رمضان کریم کے دوسرے عشرے کے آخر میں سترہویں رمضان کو وہ اہم تاریخ ساز واقعہ پیش آیا جسے ہم یومِ بدر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف انسانی تہذیب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ رمضان کریم کی برکات کے حوالے سے بہت قابلِ غور ہے۔ اسلامی تاریخ میں بدر کی حیثیت ایسی ہے جیسے نبوت کے آغاز کے وقت قرآن پاک کے نزول کی ہے۔ قرآن پاک کے نزول نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز کیا، دینِ ابراہیمی کا احیاء ہوا۔ انسانیت کے لیے پیغام رحمت آیا۔ بدر کی فتح سے انسانی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا اور پوری انسانیت کو یہ معلوم ہوگیا کہ اب انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا۔ انسانوں کو اپنی حقیقی فلاح کے لیے کس دین کو اختیار کرنا ہوگا۔ انسان کا اخلاقی رویہ کن عالمگیر اصولوں کی پابندی کرے گا۔ مستقبل کا معاشی، سیاسی ، اخلاقی اور معاشرتی نظام کیا ہوگا۔ حق و انصاف کو کس طرح قائم کیا جائے گا۔ اس لحاظ سے یومِ بدر تاریخ کے ایک ایسے موڑ کی حیثیت رکھتا ہے جس نے نہ صرف امتِ مسلمہ کی سمت بلکہ پوری عالمی تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا اور تہذیب و ثقافت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
غزوۂ بدر کو ایک تاریخ ساز معرکہ سمجھنا اس کے وسیع تر معنیٰ کا صرف ایک پہلو ہے۔ یہ بلاشبہ حق و باطل کا ایک عظیم معرکہ تھا۔ ایک جانب مشرکانہ تہذیب و ثقافت کے علَم بردار ابوجہل اور عتبہ تھے، تو دوسری جانب توحید کے شیدائی عمرؓ اور علیؓ تھے۔ جاہلیت اور اسلام کی اس کشمکش اور ٹکرائو کا آغاز مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ جاہلی اور مشرکانہ تہذیب کے علَم برداروں نے اس نئی دعوت کو دبانے کی ہر ممکن کوششیں کیں لیکن ظلم و ستم کا ہر اقدام دعوتِ حق کو خائف اور پسپا کرنے میں ناکام رہا۔ اہلِ مکہ نے ہر حربہ استعمال کرلیا، وہ شام سے قصہ گو اور ناچ گانے والوں کو لائے تاکہ لوگ لہو و لعب میں مشغول ہوجائیں اور اسلام کی جانب متوجہ نہ ہوں۔ یاد رہے ثقافت کے نام پر فحاشی اور اخلاق باختہ جسم فروشی ہر دور میں شیطان اور طاغوت کا ایک مؤثر حربہ رہا ہے، آج مسلم ممالک ہوں یا مغربی لادینی دنیا… ہر معاشرے میں کلچر اور ثقافت کے نام پر انسانوں کو حق سے دور رکھنے اور لہو و لعب میں ڈبونے کے لیے برقی ابلاغ عامہ، اخبارات، رسائل، ویڈیو اور DVDکے ذریعے عریانیت کا فروغ حق و صداقت سے دور رکھنے کا ایک اہم عالمی حربہ ہے۔ اہلِ مکہ نے نہ صرف اس حربے کو اسلام کی دعوت کو روکنے کے لیے بھرپور طور پر استعمال کیا بلکہ داعیٔ اعظمؐ کو شہید کرنے کا منصوبہ بھی تیار کیا، لیکن ان کا کوئی حربہ بھی دعوتِ اسلام کو نہ روک سکا۔ ظلم بڑھتا گیا اور اسی تناسب سے اہلِ ایمان کے یقین و اعتماد میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہیں تپتی ہوئی ریت پر سینے پر بھاری پتھر کی سلیں رکھ کر گھسیٹا گیا، لیکن ظلم کی ہر ضرب کا جواب اللہُ اَحد کی صدا سے ملا۔ لیکن جب ظلم حد سے گزرنے لگا تو اصحابِ رسولؐ کو ہجرت کی اجازت دے دی گئی۔ گو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت تک مکہ میں مقیم رہے جب تک اللہ نے خود آپؐ کو اجازت نہ دی۔ آپؐ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد جو اصحاب حبشہ اور دیگر مقامات پر ہجرت کرگئے تھے اب مرکزِ اسلام کی طرف آنا شروع ہوئے۔
مکہ کے مشرکین جائز طور پر نوزائیدہ اسلامی ریاست سے خائف تھے اور یہ جانتے تھے کہ اگر اس دعوتِ حق کو سنبھلنے اور پھیلنے کا موقع دیا گیا تو یہ اپنی صداقت کی بنا پر جنگل کی آگ کی طرح پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ وہ جانتے تھے کہ دعوتِ اسلامی کے شجرِ طیبہ کو اگر جڑیں پکڑنے دی گئیں تو یہ نہ صرف زمین میں پیوستہ ہوجائے گی بلکہ اس سے نکلنے والا تناور درخت اردگرد کی تمام فضا کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لے گا اور پھر کفر و ظلم کی شدید مخالفت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ اس لیے تلاش میں تھے کہ جیسے ہی کوئی موقع ملے اس ابھرتی ہوئی تحریک کو اپنی منظم سازشوں کا ہدف بنائیں۔
اس نفسیاتی پس منظر میں اگر معرکۂ بدر پر نظر ڈالی جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک جانب کفر اورجہالت کی قوتیں اپنی سازباز، منصوبہ بندی، مکر اور تیاریوں میں لگی ہوئی تھیں کہ حق کی دعوت کو اس کے ارتقائی مرحلے ہی میں موت کی نیند سلادیں، تو دوسری جانب وہ جو خیرالماکرین ہے، جس کی تدبیر اور حکمت عملی ہر دشمنِ دین کی منصوبہ بندی پر غالب آتی ہے، اہلِ ایمان کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ کس طرح کم تعداد میں ہونے کے باوجود حق و صداقت کے داعی اور دین کے جاں فروش اپنے سے کئی گنا زیادہ جمعیت کو قوتِ ایمانی سے شکست دے سکتے ہیں۔ یہ معرکہ مادی قوتوں کے درمیان نہ تھا، بلکہ ایک جانب مادی لحاظ سے ایک مسلح اور تربیت یافتہ جنگجو افراد کا لشکر، اور دوسری جانب خستہ حال اہلِ ایمان جن میں سے کسی کے پاس تلوار تھی تو خود نہ تھا، نیزہ تھا تو زرہ نہ تھی، گھوڑا تھا تو زین نہ تھی، پاپیادہ افراد کے پاس بھی مناسب جوتے نہ تھے، غرض یہ مقابلہ مادی طاقتوں کے درمیان نہ تھا بلکہ دو نظریات، دو عقائد، دو نظامِ حیات اور دو طرزعمل تھے جو ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ ایک تکبر، قبائلی فخر و غرور سے سرشار تھا، دوسری جانب اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والے عابد بندے، جن کا سہارا اگر کوئی تھا تو صرف ان کا رب تھا۔ ان کے سربراہ حلم و محبت کے مجسمے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ایک جانب جاہلی تہذیب تھی تو دوسری جانب توحیدی تہذیب کے متوالے… اس معرکہ میں یہ طے ہونے جارہا تھا کہ حقیقی کامیابی کی بنیاد quality ہوگی یا quantity۔ آئندہ دنیا کا نظام مشرکانہ ہوگا، یا توحیدی روایت ایک ایسی تہذیب کو پروان چڑھائے گی جو عالم انسانیت کے لیے رحمت بن کر اسے اپنے دامن میں لے لے۔
مشرکین مکہ مدینہ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو، اہلِ ایمان کی اس جماعت کو اپنے لیے سب سے بڑا نظریاتی خطرہ تصور کررہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اس بات کا احساس بھی تھا کہ مدینہ ایک ایسی شاہراہ پر واقع ہے جو تجارتی قافلوں کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر مدینہ اسلام کا مرکز بن گیا تو انہیں یہ خطرہ تھا کہ مدینہ کی اسلامی ریاست جب چاہے اس تجارتی شاہراہ کو بند کرکے ان کے تجارتی اور معاشی ذرائع کو مسدود کرسکتی ہے۔ قریش بنیادی طور پر ایک مادہ پرست، تاجر اور منفعت حاصل کرنے والی قوم تھی۔ ان کی مکہ میں قوت کی بنیاد تجارت ہی تو تھی۔ ان کے تجارتی قافلے شام، عراق اور روم اور فارس تک جاتے تھے۔ مدینہ کی شاہراہ کا مسلمانوں کے قبضے میں آجانا ان کے لیے کسی قیمت پر بھی قابلِ قبول نہ تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے نتیجے میں مدینہ میں جو صورت حال پیدا ہوگئی تھی وہ بھی مشرکین مکہ کے لیے بہت تشویش کا باعث تھی۔ مدینہ آنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ساتھ ایک دستاویز ’’میثاق مدینہ‘‘ کے ذریعے معاہدہ کیا جس میں آپؐ کو مدینہ کا سربراہ تسلیم کیا گیا، یہ طے پایا کہ اگر مدینہ پر کوئی حملہ ہوا تو مدینہ کے دفاع میں یہود بھی برابر کے شریک ہوں گے۔ مدینہ کے انصار پہلے ہی مہاجرین کے ساتھ مواخاۃکے ذریعے ایک دینی اخوت میں جڑ چکے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ یہود کا معاہدہ کرنا ایک ایسے Alliance کو وجود میں لے آیا تھا جو مشرکینِ مکہ کے نکتہ نظر سے ایک بڑا خطرہ تھا۔ اس لیے مشرکین کی خواہش تھی کہ قبل اس کے کہ مدینہ ایک مستحکم ریاست بنے، اسے کمزور کردیا جائے۔
اسلام کا مدینہ میں آکر پروان چڑھنا اور پھیلنا ایک فطری عمل تھا۔ یہ عیسائیت یا ہندوازم کی طرح ایک مذہب نہ تھا بلکہ روزِ اوّل سے اپنے بارے میں یہ اعلان کررہا تھا کہ یہ دینِ حق، دینِ مبین اور دینِ فطرت ہے۔ یہ چند نئی عبادات اور رسوم سکھانے نہیں آیا بلکہ پوری انسانیت کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لیے ایک جامع اور مکمل دین کی شکل میں بھیجا گیا ہے۔ اسلام کی دعوت اپنی سادگی اور جامعیت کی بنا پر عربوں کی جاہلی تہذیب کی بالکل ضد تھی۔ یہ بتوں کی پوجا کی جگہ چند نئے مراسم عبودیت کا نام نہ تھا، بلکہ زندگی کے معاملات میں بنیادی تبدیلی پیدا کرنے کی دعوت تھی۔ کل تک عرب اپنے نام، نسب اور قبیلہ کی برتری پر فخر کرتے تھے۔ اس دین کے ماننے والے کے لیے اصل وجۂ امتیاز اللہ کا قرب اور تقویٰ تھا۔ جو اللہ کی بندگی میں آگے تھا وہی معاشرے کا ممتاز فرد تھا۔ یہاں بلال حبشیؓ ہوں یا سلمان فارسیؓ… ان کا ماضی میں غلام ہونا باعثِ ننگ نہ تھا، ان کے اسلام نے ان کا مقام نجیب الطرفین عربوں سے بلند کردیا تھا۔
مدینہ میں اسلام کی آمد اور نظام عدل کے قیام نے انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ اب طبقاتی اور قبائلی نظام کی جگہ نظامِ عدل کا دور ہوگا تاکہ انسانیت فلاح اور کامرانی کے صحیح مفہوم سے آگاہ ہوسکے۔
گویا مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام اسلام کے اصولوں کے قابلِ عمل ہونے کی تصدیق کے لیے ایک تجربہ گاہ کا فراہم کیا جانا تھا، اور اس حیثیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلامی جماعت کو منظم فرمانا، آپؐ کا اس مختصر سی جماعت کے اہلِ ایمان کی تربیت کرنے کے بعد اُن میں مستقبل کے مطالبات، خطرات اور امکانات کے مقابلے کی صلاحیت پیدا کردینا ایک انقلابی عمل تھا۔ مشرکین کے لیے اس عمل کا جاری رہنا اُن کے اپنے وجود کے لیے ایک بڑا خطرہ تھا۔ یومِ بدر کے تناظر میں اہلِ مکہ، مشرکین اور قبائل نے جب مجموعی طور پر یہ محسوس کیا کہ اسلام محض ایک عقیدہ نہیں ہے بلکہ ایک نظام عمل ہے، ایک ایسا نظریہ ہے جو انسانوں کے مسائل حل کرتا ہے، تو یہ فطری بات تھی کہ وہ اس پودے کو اکھاڑ دینے کے لیے، اس کو مزید ترقی سے روکنے کے لیے اپنی تمام قوت کے ساتھ میدانِ عمل میں اتر آئے۔
بدر کا معرکہ رمضان کی سترہویں تاریخ کو پیش آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کے ساتھ بدر کے مقام پر جو مدینہ منورہ سے تقریباً سترہ میل کے فاصلے پر تھا، تشریف لے جاتے ہیں اور پورا اہتمام فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی اس جمعیت کو جو بڑی محدود تھی، ایسے انداز میں مرتب کیا جائے کہ Strategically کم ہونے کے باوجود یہ دشمن کی کثیر تعداد پر غالب آسکیں۔ چنانچہ کوشش کی گئی کہ ایسا مقام منتخب کیا جائے جہاں پر زمین ریتیلی نہ ہو اور اس کے قریب کنواں یا چشمہ ہو، تاکہ پانی کی فراہمی منقطع نہ ہو۔ ان تمام پہلوئوں کے جائزے کے بعد جنگ کا آغاز ہوتا ہے، لیکن جنگ کا آغاز جس انداز میں ہوتا ہے وہ عجیب و غریب ہے۔ ایک طرف ایسے افراد ہیں جن کے پاس نہ عمدہ اسلحہ ہے، نہ اُن کے پاس بہترین گھوڑے ہیں، نہ اُن کے پاس بہترین زرہ ہے، نہ اُن کے پاس بہترین خود ہیں… یہ پیوند لگے کپڑوں میں ملبوس اپنے رب کی محبت اور شوقِ شہادت سے سرشار پُرجوش عباد اللہ کی جماعت جس میں کسی کے پاس اگر نیزہ ہے تو تلوار نہیں ہے، کسی کے پاس تلوار ہے تو ترکش نہیں ہے۔ اس بے سرو سامانی کے ساتھ اس غزوہ کا آغاز ہوتا ہے، لیکن یہی وہ غزوہ ہے جس کے حوالے سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جو ارشاد فرمایا وہ ہمارے لیے قیامت تک کے لیے غور اور توجہ کا مستحق ہے۔ قرآن پاک میں یہ بات فرمائی جاتی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو اپنا رب مانا۔ ان الذین قالو ربنااللہ… ولکم فیہا ما تدعون۔ (حم السجدہ 14: 30۔31) ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہوگے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کروگے وہ تمہاری ہوگی۔‘‘ نفسیاتی طور پر اہل ایمان کے اعتماد میں اضافہ ہو اور مشرکین نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھیں۔ بدر کے میدان میں اترنے والے تین سو سے کچھ اوپر افراد کے لیے یہ معرکہ اسلامی ریاست کی حیات و بقا سے براہِ راست وابستہ تھا، جیسا کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں اظہار ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل صحیح فرمایا تھا کہ اے رب اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت ضائع ہوگئی تو پھر عرصہ تک اللہ کا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ ان تین سو کے لگ بھگ اہلِ حق پر وہ سکینت نازل کی گئی جو اہلِ ایمان کی کامیابی کا سبب بنی اور مہاجرین و انصار کی اس جماعت نے مشرکینِ مکہ کی تعداد کی کثرت سے بے پروا ہوکر دینِ حق کے دفاع اور تحفظ کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی۔
رمضان کے اس دوسرے عشرے میں جو مغفرت کا عشرہ ہے، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو اس پہلے غزوہ میں یہ توفیق بخشی کہ وہ اس معرکۂ جہاد کے ذریعے ان کی ماضی کی ہر بھول چوک کو معاف کردے۔ یہ پہلا غزوہ ہے جو اس بات کا اعلان تھا کہ امتِ مسلمہ اب محض اپنی مدافعت نہیں کرے گی بلکہ وہ آگے بڑھ کر اس دین کے لیے جب ضرورت پیش آئے گی قوت کا استعمال بھی کرے گی۔ جن کو مکہ سے نکالا گیا تھا وہ اب مظلوم بن کر نہیں رہیں گے، حق کا دور آگیا اور باطل کا دور ختم ہوگیا، کیونکہ فتح آخرکار حق کی ہی ہونی تھی۔ یہ اصول بھی طے پاگیا کہ معرکۂ حق و باطل میں آئندہ فیصلے کی بنیاد کثرت یا قلتِ تعداد نہیں ہوگی۔ اگر اہلِ ایمان تعداد میں کم ہوں لیکن ایمان، عملِ صالح، عدل اور اللہ کی بندگی میں بڑھ کر ہوں تو کامیابی اہلِ ایمان ہی کا مقدر ہوگی۔ ’’اے نبیؐ مومنوں کو جنگ پر اُبھارو، اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے، اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے، کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ ‘‘ (الانفال 8:65)
رمضان کے مبارک مہینے میں اس غزوہ کا ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ رمضان میں قوتِ کار میں کمی ہوجاتی ہے۔ جہاد جیسے پُرمشقت مرحلے سے مسلمانوں کا کامیابی سے گزرنا ظاہر کرتا ہے کہ روزے سے قوتِ ایمانی میں اضافے کی وجہ سے جسمانی فعالیت اور قوت میں اضافہ ہی ہوتا ہے، کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
یوم بدر ہر سال رمضان کی 17تاریخ کو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب اہلِ ایمان اپنی نیتوں کو اللہ کے لیے خالص کرکے صرف اس کے دین کی سربلندی کی خاطر جہاد کے لیے نکلتے ہیں تو قلتِ تعداد کے باوجود وہ اپنے سے کئی گنا زیادہ تعداد والے دشمن پر غالب آتے ہیں۔ اسلام تعداد سے زیادہ قوتِ کردار کو اہمیت دیتا ہے۔ اگر ایمان قوی ہو، نیت پاک ہو اور منزل کا شعور ہو تو پھر اللہ کی طرف سے غیبی امداد کا آنا یقینی ہوجاتا ہے۔ آج جب مسلمان دنیا کے بہت سے علاقوں میں اپنے آپ کو ’’اقلیت‘‘ سمجھتے ہیں اور اس بنا پر عموماً دب کر، محض بعض حقوق کی بھیک مانگنے پر مطمئن ہوجاتے ہیں، ان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر بدر کے موقع پر تعداد میں کم مسلمان زیادہ مسلح اور تعداد والوں پر غالب آسکتے ہیں تو آج یہ تاریخ کیوں نہیں دہرائی جاسکتی۔
تعداد میں کم ہونے کو اپنی کمزوری سمجھنا ہماری فہم کی غلامی (intellectual slavery) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام معیار کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ دنیا کے انقلابات پر ایک نظر ڈالی جائے تو یوں نظر آتا ہے کہ گو تعداد اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے لیکن انقلابات کے واقع ہونے کا اصل سبب گنتی کے وہ چند افراد ہی ہوتے ہیں جو اپنے مقصدِ حیات کے حصول کے لیے جان کی بازی لگاتے ہیں، یہی ’’تعمیری اقلیت‘‘ انقلاب برپا کرتی ہے اور پھر لوگ ساتھ شامل ہوجاتے ہیں۔ افراد کی قلت یا کثرت کامیابی کی بنیاد نہیں ہوسکتی۔ اصل اور فیصلہ کن بنیاد قوتِ ایمانی، سوچی سمجھی حکمت عملی، جماعت کی صحیح تنظیم بندی اور ترجیحات کا تعین، اور اللہ کے سامنے استغفار کرتے ہوئے اس سے خصوصی امداد کی درخواست ہے جو نتائج کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ آج جب ہم عالمِ اسلام کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کا مقابلہ سرمایہ دارانہ ممالک کے ساتھ کرتے ہیں تو یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مسلمان ممالک پسماندہ کیوں ہیں حالانکہ تعداد کے لحاظ سے وہ دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی ہیں، نہ صرف یہ بلکہ جن ممالک میں مسلمان 90 فیصد سے زیادہ ہیں وہاں بھی وہ کثرتِ تعداد کے باوجود مقابلتاً سرمایہ دارانہ ممالک سے مادی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں۔
بات بہت آسان سی ہے، اگر غیر مسلم اقوام عقل، مستقل مزاجی، محنت اور پابندیٔ وقت کے ساتھ اپنی فنی صلاحیتوں کا استعمال کریں، منصوبہ بندی کرنے کے ساتھ منصوبوں کی تکمیل میں محنت اور لگن سے کام کریں تو کیا اللہ تعالیٰ نے جو قوانینِ فطرت بنائے ہیں وہ کام کرنا چھوڑ دیں گے؟ اگر ایک شخص اپنے کھیت کی زمین کو تیار کرے، صحیح قسم کے بیج حاصل کرے، اسے مناسب کھاد اور پانی دے، اس کی دیکھ بھال کرے تو کیا بیج پھل دینے سے انکار کردے گا؟ دوسری جانب مسلم دنیا کا حال اگر یہ ہو کہ قیادت غیر مخلص، نیت غیر صالح، محنت اور مناسب منصوبہ بندی کا فقدان، وسائل کا غلط استعمال ہو تو کیا اس بدنظمی کے باوجود مسلم دنیا میں ترقی ہونی چاہیے؟
ہاں اگر مسلمان تعداد میں کم ہوں لیکن صلاحیت، محنت اور ایمان سے مالامال ہوں تو کم تعداد میں ہونے کے باوجود وہ مخالف کی اکثریت پر غالب ہوں گے، یہ اللہ کا وعدہ ہے۔
رمضان المبارک میں یوم البدر تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے خصوصی طور پر پیغام دیتا ہے کہ مخالف کی تعداد سے کبھی نہ گھبرایا جائے، نہ مایوسی کو آس پاس آنے دیں، نہ خوف محسوس کریں، کیونکہ اللہ کے دینِ مبین کے لیے جدوجہد اگر خلوص کے ساتھ ہو تو رب کریم دلوں کو سکون اور قدموں کو ثبات عطا فرماتا ہے۔ اگر کہیں ناامیدی اور مایوسی پیدا ہورہی ہو کہ ستّر ستّر سال تک دعوتی کام کرنے کے بعد بھی تبدیلیٔ قیادت کا عمل مکمل نہ ہوا ہو تو دل میں جھانک کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہوگی کہ کیا واقعی جس درجے کی قربانی، محنت، انفاق فی سبیل اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کرنے کی ضرورت ہے کیا ہم نے اس کا حق ادا کیا؟ کیا ہم اللہ کی راہ میں اپنے وقت اور قوتِ کار کا اتنا حصہ لگا رہے ہیں جتنا اس کا حق ہے؟ یا شہادتِ حق کو محض تقاریر اور تربیت گاہوں کے پُرسکون اور محفوظ ماحول تک محدود رکھنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ باطل بغیر اپنی شاطرانہ چالوں کے، بغیر کسی مزاحمت کے خودبخود میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گا، یا ہمارے استقبال کے لیے آگے بڑھ کر اقتدار کی کنجی ہمارے حوالے کردے گا؟ کیا تحریکاتِ اسلامی کے کارکن بھول جاتے ہیں کہ مصر میں تحریکِ اسلامی نے 70 سال قید و بند اور پھانسی اور قتلِ عام کی آزمائش سے گزرنے کے بعد ابھی حد سے حد ایک سال جمہوری طرز کی حکومت کو چلانا چاہا تو عوام کی حمایت کے باوجود طاغوت کی نمائندہ مصر کی فوج، انتظامیہ اور عدلیہ نے مل کر دوبارہ فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری عمل کا اسقاط کرنا اپنا فرض سمجھا اور اس پورے غیر انسانی عمل کو ہر وقت جمہوریت کا وظیفہ پڑھنے والی نام نہاد ایک قطبی طاقت نے بھی ٹھنڈے سانسوں نہ صرف برداشت کیا بلکہ فوجی بغاوت کرنے والوں کی مالی امداد کی ادائیگی بلاتاخیر کردی۔ طاغوت کی یہ متوقع منصوبہ بندی اور حکمت عملی ہر دور میں اور ہر مقام پر انسانی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔ اس لیے تحریکاتِ اسلامی کے سربراہ ہوں یا کارکن، ان کو اس طرح کے سیاہ اقدامات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ان اقدامات کے نتیجے میں اپنی سرگرمی میں اضافہ اور اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت کی جدوجہد میں مزید سرگرمی اختیار کرنی چاہیے۔
مصر کے تناظر میں جب اسلام پسند افراد نے جمہوری ذرائع سے عوامی حمایت کے ساتھ اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لیا تو طاغوت اور کفر نے مل کر ان کے خلاف سازش کی اور انہیں دوبارہ آزمائش و ابتلا اور نفس اور مال کے شدید ترین خطرات میں ڈال دیا۔ کیا اس قسم کی آزمائش سے آج تک سوڈان یا پاکستان کو سامنا درپیش ہوا؟ جو کچھ بنگلہ دیش میں تحریکِ اسلامی کے ساتھ کیا گیا، کیا اس کا پچاس فیصد بھی پاکستان میں تحریکِ اسلامی کو پیش آیا ہے؟ پھر قانونِ الٰہی کے مکمل ادراک کے بغیر یہ سوچنا کہ آخر اسلامی انقلاب کب آئے گا، ناسمجھی نہیں تو اور کیا ہے؟ محنت مشقت، ایثار و قربانی اور اپنے وقت، مال اور صلاحیت مکمل طور پر لگائے بغیر خلافت جو ایک انعامِ الٰہی ہے، نہیں مل سکتی۔ بدر کا ہر غازی اور ہر شہید اپنی متاعِ جان و دل لگانے کے بعد جب اللہ سے ملتمس ہوا تو نتائج فوراً سامنے آگئے۔ یوم ِ بدر کے اسی پیغام ایثار و قربانی کو سمجھنے اور تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد غیبی امداد کا آنا ممکن نہیں، یقینی ہے۔
قرآن کریم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم سے پہلے انبیاء کرام کو ماننے والوں نے بار بار یہ سوال اٹھایا تھا کہ ’’متیٰ نصراللہ‘‘ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ بہت سی تحریکاتِ اسلامی کے کارکن اگر دھوپ یا بارش میں کسی چوک پر جاکر چند مطالبات کرتے ہیں یا ایک مظاہرہ کرتے ہیں جس میں ان کے قائدین تقاریر کرتے ہیں، تو کیا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ وہ جو اپنی مخلوق اور عباد سے سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ہے اپنے بندوں کے اس عمل سے خوش ہوکر انہیں مقامِ قیادت پر فائز کردے! کیا مظاہروں اور دھرنوں کو ایسی مشقت کہا جاسکتا ہے جو اتنے بڑے انعام کا مستحق بنادے؟ کیا مصر میں ایک دن میں ایک ہزار تحریکی کارکنوں، ہمدردوں، بچوں، خواتین، بوڑھوں اور جوانوں کا مصری فوج کی سفاکی سے شہید کیا جانا اور پھر اگلے دن مزید تین سو افراد کا شہید کیا جانا، ہزارہا مظاہرین کا زخمی کیا جانا اور ایک پُرامن دھرنا یا پارلیمنٹ میں ایک بیان اور تقریر برابر ہوسکتے ہیں؟ اللہ کی مدد کا زیادہ مستحق کون ہے؟ وہ جو پُرامن اور پُرسکون ماحول میں دعوت دے رہے ہیں، یا وہ جو اپنے خون سے تحریک کی تاریخ لکھ رہے ہیں۔
کہنے کا مدعا یہ نہیں ہے کہ جب تک ہزارہا افراد شہید نہ ہوں منزل قریب نہیں آئے گی۔ ہمیں صرف یہ کہنا ہے کہ رب کریم سے قیامِ نظامِ اسلامی کی دعا اور درخواست کے ساتھ بعض لوازمات کا ہونا بھی ضروری ہے۔ خلوصِ نیت، ایثار و قربانی کا وہ معیار جو رحمتِ الٰہی کو جوش میں لے آئے شرطِ کامیابی ہے۔ اہداف کا نئے سرے سے مرتب کرنا، وقت کا جائزہ اور موقع کے لحاظ سے اقدامات کا ہر وقت کیا جانا ایک اہم شرط ہے۔ یومِ بدر اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ جب تک کُل متاعِ حیات بازی پر نہیں لگے گی متوقع نتائج بھی سامنے نہیں آسکتے۔
یہ اہم واقعہ جس نے تاریخ کا رخ تبدیل کیا، دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی دعوت کے معیار، اپنے ایثار و قربانی کے معیار، اپنے وسائل و ذرائع کے معیار اور اپنی منصوبہ بندی کے معیار کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہماری جدوجہد کا معیار کیا ہے اور معیارِ مطلوب سے کس حد تک قریب ہے۔ کیا اللہ کی رحمت کو جوش میں لانے کے لیے جس پیمانے کے فقر، توکل، جہاد اور سعی کی ضرورت ہے، جس مستقل مزاجی کے ساتھ اور جس صبر کے معیار کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہیے ہم اس معیار پر پورے اترنے کے قابل ہیں، یا اپنے پائوں گرد آلود کیے اور خاردار وادیوں سے گزرتے ہوئے خون آلود ہوئے بغیر نشانِ منزل پر پہنچ جانے کی امید لیے بیٹھے ہیں۔ قرآن کریم کا ابدی اصول ہے کہ اگر اہل ایمان میں سے صرف بیس صابرین ہوں تو اپنے سے دس گنا زیادہ تعداد کے اوپر غالب آئیں گے۔ اور یہاں پر صابرین کی جو اصطلاح ہے کہ بیس صابرین دو سو پر غالب ہوجائیں گے ان سے مراد بیس مجاہدین ہیں جو اسلام کے علَم بردار ہوں، استقامت اور توکل کے ساتھ، سوچی سمجھی حکمت عملی اور وسائل کی تیاری کے ساتھ بلا خوف و خطر دین کے راستے میں نکل پڑیں اور جم کر اپنے سے کہیں بڑی تعداد والے مخالفین کے سامنے صف آراء ہوجائیں۔ یہ صبر کرنے والے، ڈٹ جانے والے نہ تو سامراجی فکر کے غلام ہوتے ہیں، نہ غیر مسلم ثقافتوں اور طور طریقوں کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ کفر اور شرک سے مفاہمت نہیں کرتے، ہاں حکمت کا تقاضا ہو تو لازمی طور پر ایسے وقتی Allainceکو حرام نہیں سمجھتے جس کا ہدف اسلام کا غلبہ ہو، جس طرح مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتی حکمت عملی کے طور پر میثاق مدینہ یا مشرکین کے ساتھ حدیبیہ کا معاہدہ فرمایا۔ بنیادی بات جو سمجھنے کی ہے وہ اہلِ ایمان کی جماعت کا خلوصِ دل کے ساتھ بغیر کسی مداہنت، احساسِ کمتری، ذہنی غلامی اور مرعوبیت کے طاغوت، کفر اور ظلم کی قوتوں کے خلاف سوچی سمجھی حکمت عملی تیار کرنا، اسے مدارج میں تقسیم کرنا اور ہر درجہ کے لحاظ سے افرادی قوت کو صحیح تربیت دینے کے بعد میدانِ عمل میں لانا ہے۔ اس کے بعد نتائج کو اللہ پر چھوڑ دینا ہی توکل ہے۔ اس کے بعد نہ کبھی مایوسی پیدا ہوگی، نہ ناامیدی آس پاس آسکے گی، نہ کارکن یہ کہیں گے آخر کب تک بھاگ دوڑ؟ منزل کب آئے گی؟ اللہ کی مدد کیوں نہیں آتی؟
یہ بات بھی بدر کا واقعہ سکھاتا ہے کہ اگر اللہ نے اس دنیا میں منزل تک نہیں بھی پہنچایا تو اس کا آخرت کا اجر تو کہیں گیا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل کامیابی تو یہی ہے کہ دوسری زندگی میں اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ میرا یہ بندہ صرف میرے لیے دنیا کے سارے افراد سے کٹا اور لڑا، اور صرف میرے لیے اُن سے جڑا جو اللہ سے محبت رکھتے تھے۔
’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے (ہاتھ) روک رکھا۔ اس نے اپنے ایمان کو مکمل کیا۔‘‘ (عن ابو امامہ، بخاری)
حقیقی کامیابی اور فتح حاصل کرنے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اپنے گھوڑوں کو ہر لمحہ تیار رکھیں (الانفال 8:60)۔ یہ نہ صرف مقابلے کے لیے بلکہ مخالف کو سازشوں اور زیادتی سے باز رکھنے کے لیے بطور ایک diterrentکے لیے بھی ضروری ہے۔ تحریکاتِ اسلامی کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ان کے فکری گھوڑے، ان کے عملی گھوڑے، ان کے وہ حکمت کے گھوڑے، ان کے وہ تمام وسائل جو اس راہ میں استعمال ہوسکتے ہیں کیا ان کو صحیح طور پر mobilizeکیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا امداد کا وعدہ سچا ہے اور کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ یہ قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ جب ہم اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرکے اپنے گھوڑوں کو تیار کرکے اللہ کی راہ میں نکلیں گے تو اللہ تعالیٰ انتہائی کرم فرمائے گا، اس کی نصرت اور امداد سے تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہم بڑی اقوام پر غالب آسکیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ افغانستان میں، اور بہت سے مقامات پر انتہائی کم ہونے کے باوجود جن مجاہدین نے اللہ پر بھروسا کرکے اس وقت کی دنیا کی ایک بڑی طاقت سے ٹکر لی، کامیاب ہوسکے۔ سابقہ متحدہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کا ایک سبب جہادِ افغانستان کی وہ ضرب تھی جس نے ایک محدود تعداد میں بغیر تیاری کے، بغیر تربیت کے اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے جہاد کرنے والوں کو کامیاب کیا۔ گویا آج بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا کیا جائے اور خلوصِ نیت کے ساتھ کام کیا جائے تو کم تعداد کے باوجود کامیابی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
یوم بدر کو ہر سال رمضان ہی میں نہیں ہر یونیورسٹی کے کیمپس پر، ہر تحریکی تربیت گاہ میں اس کے مکمل تناظر میں نہ صرف گفتگو کی حد تک بلکہ ایسی سرگرمیوں کی شکل میں منانے کی ضرورت ہے جو کارکنوں کو عظیم تر جہاد کے لیے تیار کرسکیں۔
(ماخوذ: روزہ اور ہماری زندگی)