کو زمین پر شرف وامتیاز حاصل ہے۔ چرند پرند اور دیگر حیوانات کو نہ وہ علم حاصل ہے اور نہ اس علم کو اخذ کرنے کی ان میں صلاحیت پائی جاتی ہے جس علم کو اخذ کرنے کی صلاحیت انسان میں ودیعت ہے۔ اسی صلاحیت کی بدولت انسان نے مادی اعتبار سے بڑی ترقی کی ہے۔ یہ ہوائی جہاز، ریل اور آمدورفت کے مختلف ذرائع اس نے فراہم کیے۔ فنِ تعمیرات اور ادب و ثقافت کے میدان میں بھی اس نے اپنی غیر معمولی صلاحیت کا ثبوت دیا ہے۔ سائنس کے میدان میں بھی اپنے تجربات وتحقیقات کے ذریعے اس نے برق اور ایٹمی توانائی کا پتا لگایا۔ فکرو نظر کے میدان میں بھی اس کے کارنامے ایسے ہیں جو کسی کرشمے سے کم نہیں ہیں۔
انسان بہ نسبت چرند و پرند اور دیگر حیوانات آج بھی زندگی کی اسی سطح پر برقرار ہیں جس سطح پر کروڑوں سال پہلے وہ اپنی زندگی بسر کررہے تھے۔
( ہندی مترجم القرآن الکریم مولانا محمد فاروق خان)
حق آیا اور باطل چلا گیا
دہلی میں ایجوکیشنل کانفرنس ہورہی تھی اور ڈپٹی نذیر احمد تقریر کررہے تھے۔ اتنے میں لارڈ کچنر بھی آگئے۔ مولوی صاحب چند منٹ تقریر کرکے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد لارڈ کچنر رخصت ہوئے تو مولوی صاحب پھر تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور اس آیت کے ساتھ تقریر شروع کی:
جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا
’’حق آیا اور باطل چلاگیا… بے شک باطل کو چلے جانا ہے‘‘۔
لارڈ کچنر عربی جانتے تھے، سمجھ گئے کہ بڈھے نے کیا خوب چوٹ کی ہے!