نگراں حکومت کو درپیش چیلنج

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ناصرالملک نگران وزیراعظم نامزد ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف دونوں نے اس نام پر اتفاق کیا ہے۔ سیاسی حلقے اس فیصلے کو سرپرائز سمجھ رہے ہیں، لیکن یہ سرپرائز نہیں ہے، بلکہ اصل سرپرائز تو نگران وزیراعظم دیں گے۔ جسٹس(ر) ناصرالملک کا نام مسلم لیگ(ن) نے دیا تھا، لیکن بعد میں وہ اس پر خاموش رہی اور اپوزیشن کے دیے ہوئے نام کو آگے بڑھاتی رہی، عین اُس وقت جب جسٹس(ر) تصدق جیلانی کے نام پر اتفاق ہونے جارہا تھا پیپلز پارٹی نے پینترا بدلا اور اپنا کندھا فراہم کرکے جسٹس(ر) ناصرالملک کے گم شدہ نام کو آگے بڑھا دیا۔ جسٹس(ر) ناصرالملک کے نام پر اتفاق پیپلزپارٹی کا اپنا فیصلہ نہیں تھا۔ جسٹس(ر) ناصرالملک اور جسٹس(ر) تصدق جیلانی میں فرق یہ ہے کہ جسٹس(ر) تصدق جیلانی دباؤ برداشت کرتے تھے، جب کہ نگران وزیراعظم کے حوالے سے یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک کال پر ڈھیر ہوجائیں۔ اس کے باوجود جب وقت آگے بڑھے گا تو جسٹس ناصرالملک کی نامزدگی سیاسی جماعتوں کو حیران بھی کرسکتی ہے۔ رواں ہفتے نگران وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھاکر منصب سنبھال چکے ہوں گے، ان کا پہلا ہفتہ تو بریفنگ میں گزرے گا، صوبائی نگران حکومتوں کی مشاورت کے بعد ہی انتخابی شیڈول دیا جائے گا۔ نگران حکومت کو سب سے اہم بریفنگ الیکشن کمیشن دے گا۔ اگرچہ عام انتخابات کے لیے 25 جولائی کی تاریخ سامنے آرہی ہے، لیکن یہ حتمی نہیں ہے۔ حتمی فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاقِ رائے کے بعد ہوگا۔
نگران حکومت آئینی لحاظ سے صرف روزمرہ کے لازمی امور ہی نمٹاتی ہے، لیکن اِس بار کچھ نیا ہونے جارہا ہے۔ نگران حکومت کے لیے اختیارات بھی سوچے جارہے ہیں۔ چونکہ اس کی بنیادی ذمے داری تو انتخابات کرانا ہے، لیکن امن و امان کی صورتِ حال بھی اُسے مدنظر رکھنا ہوگی۔ سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی میں الیکشن کمیشن کے سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد نے درخواست کی ہے کہ ان کے پاس کچھ حساس معلومات ہیں، لہٰذا اگر انہیں اِن کیمرہ اجلاس کی سہولت فراہم کی جائے تو یہ معلومات وہاں بتائی جاسکتی ہیں۔ امکان ہے کہ سینیٹ کی کسی کمیٹی یا ایوان کا اِن کیمرہ اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کی بات نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ خدشہ ہے عالمی قوتیں انتخابات سبوتاژ کرسکتی ہیں، لہٰذا ہمیں عام انتخابات کے موقع پر بڑے پیمانے پر سیکورٹی خطرات ہیں۔ یہ صورتِ حال الیکشن کمیشن کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ صوبوں کی طرف سے سیکورٹی کے لیے فوج کی خدمات بھی لی جاسکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک کے20 ہزار پولنگ اسٹیشن حساس قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ان حساس پولنگ اسٹیشنوں میں کیمرے لگائے جائیں گے۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ فوج صرف حساس پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کی جائے گی یا تمام اسٹیشنوں پر؟ اسی طرح الیکشن کمیشن نجی ٹی وی چینلز سے بھی ضابطۂ اخلاق طے کرنے اور اس پر عمل درآمد کے لیے رابطہ کرنا چاہتا ہے۔ بہرحال انتظامی امور اور سیکورٹی معاملات کے حل کے لیے بہت سوچ بچار ہورہی ہے۔ یہ انتظامات بھی نہیں ہوئے کہ پولنگ اسٹیشنوں سے نتائج ریٹرننگ افسروں کے دفاتر لے جاتے ہوئے نتائج تبدیل نہ ہوں۔ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اِس بار پریزائیڈنگ افسر پولنگ اسٹیشن سے ہی فارم45 پر رزلٹ درج کرکے اس کی تصویر الیکشن کمیشن کو بھیجے گا۔ جو پریزائیڈنگ افسر فارم 45 کی تصویر نہیں بھیجے گا اُس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اِس بار اضافی بیلٹ پیپر نہیں چھاپے جائیں گے، بیلٹ پیپر سرکاری پریس سے ہی چھپوائے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے انتظامات کہاں تک مکمل ہیں، اور جہاں کمزوریاں ہیں اُن پر کب، کیسے اور کس طرح قابو پایا جانا ہے یہ تمام امور نگران وزیراعظم کو دی جانے والی بریفنگ میں سامنے آجائیں گے۔ لہٰذا ہمیں اس بریفنگ کا انتظار کرنا ہوگا۔
ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہوئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملک بھر کے 8 اضلاع کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو قواعد کے مطابق اضلاع میں ازسرنو حلقہ بندیوں کا حکم دے دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 40 سے زائد درخواستوں پر فیصلہ سنایا اور 8 اضلاع بہاولپور، رحیم یارخان، جھنگ، جہلم، چکوال، ٹوبہ ٹیک سنگ، لوئر دیر اور بٹ گرام کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دے دی ہیں۔ ایسے مزید فیصلے بھی متوقع ہیں۔ امکان اور خیال ہے کہ انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں سمیت بہت سے سوالات اٹھیں گے۔ اِس بار آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر عمل درآمد کے لیے بہت زور ہوگا۔ تمام امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی بہت بڑے سوالات اٹھائے جانے کا بیس کیمپ بننے والے ہیں۔ یہ ایسا مورچہ ہے جہاں بہت سے امیدوار اپنی بندوقیں اور جوتیاں چھوڑ کر بھاگتے نظر آئیں گے۔ اِس بار چھانٹی اور جانچ پڑتال کے عمل کے دوران ریٹرننگ آفیسر امیدواروں کے اقاموں پر بھی نظر رکھیں گے، غالب امکان ہے کہ جب کاغذاتِ نامزدگی کا مرحلہ آئے گا تو عمران خان سمیت بہت سے امیدوار اقاموں کے سوالات کا جواب دیتے نظر آئیں گے۔ یوں کہہ لیں یا سمجھ لیں کہ اِس بار جانچ پڑتال کا عمل سخت چھلنی سے گزرے گا، اور یہی صورتِ حال ملک میں ’’انتخاب سے پہلے احتساب‘‘ میں ڈھل سکتی ہے۔
انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ نے بھی ایک جائزہ مرتب کیا ہے۔ پلڈاٹ کے مطابق اپریل 2017ء سے مارچ 2018ء کے درمیان ایک سال پر محیط عرصے میں پولنگ سے قبل کے الیکٹورل پراسس کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ مجموعی طور پر غیرشفاف تھا۔ سروے کے دوران چار کیٹگریز بنائی گئی تھیں جن میں سے ایک سے 40 پوائنٹس تک بالکل غیر شفاف، 41 سے 60 تک غیرشفاف، 61 سے 80 تک شفاف، اور 81 سے 100کو اچھا قرار دیا گیا تھا۔ سروے کے دوران گیارہ مختلف پیرامیٹرز رکھے گئے جن کی بنیاد پر جوابات اخذ کیے گئے اور 100میں سے 51.5 فیصد جوابات ملے۔ سروے کے دوران دو اداروں کے بارے میں عوام نے انتہائی منفی تاثر دیا اور انہیں نہایت ہی غیرشفاف ٹھیرایا۔ مسلح افواج کی حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان غیر جانب داری کو سب سے کم 33.4 فیصد نمبر ملے، جس کے بعد میڈیا کا نمبر آیا اور 37.8 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ میڈیا حکومتی اداروں اور مالی مفادات سے بالاتر ہے۔ سرکاری میڈیا کو بھی جانب دار قرار دیا گیا اور اس کو 41.5 فیصد ووٹ ملے۔ نیب کے شفاف احتساب کو43.1 فیصد، عدلیہ کی آزادی اور غیرجانب داری کے حق میں بھی صرف 45.8 فیصد لوگوں نے ووٹ دیا۔ صاف اور شفاف انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو 67.3 فیصد، الیکشن کمیشن کی آزادی، غیرجانب داری اور فعالیت کے حق میں 65.3 فیصد ووٹ ملے۔ 11میں سے صرف 3 پیرامیٹرز شفاف کے درجے پر پورے اترے، تاہم بہترین کے درجے پر کوئی بھی نہ پہنچا۔ 61.8 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ صدر مملکت اور گورنروں میں عام انتخابات پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ 57.8 فیصد لوگوں کے خیال میں امن وامان کی بہتر صورتِ حال سیاسی سرگرمیوں کے لیے ضروری ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں عوامی ریلیاں نہیں نکال سکی تھیں، اب اُس کے مقابلے میں حالات زیادہ بہتر ہیں، تاہم یہ پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ کچھ شدت پسند عناصر قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ بعض سیاسی جماعتیں ان کا ٹارگٹ بھی ہوسکتی ہیں۔ بہرحال یہ چیلنجز تو ہیں جن سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔
نگران حکومت چونکہ روزمرہ کے امور کے لیے کام کرے گی لہٰذا اسے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اِس وقت ملک کی معیشت کہاں کھڑی ہے؟ اس حوالے سے نگران حکومت کے اپنے مسائل ہوں گے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابات میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت کو قرضے اور مالی خسارہ ورثے میں ملیں گے۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 14ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور ابھی رواں مالی سال کا ایک ماہ باقی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ خسارہ 18ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا جو قومی پیداوار جی ڈی پی کے 5.3 فیصد کے برابر ہے، جبکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت فنڈنگ کے دوسرے بین الاقوامی اداروں اور مختلف ممالک کے تقریباً 90 ارب ڈالر کے قرضہ جات اس کے علاوہ ہیں۔ جولائی کے آخر میں متوقع عام انتخابات کے نتیجے میں جو بھی سیاسی جماعت حکومت بنائے گی اُسے یہ تمام قرضے اور خسارے ورثے میں ملیں گے۔ تحریک انصاف پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے پہلے سو دنوں کی ترجیحات بیان کی ہیں۔ یہ پلان عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، جہانگیر ترین اور شیریں مزاری نے تیار کیا ہے۔ لیکن کیا یہ پلان قابلِ عمل ہے؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر واقعی انتخابات جولائی میں ہوجاتے ہیں تو نئی حکومت کو اکتوبر تک کا سارا وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں لگ جائے گا اور اسی میں پہلے سو روز بھی مکمل ہوجائیں گے۔ تحریک انصاف کے ماہرین نے نہ جانے کیا سوچ کر یہ پلان بنایا ہے۔ کم از کم وہ یہ پلان بناتے ہوئے گزشتہ سال جولائی سے اکتوبر تک ملک میں سیلاب کی صورتِ حال کا ہی جائزہ لے لیتے تو انہیں بہتر رہنمائی مل جاتی۔ تحریک انصاف کا یہ پلان سیاسی حلقوں میں بحث کی حد تک ایک موضوع کے طور پر تو ٹھیک ہے لیکن ملکی معیشت کا حجم دیکھتے ہوئے عملی طور پر یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں، بلکہ یہ غیر حقیقی دعویٰ ہے کہ ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی۔ یہ محض ایک سہانا خواب یا مقبولِ عام سیاسی نعرہ ہوسکتا ہے۔ اس پلان کی غیر سنجیدگی اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل کرانا بھی 100دنوں کے پلان کا حصہ بنادیا گیا ہے جس کی کوئی وضاحت بھی نہیں دی گئی ہے۔ اِس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ اس بارے میں ان 100دنوں میں خاموشی ہے۔ بھارت کے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کو 20 سے 25 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہوگا، یہ سندھ طاس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس پر بھی تحریک انصاف کی قیادت مکمل خاموش ہے، البتہ سیاسی نعرہ دیا ہے کہ پہلے 100دنوں میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبے کی حیثیت دی جائے گی۔ یہ کس طرح ممکن ہوگا؟ اس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ تحریک انصاف کو شاید معلوم ہی نہیں کہ سیاسی نعرے اور سنجیدہ قانون سازی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ لیکن کیا انہیں آئین کی پہلی شق میں ترمیم کرنے کے لیے مطلوبہ تعداد میسر ہوگی؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ کیا تحریک انصاف کی قیادت ان حالات میں ایک کروڑ ملازمتوں کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہو پائے گا؟ اس پر اقتصادی ماہرین بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوگا، کیونکہ آبادی کے تناسب اور جاری اقتصادی صورتِ حال میں کوئی بھی ملک اتنی بڑی تعداد میں ملازمتوں کا بندوبست کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اقتصادی طور پر مضبوط ممالک بھی چند ہزار ملازمتیں پیدا کرکے اسے عوامی پذیرائی اور حکومت کی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کے پاس ایسی کون سی اقتصادی گیدڑ سنگھی ہوگی کہ وہ یہ ہدف پورا کرلے گی؟ اس کے لیے وہ خیبر پختون خوا میں حکومت کے تجربے کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انھوں نے وہاں حکومت بنانے سے پہلے جو کہا وہ پورا کیا؟ اور اب کیا ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہوچکا؟ اور تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں تمام وعدے پورے کرچکی؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اگر 100دن میں 100فیصد نہیں تو کچھ نہ کچھ تو کر ہی لے گی۔ لیکن اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے، اور عوام ہی جمہوریت میں بہترین جج ہوا کرتے ہیں جو ووٹ کے ذریعے فیصلہ کریں گے۔
اب آخر میں نوازشریف کا کیس۔۔۔ اس کیس میں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر اپنے حق میں دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ ان تینوں نے ایک ہی طرح کے جواب دیے ہیں، اس میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ زیادہ اور قانونی نکات پر بہت کم بات ہوئی ہے۔ نوازشریف نے اس تنقید کا جواب دیا کہ وہ اپنے مقدمے کے حوالے سے بنیادی انسانی حق کی بات کرتے ہیں کہ انہیں آرٹیکل 10 الف کے تحت نہیں سنا گیا۔ یہ اعتراض پہلی بار اٹھایا گیا ہے اور یہ اعتراض کسی حد تک درست بھی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 10 الف کہتا ہے کہ ’’قانون ہر شہری کو جب اُس پر کوئی الزام لگ جائے تو آزادی کے ساتھ اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیتا ہے‘‘۔ نوازشریف کے بقول اس کیس میں انہیں ہراساں کرتی ہوئی قوتوں کا سامنا ہے۔

نگراں وزیراعظم۔۔۔ جسٹس ناصر الملک

پاکستان کے نگران وزیراعظم کے لیے حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر پاکستان کے بائیسویں چیف جسٹس رہنے والے جسٹس(ر) ناصرالملک کا انتخاب کیا ہے اور ان کے نام کا باضابطہ طورپر اعلان بھی کردیاگیا۔ 6جولائی 2014ء سے 16 اگست 2015ء تک ناصرالملک پاکستان کے چیف جسٹس رہے، وہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں۔ جسٹس ناصرالملک اُن ججوں میں شامل تھے جنہیں پرویزمشرف نے پی سی او کے تحت گھر بھیجا کیونکہ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا، بلکہ وہ اس بینچ کا حصہ بھی تھے جس نے ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا تھا۔ خیبر پختون خوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے جسٹس (ر) ناصرالملک کے والد سیٹھ کامران 1970ء کی دہائی میں پاکستان کے سینیٹر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ ان کے چھوٹے بھائی شجاع الملک بھی سینیٹر رہے ہیں، جبکہ ایک اور بھائی رفیع الملک سوات کے سابق میئر رہ چکے ہیں۔ 67 سالہ ناصرالملک نے عدلیہ میں اپنی خدمات کے دوران نوازشریف کی نااہلی کے لیے دائر چار درخواستیں مسترد کیں، 2013ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی اور نئے انتخابات کے لیے تحریک انصاف کی درخواست پر جوڈیشل کمیشن بنایا اور پھر ان الزامات کو مسترد کیا۔ اسی طرح فوجی عدالتوں سے متعلق آئینی ترمیم کا معاملہ سپریم کورٹ آیا تو انہوں نے ترمیم کو درست قرار دیا تاہم رائے دی کہ پارلیمنٹ ہی سپریم ہے۔ ناصرالملک اُس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے توہینِ عدالت کے الزام میں سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو نااہل قرار دیا تھا۔